1987 میں آسٹریلیا کے کپتان ایلن بارڈر اپنی ٹیم کے ہمراہ لاہور سے کولکتہ پہنچے تو حیران کن مناظر ان کے سامنے تھے، ایک لمحے کے لیے انہیں ایسا لگا جیسے وہ کولکتہ نہیں میلبورن میں ہیں۔ایلن بارڈر ورلڈ کپ فائنل کے لیے ایڈن گارڈن میں اترے تو وہ ایم سی جی کا منظر پیش کررہا تھا۔ دراصل، انڈین فینز کو زیادہ خوشی اس بات کی تھی کہ آسٹریلوی ٹیم انڈیا کے روایتی حریف پاکستان کو سیمی فائنل میں ہرا کر کول کتہ پہنچی تھی۔فائنل میں آسٹریلیا کا مقابلہ انگلینڈ سے تھا جس نے سیمی فائنل میں انڈیا کو شکست دی تھی۔ فائنل میں تماشائیوں کی مکمل سپورٹ کینگروز کے ساتھ تھی۔سابق آسٹریلوی کپتان اسٹیو واہ نے کتاب Out of My Comfort Zone میں لکھا ہے ’جب ہم انڈیا کی سرزمین پر اترے تو لوگوں کی طرف سے بہت پیار ملا کیونکہ ہم نے انڈیا کے روایتی حریف کو اسی کے میدان میں زیر کیا تھا۔‘ٹورنامنٹ سے پہلے ماہرین کا خیال تھا کہ ورلڈ کپ فائنل پاکستان اور انڈیا کے درمیان ہوگا مگر دونوں میزبان ملک سیمی فائنل ہار گئے اور آسٹریلوی کپتان ایلن بارڈر نے ایڈن گارڈن کے جھومتے گاتے پرجوش کراؤڈ کے سامنے پہلی بار ورلڈ کپ ٹرافی اٹھائی۔ ناقابل شکست آسٹریلیاچوتھے عالمی کپ کی فتح نے آسٹریلوی ٹیم کو وہ طاقت دی کہ یہ اگلے سالوں میں ناقابل شکست قوت بن کر ابھری۔اسی دوران ویسٹ انڈیز کے زوال نے آسٹریلیا کے عروج کا راستہ کھول دیا۔ آسٹریلیا نے 1999، 2003 اور 2007 کے ورلڈ کپ جیت کر ہیٹ ٹرک کی۔1999 سے 2011 تک آسٹریلیا ورلڈکپ مقابلوں میں لگاتار 34 میچز تک ناقابل شکست رہنے والی واحد ٹیم ہے۔ یہ ایک ایسا ریکارڈ جو شاید کوئی دوسری ٹیم مدتوں نہ توڑ سکے۔ آسٹریلیا ریکارڈ 8 ورلڈ کپ فائنل کھیلنے کا منفرد اعزاز رکھتی ہے۔ آسٹریلوی کرکٹ کی انفرادیتانڈین ٹیم کے مزاج کو بدلنے میں سابق انڈین کپتان سارو گنگولی کا بہت بڑا کردار ہے مگر گنگولی خود آسٹریلوی کرکٹ ماڈل سے مرعوب تھے۔ہدف کے تعاقب میں آسٹریلیا کی پہلی تین وکٹیں صرف 47 رنز پر گریں، مگر ٹریوس ہیڈ دیوار بن گئے۔ (فوٹو: اے ایف پی)اپنی کتاب A Century is Not Enough میں گنگولی لکھتے ہیں: ’میں آسٹریلیا کے کرکٹ کھیلنے کے انداز سے متاثر تھا، اور اپنی ٹیم میں بھی یہی سپرٹ لانا چاہتا تھا، میرے ذہن میں یہ بات بالکل واضح تھی کہ میں جیت کے لیے کھیلوں گا اور اگر اس کوشش میں ہار بھی گیا تو کوئی پرواہ نہیں۔‘دراصل بے پناہ اعتماد، کبھی ہار نہ ماننے کا جذبہ اور ہر صورت جیت کا تعاقب ہی آسٹریلیا کی وہ خصوصیت ہے جو اسے دوسری ٹیموں سے ممتاز کرتی ہے۔ اس جذبے کی ایک جھلک جنوبی افریقہ کے خلاف 1999 کے ورلڈ کپ سiمی فائنل کے آخری اوور میں دیکھی گئی۔ پاکستان کے خلاف 2021 کے ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ کا سیمی فائنل اور میتھیو ویڈ کے شاہین آفریدی کو لگاتار تین چھکے بھی اسی خوبی کی نشاندہی کرتے ہیں۔ آئی پی ایل فیکٹرماضی میں ایشین کنڈیشنر میں خود کو منوانا آسٹریلیا کے لیے ہمیشہ بڑا چیلنج تھا مگر آسٹریلوی کرکٹرز کی مسلسل آئی پی ایل میں شرکت نے انہیں انڈین کنڈیشنز سے ہم آہنگ کردیا ہے۔آسٹریلوی اوپنر ڈیوڈ وارنر 176 آئی پی ایل میچز کا تجربہ رکھتے ہیں، وہ 6397 رنز کے ساتھ آئی پی ایل کی تاریخ کے تیسرے کامیاب ترین بلے باز ہیں۔گلین میکسویل 124 آئی پی ایل میچز کا تجربہ رکھتے ہیں۔ ماضی کی نسبت آج آسٹریلوی ٹیم ڈرائی پچز پر ایشیائی ٹیموں کا برابر مقابلہ کرتی ہے۔ احمد آباد میں خاموشیآسٹریلیا کے کپتان پیٹ کمنز نے احمد آباد اسٹیڈیم میں انڈین ٹیم کے لیے یکطرفہ سپورٹ پر بات کرتے ہوئے فائنل سے پہلے کہا تھا کہ ’ایک لاکھ تیس ہزار افراد کو خاموش کرانے سے زیادہ اطمینان بخش کوئی دوسری چیز نہیں۔‘ویراٹ کوہلی انڈین ٹیم کے کامیاب ترین بلے باز نہیں بلکہ انڈیا کے لیے سب سے زیادہ ٹیسٹ میچز جیتے کا اعزاز بھی رکھتے ہیں۔ (فوٹو: اے ایف پی)احمد آباد میں ویراٹ کوہلی 54 رنز بنا کر پیٹ کمنز کی گیند پر بولڈ ہوئے تو نریندر مودی سٹیڈیم میں مکمل خاموشی چھا گئی، پیٹ کمنز نے جو کہا تھا کر دکھایا۔148 رنز پر 4 وکٹیں گرنے کے بعد انڈین ٹیم کی بڑے ہدف کی جانب پیش قدمی رک گئی۔ ٹورنامنٹ کے سب سے بڑے میچ میں انڈین ٹیم صرف 240 رنز بناسکی۔ ڈرائی وکٹ پر آسٹریلیا کے فاسٹ بولرز مچل اسٹارک، پیٹ کمنز اور جوش ہیزل ووڈ نے کمال مہارت سے بولنگ کرتے ہوئے 8 وکٹیں حاصل کیں۔ بڑے میچ میں پیٹ کمنز نے سارو گنگولی والی غلطی نہ کی۔ آسٹریلیا اور انڈیا کی ٹیمیں 20 سال پہلے 2003 کے عالمی کپ فائنل میں بھی ٹکرائیں تھیں۔جوہانسبرگ میں سارو گنگولی نے ٹاس جیت کر بولنگ کا فیصلہ کیا جو آسٹریلیا نے 359 رنز بنا کر غلط ثابت کردیا۔سچن ٹنڈولکر نے اپنی کتاب Playing it My Way میں لکھا ہے کہ ’ہمارا خیال تھا کہ پچ میں نمی کا فائدہ ابتدائی اوورز میں فاسٹ بولرز کو ہوگا اس لیے ٹاس جیتنے کی صورت میں بیٹنگ کا فیصلہ غلط نہیں ہوگا مگر یہ فیصلہ تباہ کن ثابت ہوا، رکی پونٹنگ کی شاندار 140 رنز کی اننگز کی بدولت آسٹریلیا نے 359 رنز کا پہاڑ کھڑا کردیا۔‘ 20 سال بعد احمد آباد میں آسٹریلیا کے کپتان پیٹ کمنز نے ٹاس جیتا تو انہوں نے ڈرائی پچ پر بیٹنگ کے بجائے بولنگ کا فیصلہ کیا جو سو فیصد درست ثابت ہوا۔ ٹریوس ہیڈ بڑے میچ کا کھلاڑیٹورنامنٹ کا فائنل کھلاڑیوں کے اعصاب کا امتحان ہوتا ہے، ٹریوس ہیڈ سال میں دوسری بار اعصاب کی جنگ میں سرخرو ہوئے۔آسٹریلوی کپتان نے کہا تھا کہ ایک لاکھ 30 ہزار افراد کو خاموش کرانے سے زیادہ اطمینان بخش کوئی دوسری چیز نہیں۔ (فوٹو: اے ایف پی)رواں سال اوول میں ورلڈ ٹیسٹ چیمپیئن شپ کے فائنل میں آسٹریلیا اور انڈیا کا مقابلہ تھا۔ ٹریوس ہیڈ نے پہلی اننگز میں 163 رنز بنا کر جیت کے لیے اسٹیج سیٹ کیا ۔ آسٹریلیا نے میچ 209رنز سے جیتا تو ٹریوس ہیڈ مین آف دی میچ قرار پائے۔جون میں مین آف دی فائنل بننے والے ٹریوس ہیڈ نومبر میں ایک بار پھر میچ کے ہیرو بننے میں کامیاب رہے۔ 241 رنز کے ہدف کے تعاقب میں آسٹریلیا کی پہلی تین وکٹیں صرف 47 رنز پر گریں، انڈین ٹیم میچ پر حاوی ہو رہی تھی مگر ٹریوس ہیڈ دیوار بن گئے۔وہ دباؤ میں آنے کے بجائے صورت حال کے حساب سے بیٹنگ کرتے رہے اور 137 رنز کی اننگز کھیل کر چھٹی مرتبہ ورلڈ کپ آسٹریلیا کے نام کردیا۔ آسٹریلیا ایک سال میں دو آئی سی سی ٹرافیاں جیتنے والی پہلی ٹیم بن گئی۔ روہت شرما یا ویراٹ کوہلی؟ بحث ختمویراٹ کوہلی موجودہ انڈین ٹیم کے کامیاب ترین بلے باز نہیں بلکہ انڈیا کے لیے سب سے زیادہ ٹیسٹ میچز جیتے کا اعزاز بھی رکھتے ہیں۔مگر ان کے بارے یہ رائے پختہ ہوچکی تھی کہ انڈیا ان کی قیادت میں آئی سی سی ٹورنامنٹس نہیں جیت سکتا۔ بی سی سی آئی کی نظریں 6 مرتبہ آئی پی ایل ٹرافی جیتنے والے روہت شرما پر تھیں۔ سارو گنگولی انڈین کرکٹ بورڈ کے سربراہ بنے تو ٹیم کی قیادت ویراٹ کوہلی سے روہت شرما کو منتقل ہوگئی۔روہت شرما بھی آئی سی سی ٹرافی نہ جیت سکے۔ انڈین ٹیم ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ 2022 اور آئی سی سی ورلڈ ٹیسٹ چیمپئن شپ فائنل 2023 کے بعد ہوم گراؤنڈ پر ون ڈے کا ورلڈ کپ بھی ہار گئی۔