Getty Images
سابق وزیر اعظم عمران خان اور سابق وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کے خلاف سائفر مقدمے کی سماعت راولپنڈی اڈیالہ جیل میں پیر کے روز ہونا تھی تو مجھ سمیت مقامی اور بین الاقوامی میڈیا کے ارکان اس یقین کے ساتھ جیل کے اندر ہونے والی اس عدالتی کارروائی کو دیکھنے کی خواہش لیے اڈیالہ جیل کے باہر صبح سویرے ہی پہنچ گئے کہ آج تو اس مقدمے کی سماعت کرنے والے جج ابوالحسنات ذوالقرنین اپنے فیصلے میں عمل درآمد کرتے ہوئے باقی میڈیا کے ارکان کو بھی جیل کے اندر جانے کی اجازت دیں گے جنھیں سنیچر کے روز ہونے والی سماعت کے دوران ’جیل کے حکام‘ نے عدالتی حکم کی خلاف ورزی کرتے ہوئے کمرۂ عدالت میں جانے سے روک دیا تھا۔
لیکن یہ کیا کہ آج بھی وہی عمل دہرایا گیا جو گذشتہ سماعت کے دوران دہرایا گیا تھا۔
آج اور سنیچر کے روز ہونے والی کارروائی میں فرق یہ تھا کہ پہلی سماعت کی کوریج کے لیے تین صحافیوں کو لے جایا گیا لیکن اس مرتبہ مقامی میڈیا سے تعلق رکھنے والے چھ افراد کو جیل کے اندر قائم عدالت کی کارروائی دیکھنے کی اجازت دی گئی۔
دلچسپ امر یہ ہے کہ آج کی عدالتی کارروائی کی کوریج کرنے والے صحافیوں کی آدھی تعداد ایسی تھی جنھیں عدالتی کارروائی کور کرتے ہوئے پہلے نہیں دیکھا گیا۔
جیل سپرٹینڈنٹ کی طرف سے آج کی عدالتی کارروائی کے لیے فوکل پرسن کو تبدیل کر دیا اور عمران نامی ڈپٹی سپرنٹینڈنٹ کو فوکل پرسن مقرر کر دیا لیکن نتیجہ دونوں سماعتوں میں ایک ہی جیسا تھا یعنی جن صحافیوں کو کمرۂ عدالت میں جانے کی اجازت نہیں دی گئی ان کی فرسٹریشن میں اضافہ۔
BBC
اس مقدمے کی سماعت کرنے والے جج ابوالحسنات ذوالقرنین آج بھی اپنی گاڑی خود چلا کر اڈیالہ جیل پہنچے اور انھوں نے گیٹ کے باہر موجود صحافیوں کو دیکھا لیکن آج ان کے چہرے پر مسکراہٹ نہیں تھی جس طرح گذشتہ سماعت پر تھی بلکہ آج ان کے چہرے پر سنجیدگی تھی جس کا صحافیوں نے یہ نتیجہ اخد کیا کہ شائد متعلقہ جج سنیچر کو ہونے والی عدالتی کارروائی میں صحافیوں کو اندر جانے کی اجازت نہ دینے کی وجہ سے سنجیدہ ہیں لیکن صحافیوں کا یہ نتیجہ بھی خام خیالی سے زیادہ اور کچھ نہیں تھا۔
ملکی اور بین الاقوامی میڈیا سے تعلق رکھنے والے جنھیں کمرۂ عدالت میں جانے کی اجازت نہیں دی گئی وہ اس امید کے ساتھ جیل کے باہر انتظار کرتے رہے کہ شائد ان کا بھی اندر جانے کا بلاوا آجائے لیکن دو گھنٹوں کے انتظار کے بعد جب اندر سے کوئی جواب نہ آیا تو صحافی بظاہر جیل کے عملے کو برا بھلا کہتے ہوئے اپنے گھروں کو روانہ ہو گئے۔
جن چھے صحافیوں کو اندر لے جایا گیا ان میں مقامی صحافی ثاقب بشیر بھی شامل تھے۔
انھوں نے بی بی سی کو بتایا کہ جب ان کی تلاشی لینے اور ہاتھ پر کلیئرنس کی مہر لگانے کے بعد کمرۂ عدالت میں لے جایاگیا تو انھوں نے اس مقدمے کی سماعت کرنے والے جج کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ ابھی بھی 20 سے 25 صحافی جیل کے باہر موجود ہیں جن میں مقامی اور انٹرنیشنل میڈیا کے نمائندے بھی موجود ہیں وہ سارے اس انتظار میں ہیں کہ انھیں بھی اندر بلایا جائے۔
انھوں نے کہا کہ اڈیالہ جیل کے سپرنٹیڈنٹ اسد جاوید وڑائچ جج کی کرسی کے ساتھ کھڑے تھے تو جج ابوالحسنات ذوالقرنین کے انھیں مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ اس معاملے کو دیکھیں لیکن ثاقب بشیر کے بقول جیل سپرنٹینڈنٹ ٹس سے مس نہیں ہوئے۔
’صحافیوں کو اندر بلانے کا فیصلہ کہیں اور سے ہوتا ہے‘BBC
انھوں نے بتایا کہ پانچ منٹ کے وقفے کے بعد جب جج کی توجہ اس جانب دوبارہ مبذول کروائی گئی تو انھوں نے دوبارہ اسی طرح کا ’جیسچر‘ دیا لیکن اس مرتبہ بھی ان کے حکم کا نتیجہ پہلے سے مختلف نہیں تھا یعنی کال کے منتظر صحافیوں کو اندر نہیں بلایا گیا۔
اور پھر اس طرح ملزمان عمران خان اور شاہ محمود قریشی کو سائفر مقدمے میں اب تک ہونے والیتفتیش کی نقول فراہم کردی گئیں۔
اڈیالہ جیل کی انتظامیہ سے رابطہ کر کے جب پوچھا گیا کہ وہ عدالتی حکم پر عمل درآمد کیوں نہیں کرتے یعنی وہ صحافیوں کو اندر آنے کی اجازت کیوں نہیں دیتے تو حکام کا کہنا تھا کہ صحافیوں کو اندر بلانے کا فیصلہ ان کا نہیں بلکہ کہیں اور سے ہوتا ہے اور جب ’کہیں اور‘ کے بارے میں پوچھا گیاتو ان کا کہنا تھا کہ یہ ایک ایسا سوال ہے جس کا جواب سب کو معلوم ہے۔
آج کی عدالتی کارروائی میں پی ٹی آئی کے رہنما بابر اعوان سب سے پہلے وکلا ٹیم کی جانب سے اڈیالہ جیل پہنچنے۔ بابر اعوان کے بارے میں سوشل میڈیا پر یہ مہم چلائی گئی کہ سابق وزیر اعظم عمران خان نے جن وکلا سے ملنے سے انکار کیا ان میں بابر اعوان بھی شامل تھے۔
’پانچ اگست اور چار دسمبر کے عمران خان میں کوئی فرق نہیں‘Getty Images
ثاقب بشیر کے مطابق سماعت کے دوران عمران خاننے نیلے رنگ کی جرسی اور گرے رنگ کا ٹریک سوٹ کا پاجامہ پہنچا ہواتھا اور وہ اسی طرح متحرک تھے جس طرح اس سال اگست میں متحرک دکھائی دیتے تھے۔ انھوں نے کہا کہ عمران خان سماعت کے دوران وکلا کو مختلف معاملات میںہدایات دے رہے تھے۔
انھوں نے کہا کہ صحافیوں کے ساتھ گفتگو میں جس طرح ملٹری اسٹیبلشمنٹ کی سابق لیڈر شب یعنی جنرل قمر جاوید باجوہ اور سابق حکمراں جماعت پاکستان مسلم لیگ (ن) کی قیادت کو تنقید کا نشانہ بنا رہے تھے اس کو دیکھ کر یہ کہا جاسکتا ہے کہ ’پانچ اگست اور چار دسمبر کے عمران خان میں کوئی فرق نہیں‘
صحافی ثاقب بشیر کے بقول عمران خان بین الاقوامی میڈیا کے نمائندوں کو بھی کمرۂ عدالت میں دیکھنا چاہتے ہیں اور جس کے بارے میں ان کے وکلا کی جانب سے بھی عدالت کو بارہا کہا گیا کہ ان صحافیوں کو کمرۂ عدالت میں لایا جائے لیکن اس پر بھی عدالت نے کوئی حکم جاری نہیں کیا۔
انھوں نے کہا کہ عمران خان کو شائد اس بات کا اندازہ ہے جس طرح انٹرنیشنل میڈیا ان کے موقف کی کوریج کرتا ہے اس طرح مقامی میڈیابعض مصلحتوں کی وجہ سے ایسا کرنے سے قاصر ہے۔
سنیچر کے روز ہونے والی سماعت میں جس مقامی صحافی نے عدالت میں جج کو مخاطب کرتے ہوئے یہ کہا کہ بڑی تعداد میں صحافی جیل کے گیٹ پر موجود ہیں انھیں آج کمرۂ عدالت میں جانے کی اجازت نہیں دی گئی اور وہاں پر تعینات عملے نے انھیں محاطب کرتے ہوئے کہا کہ ان کا نام لسٹ میں نہیں ہے حالانکہ اس وقت تک ان افراد اور صحافیوں کی لسٹ منظوری کی لیے اندر گئی ہی نہیں تھی۔
عمران خان اور شاہ محمودقریشی پر فرد جرم 12 دسمبر کو عائد کی جائے گی اور وہ صحافی جنھیں ابھی تک جیل کے اندر نہیں بلایا گیا وہ اس امید کے ساتھ 12 دسمبر کی صبح جیل کے باہر پہنچ جائیں گے کہ شائد اب کی بار جج اپنے فیصلے پر عمل کرواتے ہوئے انھیں اندر بلالیں لیکن گذشتہ سماعتوں کو دیکھتے ہوئے یہ کہا جاسکتا ہے کہ آئندہ سماعت پر بھی حالات اس سے مختلف نہیں ہوں گے۔