پلوشہ خان کا تلخ کلامی کے بعد واک آؤٹ اور علیم خان کی ’معذرت‘: سینیٹ کی قائمہ کمیٹی کے اجلاس میں کیا ہوا؟

بی بی سی اردو  |  Dec 19, 2025

’مجھ سے اس طرح بات کرنے کی جرات کیسے کی۔۔۔ آپ غصہ اس لیے کر رہے ہیں کیونکہ آپ قصوروار ہیں۔‘

یہ منظر تھا سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے مواصلات کے اجلاس کا، جس میں وفاقی وزیر مواصلات علیم خان اور پاکستان پیپلز پارٹی کی رہنما پلوشہ خان کے درمیان شدید تلخ کلامی ہوئی۔

جمعے کو سینیٹر پرویز رشید کی سربراہی میں قائمہ کمیٹی برائے مواصلات کا اجلاس ہوا، جس میں وفاقی وزیر مواصلات علیم خان سے کمیٹی ارکان نے مختلف سوالات پوچھے لیکن سینیٹر پلوشہ خان کی جانب سے پوچھے گئے سوال پر علیم خان اور اُن کے درمیان تلخ جملوں کا تبادلہ ہوا۔

اجلاس کی وائرل ویڈیو میں دیکھا جا سکتا ہے کہ کمیٹی کے ارکان، دونوں کے درمیان بیچ بچاؤ کروانے کی کوشش کرتے ہیں لیکن بظاہر اس میں ناکام رہتے ہیں۔

قائمہ کمیٹی کے اجلاس میں کیا ہوا؟

اجلاس کے دوران پلوشہ خان سے تلخ کلامی کے دوران علیم خان نے کہا کہ ’مجھ پر ہاؤسنگ سوسائٹی کو فائدہ پہنچانے کا الزام لگایا گیا، میں اس سوال کو اپنی تذلیل سمجھتا ہوں۔‘

علیم خان کا کہنا تھا کہ ’میں اس لیول پر نہیں آنا چاہتا، جس پر آپ آ گئی ہیں۔ میں نے تو جواب دے دیا، آپ جواب نہیں دے پائیں گی۔‘

غصے میں بھرے علیم خان نے یہاں تک کہہ دیا کہ ’اس کمیٹی میں سارے بے ایمان بیٹھے ہوئے ہیں۔‘

اس دوران پلوشہ خان نے علیم خان کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ آپ اس سوال پر غصہ اس لیے کر رہے ہیں، کیونکہ آپ قصوروار ہیں۔‘

اجلاس کے بعد میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے سینیٹر پلوشہ خان کا کہنا تھا کہ میں نے اُن سے یہ سوال نہیں کیا تھا کہ سیلاب کے دوران اُن کی سوسائٹی کیسے ڈوبی اور کیسے لوگ کو لاوارث چھوڑ دیا گیا تھا، میرا سوال کچھ اور تھا۔

پلوشہ خان نے کہا کہ حکومت، خود کو اب جواب دہ ہی نہیں سمجھتی، کیا اب یہ ڈنڈے سے لوگوں کو خاموش کروائیں گے۔

اُن کا کہنا تھا کہ ’کمیٹی کے ارکان کو بے ایمان کہا گیا حالانکہ ان کی اپنی وزارت کے کرتوت آئی ایم ایف کی رپورٹ میں ہیں۔‘

واضح رہے کہ اگست میں پاکستان میں آنے والے سیلاب کی وجہ سے لاہور میں واقع علیم خان کی سوسائٹی پارک ویو کا کچھ حصہ بھی دریائے راوی میں آنے والے سیلاب کی زد میں آ گیا تھا۔

اس وقت متاثرین کی جانب سے یہ الزامات لگائے گئے تھے کہ یہ سوسائٹی، دریا کی زمین پر بنائی گئی، جس کی وجہ سے لوگوں کے گھر ڈوبے لیکن علیم خان کا کہنا تھا کہ اُنھوں نے سرکاری محکموں کی اجازت سے یہ زمین خریدی۔

بی بی سی نے اس معاملے پر جب علیم خان کا موقف جاننے کے لیے ان کے پرسنل سیکرٹری گوہر عزیز سے رابطہ کیا تو انھوں نے اس پر مزید تبصرہ کرنے سے انکار کرتے ہوئے کہا کہ علیم خان کا مؤقف وہی ہے، جو وہ قائمہ کمیٹی کے اجلاس میں بیان کر چکے ہیں۔

بی بی سی نے اس معاملے پر موقف جاننے کے لیے کمیٹی کے چیئرمین پرویز رشید کو بھی پیغامات بھیجے لیکن اُن کی جانب سے تاحال کوئی ردِعمل سامنے نہیں آیا۔

AFPتلخ کلامی کے بعد پلوشہ خان کا اجلاس سے واک آؤٹ

اس اجلاس پر سینیٹ آف پاکستان کی جانب سے جاری کیے گئے اعلامیے میں کہا گیا ہے کہ وفاقی وزیر علیم خان نے کمیٹی کو رنگ روڈ اور پارک ویو کے مسائل پر بھی بریفنگ دیتے ہوئے واضح کیا کہ یہ معاملہ پہلے سینیٹ میں زیرِ بحث آیا تھا اور پارک ویو کی سہولت کے لیے اقدامات کیے گئے تھے۔

اعلامیے کے مطابق چیئرمین کمیٹی نے بریفنگ پر اطمینان کا اظہار کیا اور کہا کہ ان کے تحفظات کو مناسب طریقے سے دور کیا گیا۔

اعلامیے کے مطابقوفاقی وزیر علیم خان اور سینیٹر پلوشہ خان کے درمیان تلخ الفاظ کا تبادلہ ہوا۔ چیئرمین کے کہنے پر عبد العلیم خان نے پلوشہ خان سے معذرت کر لی جس کے بعد باقی ایجنڈے کو آئندہ اجلاس تک موخر کر دیا گیا۔

اجلاس کی کوریج کرنے والے ایک صحافی نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بی بی سی کو بتایا کہ پلوشہ خان نے علیم خان کی اسلام آباد میں واقع سوسائٹی سے متعلق سوال کیا تھا، جس پر دونوں کے درمیان تلخ کلامی ہوئی۔

صحافی کا کہنا تھا کہ کمیٹی کے ارکان کو یہ بھی گلہ تھا کہ ماضی میں مختلف اجلاسوں میں بلانے پر علیم خان اجلاس میں نہیں آتے تھے لیکن جمعے کو جب وہ آئے تو اُن کی پلوشہ خان کے ساتھ جھڑپ ہو گئی۔

اُن کا کہنا تھا کہ سکریٹری ہاوسنگ نے دونوں کے درمیان بیچ بچاؤ کرانے کی کوشش کی لیکن اس دوران پلوشہ خان، اجلاس سے واک آؤٹ کر گئیں۔

سوشل میڈیا پر ردِعمل

وفاقی وزیر اور پاکستان پیپلزپارٹی کی سینیٹر کے درمیان سینیٹ میں ہونے والی تلخ کلامی پر سوشل میڈیا پر بھی بات کر رہے ہیں۔

بعض صارفین ایک خاتون سے ایسی تلخ زبان میں بات کرنے پر علیم خان کو تنقید کا نشانہ بھی بنا رہے ہیں۔

ایکس پر صارف حمزہ اظہر لکھتے ہیں کہ کسی شریف آدمی کو کسی خاتون سے اس طرح بات نہیں کرنی چاہیے۔ پلوشہ خان، سینیٹر ہیں اور ایک سیاسی پارٹی کے سربراہ اور میڈیا چینل کے مالک کو یہ رویہ زیب نہیں دیتا۔

اس پر عدنان علی نامی صارف کا کہنا تھا کہ یہ بھی تو نہیں ہونا چاہیے کہ ایک خاتون مسلسل بول رہی ہوں اور دوسرا شخص جواب بھی نہ دے۔

زبیر احمد نامی صارف کا کہنا تھا کہ یہ آپ کے وفاقی وزیر ہیں، سوال پوچھنے پر اتنا بھڑک رہے ہیں۔

عمید علی نامی صارف لکھتے ہیں کہ دو ارکان پارلیمنٹ کے درمیان گرما گرمی نے پارلیمنٹ میں اپنائے جانے والے طرز عمل پر سنگین سوالات کھڑے کر دیے ہیں۔

عائشہ وحید لکھتی ہیں کہ مجھے خوشی ہے کہ پلوشہ خان، ڈٹی رہیں اور وزیر کے رویے پر سوال اُٹھاتی رہیں۔

علیم خان کا شمار ماضی میں پاکستان تحریک انصاف کے بانی چیئرمین عمران خان کے قریبی ساتھیوں میں ہوتا رہا ہے لیکن اُنھوں نے عمران خان سے راہیں جدا کر کے سیاسی جماعت استحکام پاکستان پارٹی میں شمولیت اختیار کر لی تھی۔

علیم خان اب استحکام پاکستان پارٹی کے صدر ہیں۔ اُن کی لاہور اور اسلام آباد میں رہائشی سوسائٹیاں بھی ہیں جبکہ وہ نیوز چینل سما نیوز کے بھی مالک ہیں۔

لاہور کی رہائشی سوسائٹی جہاں سیلاب لوگوں کی جمع پونجی بہا لے گیا: ’سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ گھر چھوڑنا ہے یا رُکنا ہے؟‘ایمل ولی اور چیئرمین پی ٹی اے کے درمیان ’چرس پینے‘ کے الزام سے شروع ہونے والی تلخ کلامی، برطرفی کا مطالبہ اور پھر صلحجاوید چوہدری کے پروگرام میں سیاستدانوں کی ہاتھا پائی: اس ناخوشگوار واقعے کا ذمہ دار کون اور شو میزبان کو کیا کرنا چاہیے؟
مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More