پیٹ کمنز: غیر روایتی آسٹریلوی کپتان جنھوں نے ایک مسلمان کھلاڑی کے لیے شراب پارٹی رکوا دی

بی بی سی اردو  |  Nov 22, 2023

Getty Images

’مجھے احمد آباد کے سٹیڈیم میں لاکھوں شائقین کو خاموش کروانے سے بہت اطمینان ملا۔‘ یہ الفاظ آسٹریلیا کی کرکٹ ٹیم کے کپتان پیٹ کمنز نے انڈیا کو ورلڈ کپ فائنل میں شکست دینے کے بعد ادا کیے لیکن ان کے ان الفاظ کو احساس برتری کا اظہار قرار نہیں دیا جا سکتا کیونکہ کمنز ایک عام آسٹریلوی کپتان نہیں۔

اس تحریر میں ہم آپ کو بتائیں گے کہ ایسا کیوں ہے۔

وہ کپتان جو مخالفین کے ذہنوں سے کھیلتے ہیں

مارک ٹیلر، ایلن بارڈر، سٹیو وا، رکی پونٹنگ اور مائیکل کلارک جیسے کپتانوں نے سنہ 1990 سے 2000 کی دہائی میں مخالف کھلاڑیوں کے ساتھ ساتھ حریف کے ذہنوں سے بھی کھیلنے کا فن سیکھا۔

یہ ایسے کپتان تھے جو مخالف کو بھٹکانے کے لیے کسی مخصوص کھلاڑی پر جملے کستے یا پھر اچھی فارم والے بلے باز کو نشانہ بناتے۔

تو پھر کمنز کیسے مختلف ہیں؟

کمنز ایک الگ سے کپتان اس لیے بنے کیونکہ انھوں نے کہا کہ ’میں مخالفین پر جملے کسنے میں وقت ضائع کرنے کی بجائے جیت پر دھیان دینے پر یقین رکھتا ہوں۔‘

واضح رہے کہ پیٹ کمنز کے خلاف اب تک کرکٹ کی دنیا میں ایسی کوئی شکایت بھی سامنے نہیں آئی۔

فائنل میچ میں بھی 15 اوورز تک پیٹ کمنز نے اپنی روایتی کپتانی دکھائی لیکن جب وراٹ کوہلی اور راہل کی پارٹنر شپ ٹوٹی تو کمنز اچانک پرجوش ہوئے لیکن اس سے پہلے تک وہ سنجیدہ چہرے کے ساتھ میدان میں موجود رہے۔

Getty Imagesپونٹنگ اور کمنز

رکی پونٹنگ نے سنہ 2007 میں جنوبی افریقہ کے خلاف ورلڈ کپ سیمی فائنل سے قبل ایک انٹرویو میں کہا کہ ’جیک کیلس اچھے کھلاڑی ہیں اور ان کا ریکارڈ بہت اچھا ہے لیکن وہ ہمارے خلاف کچھ نہیں کر پائیں گے۔ اگر ہمارا منصوبہ کامیاب رہا تو ہم کیلس کو شکست دیں گے۔‘

رکی پونٹنگ اکثر مخالف کھلاڑیوں کو نیچا دکھانے کی کوشش کیا کرتے تھے لیکن کمنز نے کبھی بھی کسی مخالف ٹیم کے کھلاڑی کے بارے میں ایسے الفاظ استعمال نہیں کیے جن سے یہ تاثر ملے کہ وہ کسی کی بے عزتی کر رہے ہیں۔

جب فائنل میں انڈیا کے بلے باز آؤٹ ہوتے جا رہے تھے تب بھی کمنز نے ان کے قریب سے گزرتے ہوئے چہرے سے بھی کوئی منفی تاثر نہیں دیا۔

’حادثاتی‘ کپتان

کمنز ’حادثاتی‘ طور پر آسٹریلیا کے کپتان بنے۔ انھوں نے ایک تنازع میں گھرے ٹم پین سے کمان لی اور اس کے بعد ورلڈ ٹیسٹ چیمپیئن شپ میں آسٹریلیا کو فتح سے ہمکنار کروایا۔

رے لنڈوال کے بعد 65 سال میں کمنز پہلے فاسٹ بولر ہیں جنھوں نے ٹیسٹ میں آسٹریلیا کی کپتانی کی۔

جس وقت انھیں کپتان بنایا گیا تو اس وقت تک انھوں نے صرف چار ایک روزہ میچوں میں ہی ٹیم کی کپتانی کر رکھی تھی۔ اس وقت تنقید ہوئی کہ کرکٹ بورڈ نے ایک ایسے کھلاڑی کو کپتان بنا دیا، جس کے پاس اہم ورلڈ کپ سیریز کا تجربہ ہی نہیں۔

Getty Images

اس کے بعد جب پہلے دو میچوں میں آسٹریلیا کو شکست ہوئی تو کمنز پر دباؤ بڑھ گیا لیکن ابتدائی شکست کے بعد کمنز کی منصوبہ بندی بالکل درست ثابت ہوئی۔ کپتانی کے ساتھ ساتھ ان کی بولنگ بھی بہتر ہوئی۔

کہا جاتا ہے کہ ورلڈ کپ سے قبل آسٹریلیا کی ٹیم نے ہر انڈین کھلاڑی کا انفرادی سکیچ تیار کر رکھا تھا۔ روہت شرما کی کمزوری کیا ہے، ان کو کھیل سے کیسے باہر کیا جائے، ورات کوہلی کا رن ریٹ کیسے قابو میں رکھا جائے اور کے ایل راہل پر کیسے دباو ڈالا جائے۔

کہا جاتا ہے کہ کپتان کو صرف منصوبہ سازی ہی نہیں بلکہ اس پر عمل درآمد بھی آنا چاہیے۔ کمنز نے کامیابی سے تمام منصوبوں کو مکمل کیا اور روہت شرما کو بڑی شاٹ کھیلنے پر مجبور کرتے ہوئے آوٹ کیا۔

اسی طرح وراٹ کوہلی کے لیے اضافی فیلڈر تعینات کیے گئے جن کے باعث وہ بے صبری کا شکار ہوئے۔دیکھا جائے تو پہلے 10 اوور کے بعد باقی میچ مکمل طور پر آسٹریلیا کی گرفت میں رہا۔

کمنز کی بلے بازی

کمنز اچھے بولر ہی نہیں بلکہ ضرورت پڑنے پر عمدہ بلے بازی بھی کر سکتے ہیں۔ ایشز سیریز کے دوران پہلے ٹیسٹ میچ میں جیت کے لیے 281 رنز درکار تھے اور آسٹریلیا 221 رن پر آٹھ وکٹیں گنوا چکا تھا جب کمنز میدان میں آئے اور ناقابل شکست 44 رنز بنا کر ٹیم کو فتح سے ہمکنار کروایا۔

افغانستان کے خلاف ورلڈ کپ میچ کے دوران کمنز نے میکسویل کا بھرپور ساتھ دیا اور 68 گیندوں کا سامنا کرتے ہوئے صرف 12 رن بنائے لیکن آؤٹ نہیں ہوئے۔

اگر آسٹریلیا یہ میچ ہار جاتا تو ان کے لیے فائنل تک رسائی مشکل ہو جاتی۔ ایک کپتان کی حیثیت سے کمنز نے اس بات کو یقینی بنایا کہ بولنگ اور بلے بازی دونوں میں ہی وہ ایسی کارکردگی دکھائیں کہ ٹیم کامیاب ہو۔

Getty Imagesنوجوانی میں ٹیم کا حصہ

کمنز 2011 میں آسٹریلیا کی ٹیم کا حصہ بنے تو ان کی عمر صرف 18 سال تھی۔ ان کے دائیں ہاتھ کی درمیان کی انگلی کم عمری میں دروازے میں پھنسنے سے ضائع ہو گئی تھی لیکن اس کے باوجود دائیں ہاتھ سے ہی بولنگ کرتے ہوئے وہ تیز رفتار بولر بنے۔

ریان ہیرس کی ریٹائرمنٹ کے وقت جب ایک بولر کی جگہ خالی ہوئی تو اسے کمنز نے پر کیا۔ 2017 میں، چھ سال بعد، ان کی ٹیم میں جگہ مستقل ہو گئی تھی۔

ایک مختلف کپتان

کمنز نے کپتان بننے کے بعد سے خود کو دیگر آسٹریلوی کپتانوں سے منفرد ثابت کیا۔ وہ ہر وقت مسکراتے ہوئے نظر آتے ہیں اور اپنے ساتھی کھلاڑیوں کے ساتھ نرم دلی سے پیش آنےکے لیے مشہور ہیں۔

کہا جاتا ہے کہ وہ بولر کو مکمل آزادی دیتے ہیں کہ وہ کس قسم کی بولنگ کروانا چاہتا ہے اور کیسی فیلڈ چاہتا ہے۔

کوچ مائیکل ہوگن نے کمنز کے ساتھ کھیلا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ ’کمنز کی مسکراہٹ بہت خوبصورت ہے۔ وہ ایک چیمپیئن کھلاڑی ہیں۔‘

ایسا بہت کم ہوتا ہے کہ دباؤ میں آ کر کمنز میدان میں چلاتے ہوئے نظر آئیں یا خوشی سے بے قابو ہو جائیں۔ ان کا جواب زیادہ تر ان کی مسکراہٹ ہی ہوتی ہے۔ کمنز مخالف کھلاڑیوں سے بحث کرنا بھی پسند نہیں کرتے اور نہ ہی مخلاف بلے بازوں پر جملے کستے ہیں جو آسٹریلیا کی کرکٹ کی ایک پرانی اور مشہور روایت رہی ہے۔

Getty Imagesمسلمان کھلاڑی کے لیے شراب پارٹی چھوڑ دی

کمنز اکثر ہار جانے کے بعد اپنے ساتھی کھلاڑیوں کے دفاع میں بات کرنے کے لیے بھی جانے جاتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ بطور کپتان شکست کی ذمہ داری وہ خود لیتے ہیں اور اس کا ذمہ اپنے ساتھی کھلاڑیوں پر نہیں ڈالنا چاہتے۔

وہ اپنے ساتھی کھلاڑیوں کے جذبات کا بھی احترام کرتے ہیں۔ ورلڈ ٹیسٹ چیمپیئن شپ میں جیت کے موقع پر جب آسٹریلوی ٹیم نے شراب کے ساتھ جشن منانا چاہا تو ٹیم میں شامل مسلمان کھلاڑی عثمان خواجہ نے اپنے مذہبی عقائد کی وجہ سے اس جشن میں حصہ نہیں لیا۔

جب کمنز نے یہ دیکھا تو انھوں نے اپنے ساتھی کھلاڑیوں کو شراب کے ساتھ جشن منانے نہ دیا۔ کمنز کے اس عمل کی وجہ سے سب کے دل میں ان کی عزت اور احترام میں اضافہ ہوا۔

کپتان نے اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوایا

کمنز کا ٹیلنٹ اس ورلڈ کپ فائنل میں کھل کر سامنے آیا۔ کمنز نے انڈین ٹیم کے ہر کھلاڑی کے لیے الگ حکمت عملی وضع کی۔ انھوں نے خود کو ایک عظیم کپتان ثابت کیا۔ ان کے مطابق محض حکمت عملی بنانا اہم نہیں بلکہ میدان میں اس کو مکمل طور پر لے کر آگے بڑھنا اور کپ جیتنا اہم ہے۔

ورلڈ کپ میں آسٹریلیا کی قیادت کرنے والے رکی پونٹنگ، سٹیو وا اور ٹیلر جیسے سابق کپتان تجربے سے بھرپور ہیں لیکن کمنز واحد کپتان تھے جنھوں نے کم تجربہ رکھنے والی ٹیم کی قیادت کی اور ٹرافی جیتی۔

کمنز کی کپتانی کے بارے میں بات کرتے ہوئے سینیئر سپورٹس صحافی متھو کمار نے کہا کہ کمنز کا یہ بیان کہ وہ ایک لاکھ مداحوں کو خاموش کر دیں گے، غالب ذہنیت کا عکاس نہیں۔

انھوں نے مزید کہا کہ ’ہمیں کمنز کی بات کو غلط نہیں سمجھنا چاہیے۔ یہ غالب ذہنیت نہیں۔ آسٹریلیا قدرتی طور پر کھیلوں کا ملک ہے۔ وہاں کے کھلاڑی قدرتی طور پر اپنے مخالفین سے اس طرح بات کرتے ہیں۔‘

مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More