BBC
18 نومبر کی رات سوشل میڈیا پر وائرل ویڈیو نے طوفان برپا کر دیا جسے پوسٹ کرتے ہوئے یہ دعوی کیا گیا کہ کرتار پور گردوارہ کے احاطے میں ایک پارٹی کا اہتمام کیا گیا جس میں گوشت اور شراب موجود تھی۔
واضح رہے کہ سکھوں کرتار پور وہ مقام ہے جہاں سکھوں کے پہلے گرو نانک دیو جی نے اپنی زندگی کے آخری ایام گزارے تھے جہاں ان کی ایک سمادھی اور قبر بھی ہے جو سکھوں اور مسلمانوں کے لیے ایک مقدس مقام کی حیثیت رکھتے ہیں۔
تاہم 18 نومبر کو وائرل ہونے والی اس ویڈیو اور اس سے منسوب دعووں کے بعد انڈیا میں مختلف سیاسی اور مذہبی جماعتوں کی جانب سے گوردوارے میں مبینہ طور پر پارٹی کے اہتمام پر تنقید کی۔
شرومنی اکالی دل نامی جماعت کے صدر سکھبیر سنگھ بادل نے ایکس اکاؤنٹ پر لکھا کہ ’گردوارہ کرتار پور صاحب میں اس واقعے نے پوری دنیا میں سکھ برادری کے جذبات کو ٹھیس پہنچائی ہے۔‘ انھوں نے لکھا کہ پاکستان سکھ گوردوارہ مینجمنٹ کمیٹی کو اس خلاف ورزی کے بارے میں متعلقہ حکام کو رپورٹ کرنی چاہیے۔
دوسری جانب بی جے پی کے رہنما منجندر سنگھ سرسا نے بھی اس معاملے پر ایکس اکاؤنٹ پر لکھا کہ پروجیکٹ مینجمنٹ یونٹ کے سی ای او سید ابوبکر قریشی نے گوردوارہ دربار صاحب کے احاطے میں ایک نان ویجیٹیرین پارٹی کا اہتمام کیا، جس میں 80 لوگوں نے شرکت کی۔ ’ڈی سی نارووال اور نارووال کے پولیس افسران بھی ان میں شامل تھے۔ میں اس معاملے میں حکومت پاکستان کے خلاف کارروائی اور فوری احتساب کا مطالبہ کرتا ہوں۔‘
سرسا نے یہ معاملہ انڈیا کے وزیر خارجہ ایس جے شنکر کے ساتھ بھی اٹھایا اور ایک خط لکھ کر ان سے مداخلت کا مطالبہ تک کیا۔
اسی طرح شرومنی گوردوارہ پربندھک کمیٹی نے بھی اس معاملے پر سخت تبصرہ کیا اور کمیٹی کے صدر ہرجیندر سنگھ دھامی نے کہا کہ ’یہ مسئلہ احترام سے متعلق ہے، گوردوارہ کے آداب کو ملحوظ خاطر رکھنا چاہیے۔ ‘
اکال تخت کے سابق ایگزیکٹیو جتھیدار گیانی ہرپریت سنگھ نے کہا کہ ’یہ انتہائی افسوس ناک ہے اور ذمہ داروں کے خلاف کارروائی کرنی چاہیے۔‘
تاہم بعد میں یہ معلوم ہوا کہ یہ ویڈیو کرتار پور، جو پاکستان کے نارووال ضلع میں واقع ہے، کی تو ہے اور واقعی ایک پارٹی کی ہے لیکن اس کا مقام گوردوارہ نہیں تھا اور نہ ہی یہاں شراب موجود تھی۔
ڈنر پارٹی کا اہتمام کیوں اور کس نے کیا؟
واضح رہے کہ کرتارپور میں واقع دربار صاحب گرودوارہ کا انڈین سرحد سے فاصلہ چند کلومیٹر کا ہی ہے اور گزشتہ حکومت کے دور میں ایک راہداری کے ذریعے انڈیا سے عقیدت مندوں کے سفر کو آسان بنانے کے لیے ایک راہداری کا آغاز کیا گیا تھا۔
کرتار پور راہداری کی پراجیکٹ مینجمنٹ یونٹ کی جانب سے جاری کردہ ایک بیان میں ہی اس پارٹی کے انعقاد کی تصدیق کی گئی اور کہا گیا کہ ان کی جانب سے دی گئی ڈنر پارٹی میں کئی محکموں نے شرکت کی۔
ان میں ضلع نارووال کے تمام اہم سرکاری ادارے، ضلعی انتظامیہ، پولیس، پاکستان رینجرز، ٹورزم پولیس، ہائی وے پولیس اور محکمہ اطلاعات کے علاوہ میڈیا گروپس بھی شامل تھے۔
یونٹ کی طرف سے جاری کردہ بیان میں اس ڈنر پارٹی کے مقصد کی بھی وضاحت کی گئی ہے۔ ان کے مطابق اس پارٹی کا مقصد کرتارپور کے فیز 2 کے لیے تمام محکموں کے درمیان رابطہ اور تعاون بڑھانا تھا۔
AFP
یونٹ کی جانب سے جاری بیان کے مطابق ’ڈی سی نارووال اور دیگر متعلقہ حکام نے کرتارپور کی مزید ترقی اور مذہبی سیاحت کے فروغ کے لیے بھرپور تعاون فراہم کرنے کا عزم ظاہر کیا اور ڈی سی نے اس بات پر زور دیا کہ کرتار پور کی ترقی اور مذہبی سیاحت ضلع نارووال اور ملک کی سماجی و اقتصادی ترقی میں اہم کردار ادا کرے گی۔‘
انڈین پنجاب کے سپیکر کا دورہ:’سوشل میڈیا پر ایک منفی پروپیگنڈہ کیا گیا‘
ادھر انڈین پنجاب اسمبلی کے سپیکر کلتار سنگھ سندھوا پہلے سے ہی طے شدہ پروگرام کے مطابق گوردوارہ کرتار پور صاحب پہنچے تو معاملے کی سنگینی کو دیکھتے ہوئے انھوں نے گردوارہ دربار صاحب کرتار پور کے ہیڈ گرنتھی گوبند سنگھ سے ملاقات کی۔
اس معاملے کا ذکر کرتے ہوئے ہیڈ گرنتھی گوبند سنگھ نے کہا کہ ’سوشل میڈیا پر ایک منفی پروپیگنڈہ چلایا جا رہا ہے اور کہا جا رہا ہے کہ پراجیکٹ مینجمنٹ یونٹ (PMU) نے گردوارہ صاحب کی عزت کو نقصان پہنچایا اور شراب پیش کی گئی۔‘
انھوں نے وضاحت دی کہ ڈنر پارٹی کا اہتمام گرودوارہ صاحب سے دو کلومیٹر دور کیا گیا تھا، جہاں پی ایم یو کے افسران اور عملہ رہتے ہیں۔
اس وضاحت پر بعد میں انڈین پنجاب اسمبلی کے سپیکر کلتار سنگھ سندھوا نے کہا کہ ’ہم نے گردوارہ صاحب کے ہیڈ گرنتھی سے اس بارے میں پوچھا۔ اور انھوں نے واضح کیا کہ کھانے کا انتظام گرو صاحب کے احاطے سے 2 کلومیٹر دور کیا گیا تھا۔‘
سندھوا نے مزید کہا کہ ’میرے خیال میں یہ معاملہ یہیں ختم ہونا چاہیے۔‘
کرتار پور کوریڈور کے سفیر رمیش سنگھ اروڑہ نے بھی ایک بیان جاری کرتے ہوئے کہا کہ ’ویڈیو میں نظر آنے والی پارٹی 18 نومبر کو قریبی پلاننگ ڈیپارٹمنٹ کمپلیکس میں ہوئی تھی اور اس کا کرتار پور کوریڈور سے کوئی تعلق نہیں ہے۔‘
رمیش سنگھ اروڑہ نے کہا کہ ’یہ پارٹی گوردوارہ کی حدود سے باہر آئی ہے اور کرتار پور گوردوارہ کمیٹی کی حدود میں نہیں آتی۔‘
رمیش سنگھ اروڑہ نے یہ بھی کہا کہ ’سوشل میڈیا پر جو تصویریں شیئر کی جا رہی ہیں وہ بغیر کسی سیاق و سباق کے ہیں۔‘