Getty Images
حماس اور اسرائیل کے درمیان سات اکتوبر سے جاری ہلاکت خیز جنگ میں جہاں آگ اور بارود کا راج رہا ہے وہیں کچھ وقت کے لیے ہی سہی لیکن اس جنگ میں امید کی کرن بھی سامنے آئی ہے۔ یہ امید ہے فلسطین کے مغربی کنارے میں بسنے والے ان خاندانوں کے لیے جن کے پیارے ایک عرصے سے اسرائیل کی قید میں تھے۔
حماس اور اسرائیل کے درمیان قیدیوں کے تبادلے کے معاہدے کے تحت اب اسرائیل نے اپنی قید سے ایسے فلسطینیوں کو بھی رہا کیا ہے جن کا تعلق غزہ سے نہیں جہاں حماس کی حکومت ہے بلکہ وہ مغربی کنارے میں رہتے ہیں۔
یہی وجہ ہے کہ جب مغربی کنارے سے تعلق رکھنے والے 39 فلسطینی قیدیوں کو اسرائیل نے رہا کیا تو پھر اس علاقے میں جشن کا سا سماں پیدا ہو گیا۔ ان کے گھروں کے باہر چند حماس کے جھنڈوں کے علاوہ فلسطینی جھنڈے بھی لہراتے نظر آئے۔
اسرائیل کی قید سے رہائی پانے والے فلسطینی قیدیوں کے خاندان مقبوضہ مغربی کنارے میں اپنے پیاروں کی واپسی کا جشن منا رہے ہیں، جو یہاں کے رہائشی فلسطینیوں کے لیے ایک نئی بات ہے۔
اسرائیل کی طرف سے سکیورٹی کے نام پر اس علاقے کے شہریوں کی گرفتاریوں کو یہاں کی مقامی آبادی اسرائیل کی طرف سے مغربی کنارے پر قبضہ جمانے کے حربے قرار دیتے ہیں۔ ان قیدیوں پر قتل اور پُرتشدد حملوں سے لے کر اسرائیلیوں پر پتھر پھینکنے تک کے مقدمات درج ہیں۔
متعدد فلسطینیوں کا کہنا ہے کہ اسرائیل آزادی کی جدوجہد کرنے والوں کی کوششوں کو مجرمانہ رنگ دینے کی کوشش کرتا آ رہا ہے۔ مغربی کنارے کی ایک چوتھائی آبادی اسرائیل کی جیلوں میں رہ چکی ہے۔ اس اعتبار سے یہاں کے لوگ اسرائیلی جیلوں سے خوب واقفیت رکھتے ہیں۔
فلسطین کے قیدیوں سے متعلق کلب (پی پی سی) کا کہنا ہے کہ اسرائیل نے سات اکتوبر سے لے کر اب تک تقریباً 900 بچوں سمیت 3000 سے زیادہ قید کیے ہیں۔
ان کے مطابق ان قیدیوں کی اکثریت کو بغیر کسی فرد جرم کے انتظامی بنیادوں پر قید میں رکھا گیا۔کلب کے مطابق ان قیدیوں کی اکثریت نہ تو کسی سیاسی یا عسکری گروپ کا حصہ ہے۔
سات اکتوبر کے بعد سے ان قیدیوں سے ان کے قریبی رشتہ داروں اور وکلا کو بھی ملنے تک نہیں دیا گیا۔ اس عرصے میں دوران قید چھ قیدیوں کی ہلاکت بھی ہوئی۔
کلب نے اسرائیل پر اپنے نظام انصاف کو انتقامی پالیسی کے طور پر استعمال کرنے کا الزام عائد کیا ہے۔
یہاں اسرائیل کی فوجی عدالتوں پر لوگوں کا اعتماد نہ ہونے کے برابر ہے۔ ان فوجی عدالتوں پر انسانی حقوق کی تنظیموں کے مطابق ’مغربی کنارے میں 99 فیصد شہریوں کو غلط سزائیں سنائی ہیں۔‘
اسرائیل کی طرف سے 39 فلسطینی خواتین اور کم عمر قیدیوں کی رہائی قیدیوں کے اس سمندر کا محض ایک قطرہ ہے۔ یہ رہائی البتہ یہ ضرور ظاہر کرتی ہے کہ کیسے کبھی کبھار فلسطینی اسرائیل کو اپنی مرضی کے اقدامات کرنے پر مجبور کرنے میں کامیاب رہتے ہیں۔
فلسطین کے ایک سینیئر سیاستدان مصطفیٰ برغوتی نے بی بی سی کو بتایا کہ ’حماس اور اسرائیل کے درمیان ہونے والے معاہدے میں فلسطینوں کی رہائی اہم حصہ تھا جبکہ یہی بات بتاتی ہے کہ کیوں یہ معاہدہ فلسطینیوں کے لیے اہمیت کا حامل ہے۔‘
ان کے مطابق ’اسرائیل کی طرف سے دعوؤں کے باوجود اس معاہدے کو اس طرف ایک اشارہ بھی قرار دیا جا سکتا ہے کہ اب مکمل جنگ بندی بھی ممکن ہو سکے گی۔‘
Getty Images
خیال رہے کہ اسرائیل نے یہ کہا ہے کہ وہ یرغمالیوں کی رہائی کے بعد حماس کے مکمل خاتمے تک جنگ جاری رکھے گا۔
ڈاکٹر برغوتی کے مطابق اسرائیل اس سے قبل بھی بہت کچھ کہہ چکا ہے۔ ان کے مطابق ’وہ کہتے تھے کہ وہ حماس کا خاتمہ کر دیں گے مگر اب وہ حماس کے ساتھ مذاکرات بھی کر رہے ہیں۔‘
اسرائیل کا کہنا ہے کہ اس کا حماس کے خاتمے اور حماس کی قید میں یرغمالیوں کی رہائی کے اہداف میں کسی قسم کا کوئی تضاد نہیں ہے۔ تاہم اسرائیل کی فوج میں یہ رائے پائی جاتی ہے کہ یہ معاہدہ حماس کو نئے سرے سے متحد ہونے کا موقع فراہم کرے گا۔
اس معاہدے سے مغربی کنارے میں حماس کے سیاسی قد و کاٹھ میں بھی اضافہ ہوا ہے۔ یہاں بیتونیا چیک پوائنٹ پر جو لوگ رہا ہو کر آنے والے فلسطینیوں کے استقبال کے لیے کھڑے ہیں وہ اس کا سہرا حماس کو دیتے ہیں۔
یہ رائے بھی پائی جاتی ہے کہ یہ سب فلسطینیوں کی وجہ سے ممکن ہو سکا ہے۔
حنان برغوتی نے رہا ہونے کے بعد میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ’ہم اس سرزمین کے مالک ہیں۔ وہ دہشتگرد ہیں۔ انھوں نے ہماری زمین ہتھیائی ہوئی ہے۔ انھوں نے ہمیں انتقامی کارروائیوں کا نشانہ بنایا ہوا ہے۔ اس چیز نے ہمارے اندر مزاحمت کا جذبہ پیدا کر دیا ہے۔ جب ہمارے بچے بڑے ہوں گے تو وہ بھی مزاحمت کریں گے۔
’ابھی جو بچے پیدا نہیں بھی ہوئے ہیں وہ بھی حماس کا حصہ ہوں گے چاہے اسرائیل اسے پسند کرے یہ نہ کرے۔‘
Getty Images’قید تنہائی میں رکھا گیا، جیل کے اندر دوسرے وارڈ کی بھی کوئی خبر نہیں تھی‘
مرح بکیر 22 برس کی پہلی فلسطینی ہیں جنھیں حماس اور اسرائیل کے معاہدے کے بعد رہائی ملی ہے۔ انھیں 16 سال کی عمر میں 2015 میں گرفتار کیا گیا تھا۔
انھیں بارڈر پولیس افسر پر چاقو سے حملہ کرنے کے الزام میں ساڑھے آٹھ سال قید کی سزا سنائی گئی تھی۔ ان کا کہنا تھا کہ ’قید تنہائی بڑی (عجیب) چیز ہے، خاص طور پر جب سے انھوں نے مجھے لڑکیوں کے وارڈ سے علیحدہ کیا تو مجھے کچھ نہیں پتا چلا رہا تھا کہ وہاں کیا ہو رہا ہے۔
’یہ سب کچھ بہت مشکل تھا۔ مگر جب خدا پر ایمان ہو تو سب کچھ آسان ہو جاتا ہے۔ خدا کا شکر ہے یہ وقت بھی گزر ہی گیا۔‘
گذشتہ روز رہائی پانے والی 24 فلسطینی خواتین میں سے ایک مرح بكير نے صحافیوں کو بتایا کہ ’یہ معاہدہ کئی لوگوں کی ہلاکتوں کے بعد ہوا جس سے ہمیں افسوس اور دکھ پہنچا ہے۔‘ یروشلم میں اپنی والدہ کے گھر آمد پر کہا کہ ’معاہدے کی خبر (ہمارے لیے) سرپرائز تھی۔‘
ان کے مطابق ’اگرچہ ہمیں اس کی امید تھی مگر پھر بھی ڈیل کی خبر ان کے لیے بہت حیرت زدہ کر دینے والی تھی۔ یہ بات بھی اہم ہے کہ مجھے کچھ نہیں پتا چلا رہا تھا کہ باہر کیا ہو رہا ہے اور غزہ میں کیا چل رہا ہے۔‘
انسانی حقوق پر کام کرنے والے وکیل محمد خطیب کا کہنا ہے کہ وہ اس بات کو زیادہ پسند کریں گے کہ اگر حماس کی قید میں یرغمالیوں کی رہائی کی شرط کے بغیر یہ فلسطینی رہا کیے جاتے۔
ان کے مطابق مسئلہ یہ ہے کہ اسرائیل نصیحت حاصل کرنے سے قبل ایسا کرنے پر آمادہ نہیں ہوتا۔
ان کے مطابق حماس کے یرغمالیوں کے بغیر اسرائیل ان شہریوں کو جیل سے باہر آنے کی اجازت کبھی نہ دیتا۔
ان کا کہنا ہے کہ ’یہ فلسطینیوں اور اسرائیلیوں کے لیے امید کی کرن بھی ہے۔ اس سب کا مقصد یہی ہے کہ وہ ہمیں انسان سمجھیں۔ وہ ہمارے انسانی حقوق کو تسلیم کریں۔‘
ان کا کہنا ہے کہ ’ہم انسان ہیں، ہمارے کوئی نام ہیں، خاندان ہیں اور ہماری بھی کوئی زندگیاں ہیں۔ میں نے یہ سب ایک رہا ہونے والے فلسطینی بچے کی آنکھوں میں دیکھا ہے۔‘
ان کے مطابق یہاں قیدیوں کی رہائی ایک بہت خوفناک حملے، تباہ کن جنگ اور یرغمالیوں کے بحران کے بعد ہی ممکن ہو سکی۔
Getty Images
عبداللہ زغرے کا کہنا ہے کہ قیدیوں کی رہائی میں ایک لطف ضرور ہے مگر یہ مکمل جشن نہیں ہے کیونکہ اس کے لیے گذشتہ 45 دنوں میں فلسطینیوں نے بھاری قیمت ادا کی ہے۔
ایمان برغوتی نے اپنے قریبی رشتہ دار حنان کا استقبال کیا۔ انھوں نے بی بی سی کو بتایا کہ ان کا خاندان غزہ میں اسرائیلی بمباری سے مرنے، زخمی اور گھر سے دربدر ہونے والے فلسطینیوں کے احترام میں اس رہائی پر عوامی سطح پر یہ اس رہائی کا جشن نہیں منائے گی۔
ان کے مطابق وہ جتنے خـاندانوں کو بھی جانتی ہیں وہ سب ایسا ہی کر رہے ہیں۔
تاہم جب ان فلسطینی قیدیوں کو ایک بس لے کر بیتونیا سے اندر داخل ہوئی تو فلسطینیوں کی بڑی تعداد نے اس رہائی پر جشن منایا۔ یہ قیدیوں کے خاندانوں کے لیے ایک خوشی کا لمحہ تھا اور مغربی کنارے میں بسنے والے فلسطینیوں کے لیے جشن کا بھی موقع ہے۔
بس کی کالی کھڑکیوں کے پیچھے سے کچھ قیدی ڈانس کرتے ہوئے دکھائی دے رہے تھے جن میں سے ایک فلسطینی پرچم میں لپٹے ہوئے ڈانس کر رہا ہے۔
جہاں تک بات اب اسرائیل کی ہے تو وہ اب بھی رہا ہونے والے قیدیوں کو سکیورٹی رسک ہی سمجھ رہا ہے۔
وہ فلسطینی جو ان قیدیوں کی رہائی کا جشن منانے کے لیے آئے ہوئے تھے وہ اسرائیلی قبضوں کے متاثرین ہیں اور ان فلسطینیوں کی رہائی ایک بڑے ہدف کی طر بڑھنے کی ایک علامت ہے۔