انڈیا اور پاکستان دونوں دعویدار، برطانوی راج کی بگھی نئی دہلی کو کیسے ملی؟

اردو نیوز  |  Jan 26, 2024

جمعے کو انڈیا کے 75 ویں یوم جمہوریہ کی صبح صدر دروپدی مرمو اور فرانسیسی صدر ایمانوئیل میکخواں نے صدارتی رہائش گاہ راشٹرپتی بھون سے کرتویہ پتھ پر شاندار پریڈ دیکھنے کے لیے نوآبادیاتی دور کی ایک بگھی میں سفر کیا۔

انڈین نیوز چینل این ڈی ٹی وی کے مطابق 40 سال کے وقفے کے بعد تقریبات میں حصہ لینے کے لیے اس صدارتی بگھی نے معمول کی بلٹ پروف لیموزین کی جگہ لی۔

بگھی کی تاریخ چھ گھوڑے اس سیاہ رنگ کی بگھی کو کھینچتے ہیں۔ اس آرام دہ بگھی میں سنہرے رنگ کے رِمز لگے ہیں اور اس کا اندرونی حصہ لال مخمل کا ہے جس پر ایک اشوک چکر بھی لگا ہوا ہے۔ یہ اصل میں برطانوی دور حکومت کے وائسرائے ہند کا تھا۔ یہ بگھی اُس وقت رسمی امور کے لیے استعمال ہوتی تھی۔

تاہم جب نوآبادیاتی دور حکمرانی ختم ہوئی تو انڈیا اور نوزائیدہ پاکستان دونوں نے اس پرتعیش بگھی کو حاصل کرنے کی کوشش کی۔ یہ فیصلہ کہ کون سا ملک اس بگھی کو رکھے گا، اس کے لیے دونوں ممالک نے ایک انوکھا حل نکالا۔

بگھی کی قسمت کا فیصلہ ٹاس کے ذریعےدونوں پڑوسیوں نے بگھی کے حصول کے لیے فیصلہ قسمت پر چھوڑ دیا اور ٹاس کے ذریعے بگھی کے حصول کا فیصلہ کیا۔ انڈیا کے کرنل ٹھاکر گووند سنگھ اور پاکستان کے صاحبزادہ یعقوب خان نے ٹاس کیا اور بگھی انڈیا کے پاس رہ گئی۔

بعد میں انڈیا کے صدر نے حلف برداری کی تقریب کے لیے اس بگھی کا استعمال راشٹرپتی بھون سے پارلیمان تک کرنے کے لیے کیا۔

آزادی کے کئی سال بعد اس کھلی بگھی کا استعمال سکیورٹی خطرات کی وجہ سے بند کر دیا گیا تھا۔ اس روایتی گاڑی کی جگہ بلٹ پروف گاڑیوں نے لی۔

2014 میں اُس وقت کے صدر پرناب مکھرجی بیٹنگ ریٹریٹ کی تقریب میں شرکت کے لیے اس بگھی میں پہنچے تھے۔

ہندوستان ٹائمز کے مطابق 1984 تک یہ بگھی یوم جمہوریہ کی تقریبات کے لیے استعمال میں تھی لیکن اُس وقت کی وزیراعظم اندرا گاندھی کے قتل کے بعد اسے سکیورٹی وجوہات کی بنا پر اس کا استعمال بند کر دیا گیا تھا اور صدور نے تقریبات میں شرکت کے لیے لیموزین کا استعمال شروع کر دیا تھا۔

مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More