Getty Images
یہ جنوبی افریقہ یا فلسطینیوں کے لیے مکمل فتح نہیں ہے۔
عالمی عدالتِ انصاف نے اسرائیل کو اپنی عسکری مہم روکنے کا حکم نہیں دیا جو بظاہر ان کی جانب سے اسرائیل پر سات اکتوبر کو حماس کی جانب سے کیے جانے والے حملے کے بعد اس کے دفاع کے حق کو تسلیم کرنے کے مترادف تھا۔
تاہم اقوامِ متحدہ کی سب سے اعلیٰ عدالت نے یہ بات تسلیم کی ہے کہ غزہ میں اس وقت تباہ کن صورتحال ہے۔
اہم بات یہ ہے کہ عدالت کی جانب سے یہ بھی کہا گیا ہے کہ جب تک عدالت نسل کشی سے متعلق حتمی فیصلہ دیتی ہے، جس میں کئی سال لگ سکتے ہیں تو اس دوران صورتحال کا ’مزید خراب ہونے کا قوی امکان ہے‘۔
اس کی وجہ سے اس نے اسرائیل سے متعدد مطالبات کیے ہیں جو ان نو ’عارضی اقدامات‘ کے مطابق ہیں جن کا جنوبی افریقہ کی جانب سے مطالبہ کیا گیا تھا۔
عدالت کے 17 میں سے ججوں کی اکثریت نے فیصلہ دیا ہے کہ اسرائیل کو اپنی طاقت کے مطابق ہر وہ کام کرنا چاہیے تاکہ وہ فلسطینیوں کو قتل کرنے سے گریز کرے، انھیں شدید جسمانی یا ذہنی نقصان نہ پہنچائے اور نہ ہی غزہ میں ناقابل برداشت صورتحال پیدا کرے یا فلسطینیوں کی پیدائش کو جان بوجھ کر نہ روکے۔
عدالت نے یہ بھی کہا ہے کہ اسرائیل کو مزید اقدامات اٹھانے چاہییں تاکہ وہ نسل کشی پر اکسانے والوں کو ’روک سکے اور انھیں سزا دے سکیں۔‘
غزہ میں موجودہ انسانی بحران کے حوالے سے ’فوری اور مؤثر اقدامات‘ اٹھانے کے بارے میں بھی بات کی گئی ہے۔
یہ جنگ بندی کا حکم تو نہیں ہے لیکن مطالبات کا ایک سلسلہ ہے جس پر اگر عمل درآمد کیا جائے تو یہ اسرائیل کی غزہ میں فوجی مہم کی نوعیت یکسر تبدیل کر دے گا۔
Getty Images
اسرائیل کی جانب سے غزہ میں نسل کشی کے الزامات کی سختی سے تردید کی جاتی رہی ہے اور یہ دعویٰ کیا گیا ہے کہ حماس فلسطینی شہریوں کی زندگیوں کو خطرے میں ڈالنے کا ذمہ دار ہے۔
ان کا دعویٰ ہے کہ حماس گنجان آباد غزہ میں اور اس کے زیرِ زمین کام کرتا ہے جہاں پناہ گزین کیمپ بھی موجود ہیں جس کے باعث اسرائیل کے لیے ناممکن ہو جاتا ہے کہ وہ اپنے حملوں میں عام شہریوں کو ہلاک نہ کرے۔
اس کا یہ بھی کہنا ہے کہ اس کی جانب سے عام شہریوں کو خطرات سے بچنے کے بارے میں تفصیل سے بتایا گیا ہے۔
اسرائیل کے یہودی شہری دنیا بھر میں یہ سمجھتے ہیں کہ ’یہ فوج دنیا کی سب سے اخلاقی اعتبار سے مضبوط‘ فوج ہیں۔
تاہم اکتوبر کے آغاز سے اسرائیل کے ردِعمل کے باعث غزہ کے 85 فیصد آبادی یعنی 23 لاکھ افراد کو نقل مکانی پر مجبور کیا ہے۔
جو افراد ایسی جگہوں سے فرار حاصل کرنے میں کامیاب ہو بھی جاتے ہیں تو انھیں پرہجوم پناہ گاہوں جہاں طبی سہولیات تیزی سے ختم ہو رہی ہیں اور انسانی صحت کے لیے درکار وسائل تیزی سے ختم ہو رہے ہیں۔
Getty Images
جب عدالتِ انصاف کی جانب سے فیصلہ سنایا گیا تو اس کی امریکی صدر جوان ڈونوگھ نے بولنا شروع کیا تو یہ بات واضح تھی کہ غزہ میں بگڑتی صورتحال عدالت کے سامنے سرِفہرست مسائل میں سے تھی اور اسرائیل کی جانب سے پورا کیس ختم کرنے کی کوشش ناکام رہی۔
جج ڈونوگھ نے اس حوالے سے غزہ کی پٹی میں فلسطینیوں کو پیش آنے والے مسائل کے بارے میں تفصیل سے بات کی۔ انھوں نے کہا کہ چھوٹے بچوں کے ساتھ درپیش صورتحال ’خاص طور پر دل توڑ دینے والی ہے۔‘
یہ نسل کشی پر عدالت کا حتمی فیصلہ نہیں ہے، اس میں ابھی کئی سال لگ سکتے ہیں۔ تاہم گذشتہ روز جن اقدامات کا اعلان کیا گیا ان کے باعث فلسطینیوں کو غزہ میں تحفظ فراہم کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔
اسرائیل کو اب یہ فیصلہ کرنا ہے کہ وہ اس بارے میں کیا ردِ عمل دیتا ہے۔ عالمی عدالتِ انصاف کے فیصلوں پر عمل درآمد کرنا لازمی ہے لیکن کوئی ایسا طریقہ کار موجود نہیں ہے جس کے تحت ان پر عمل درآمد یقینی بنایا جا سکے۔ اسرائیل ججوں کے احکامات کو مکمل طور پر نظر انداز بھی کر سکتا ہے۔
اسرائیل ججوں کے فیصلوں کو مکمل طور پر نظر انداز بھی کر سکتا ہے لیکن اب کیونکہ دو ماہ کے لیے جنگ بندی کے لیے کی سفارتی کوششیں کی جا رہی ہیں اور غزہ میں امداد کی فراہمی کے لیے امداد کی فراہمی بہتر بنائی جا رہی ہے تو اسرائیل یہ مؤقف بھی اختیار کر سکتا ہے کہ وہ پہلے ہی یہ سب کچھ کر رہا ہے۔
اسرائیل ایک ایسا ملک ہے جو دنیا میں اب تک نسل کشی کی بدترین مثالوں میں سے ایک کے باعث وجود میں آیا ہے اور اب اسے آئندہ چند سال تک عدالت کی جانب سے نسل کشی سے متعلق فیصلے کے انتظار میں گزارنے ہیں۔
Getty Imagesعالمی عدالتِ انصاف نے کیا فیصلہ دیا ہے؟
عالمی عدالتِ انصاف نے اسرائیل کی جنوبی افریقہ کا کیس نہ سننے کی درخواست مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس کے پاس جنوبی افریقہ کی جانب سے اسرائیل کے خلاف غزہ میں مبینہ نسل کشی سے متعلق کیس سننے کا اختیار ہے۔
عدالت کی جانب سے اسرائیل کو غزہ میں ہلاکتوں اور نقصان کم کرنے کا حکم دیا گیا ہے تاہم غزہ میں فوجی آپریشن بند کرنے یا جنگ بندی کا حکم نہیں دیا۔
عالمی عدالت انصاف کی جانب سے سُنائے گئے فیصلے میں کہا گیا ہے کہ ’اسرائیل کو حکم دیتے ہیں کہ وہ اپنے اختیار میں موجود تماماقدامات اٹھائے تاکہ غزہ میں نسل کشی کے مترادف واقعات سے بچا جا سکے اور نسل کشی پر اُکسانے والوں کو سزا دی جائے۔‘
عالمی عدالت انصاف کا مزید کہنا ہے کہ ’اسرائیل اس بات کو یقینی بنائے کہ اس کی فوجیں غزہ میں نسل کشی نہ کریں اور مبینہ نسل کشی کے شواہد کو محفوظ رکھا جائے۔‘
خیال رہے کہ جنوبی افریقہ نے عالمی عدالت انصاف میں 84 صفحات پر مشتمل ایک قانونی درخواست جمع کروائی تھی جس میں کہا گیا تھا کہ اسرائیل کے اقدامات ’نسل کشی کے مترادف‘ ہیں کیونکہ ان کا مقصد ’غزہ میں فلسطینیوں کے ایک اہم حصے کو تباہ کرنا ہے۔‘
فیصلے میں عالمی عدالتِ انصاف کا مزید کہنا ہے کہ ’اسرائیل کو عدالت کے سامنے ایک ماہ کے بعد ایک رپورٹ پیش کرنی ہو گی جس میں یہ بتانا ہو گا کہ اسرائیل نے غزہ میں نسل کشی سے بچنے کے لیے کیا اقدامات اٹھائے ہیں۔‘
’اس فیصلے سے اسرائیل پر عالمی آئین کے مطابق ذمہ داریاں عائد ہو جاتی ہیں۔‘
عدالت کا اپنے حکم میں یہ بھی کہنا ہے کہ اسرائیل کو غزہ میں انسانی امداد اور بنیادی سروسز کی فراہمی کے لیے ’فوری اور مؤثر اقدامات اٹھانے‘ کی ضرورت ہے۔