انڈیا کی شمالی ریاست اتراکھنڈ کے اترکاشی ٹنل میں پھنسے 40 مزدوروں کو نکالنے میں ابھی تک کوئی کامیابی نہیں ملی ہے۔ ان کارکنوں کو وہاں پھنسے ہوئے 150 گھنٹے سے زیادہ کا عرصہ گزر چکا ہے۔
مزدوروں کو نکالنے کے کام کی نگرانی کرنے والوں کا کہنا ہے کہ مزدوروں کو ٹنل سے بحفاظت نکالنے کے لیے اب تک ٹنل میں 24 میٹر تک چار پائپ ڈالے جا چکے ہیں۔
بی بی سی کے ایسوسی ایٹ صحافی آصف علی نے بتایا کہ جمعے کی دوپہر دو بجے سے سنیچر کی صبح دس تک صورتحال جوں کی توں تھی۔ جبکہ سرنگ میں پھنسے مزدوروں کے لواحقین انتہائی پریشان اور بے چین نظر آرہے ہیں۔
اجازت کے بعد وہ سرنگ میں پائپ کے ذریعے اپنے رشتہ داروں سے بات کرتے رہتے ہیں۔
بہار کے ایک شخص نے سرنگ میں پھنسے اپنے بھائی سے بات کی ہے ان کا کہنا ہے کہ ’اندر پھنسے تمام لوگوں کی حالت اب ٹھیک نہیں ہے۔‘
انھوں نے کہا کے ان کے بھائی نے انھیں بتایا: ’لگتا ہے آخری وقت آ گیا ہے۔‘
بہار سے آئے ایک اور شخص دیواشیش نے بتایا کہ ان کے بہنوئی بھی سرنگ میں پھنسے ہوئے ہیں۔
انھوں نے پائپ کے ذریعے جب اپنے بہنوئی سے بات کی تو انھوں نے بتایا کہ ان کی حالت خراب ہے۔ اب وہ وہاں گھٹن محسوس کر رہے ہیں۔
ٹنل بنانے والی کمپنی ’نو یک انجینیئرنگ کمپنی لمیٹڈ‘ کے دو نگرانوں نے بتایا کہ اس سرنگ پر سنہ 2018 میں کام شروع ہوا تھا۔
ان میں سے ایک نے کہا: ’سرنگ پر کام مکمل ہونے سے تھوڑا پہلے، اسی جگہ پر مٹی کے تودے گرنے سے نقصان ہوا تھا جہاں اتوار کو لینڈ سلائیڈنگ کی وجہ سے ٹنل کا ایک حصہ گر گیا ہے۔ اس وقت اسے پھر سے بنانے میں چھ مہینے لگے تھے۔ لیکن شاید 'یہ مضبوطی سے نہیں بنایا گیا تھا۔‘
BBCاندر پھنسے مزدوروں کے لواحقین باہر پریشان ہیں
انڈیا کی شمالی ریاست اتراکھنڈ میں ہمالیہ پہاڑی سلسلے میں سرنگ کی تعمیر سے منسلک ایک اور حادثے میں 12 نومبر سے 40 مزدور ایک زیر تعمیر سرنگ میں پھنسے ہوئے ہیں۔
ساڑھے چار کلومیٹر لمبی یہ سرنگ مرکزی حکومت کے ایک اہم ہائی وے پروجیکٹ کا حصہ ہے جس کا مقصد ریاست میں مشہور ہندو مذہبی مقامات کے درمیان رابطے کو بہتر بنانا ہے۔
اس پہاڑی ریاست میں جہاں کہ کئی ہمالیائی چوٹیاں اور گلیشیئرز واقع ہیں ہندوؤں کے کئی مقدس ترین مقامات ہیں۔
سرنگ کا یہ حصہ 12 نومبر کی صبح پانچ بجے گر گیا، اور یہ مزدور سرنگ کے منھ سے تقریباً 200 میٹر کے فاصلے پر پھنس گئے۔
ریسکیو مشن میں شامل افسران کا کہنا ہے کہ ’مزدور محفوظ ہیں اور انھیں پائپ کے ذریعے کھانا پانی اور آکسیجن فراہم کیا جا رہا ہے۔‘
حکام کی جانب سے محض چند دنوں میں ان مزدوروں کو باہر لانے دعوے کے باوجود ریسکیو مشن جاری ہے جو کہ اس میں سامنے آنے والی مشکلات کو اجاگر کرتے ہیں۔
یہ ریسکیو مشن اتنا مشکل کیوں ہے؟
اس پروجیکٹ پر کنسلٹنٹ کے طور کام کرنے والی برنارڈ گروپ نامی آسٹریئن جرمن کمپنی کے مطابق یہ شروعات سے ہی ایک مشکل پروجیکٹ تھا۔ کمپنی نے اپنی ویب سائٹ پر کہا کہ یہ سرنگ کے پروجیکٹ کے آغاز سے ہی ٹینڈر دستاویزات میں پیش گوئی سے زیادہ چیلنجنگ ثابت ہوا ہے۔
ارضیاتی لحاظ سے ہمالیہ ایک نیا پہاڑی سلسلہ ہے، جس کا مطلب ہے کہ یہ نسبتاً کم مستحکم ہے۔ اس کے وجہ سے یہاں مناسب اقدامات اور بے حد احتیاط کے بغیر کوئی بھی تعمیر مزید تباہی اور خطرناک ثابت ہو سکتی ہے۔
اس سرنگ کو کئی حصوں میں تعمیر کیا جا رہا ہے تاہم اس کے گرنے کی اصل وجہ تحقیقات کے بعد ہی واضح ہو سکے گی۔
ہمالیہ میں سرنگوں کے احتیاطی تدابیر کے ماہر معظم ظہیر ملک کا کہنا ہے کہ ’سرنگ گرنے کی کئی وجوہات ہو سکتی ہیں۔ مثال کے طور پر ارضیاتی عدم استحکام، سرنگ پر متوقع بوجھ، اس کے اندر بنائی گئی سپورٹ سسٹم کا ناقص ہونا، اس کے اندر پانی کا جانا یا انسانی غلطیاں۔‘
وہ کہتے ہیں کہ ’اب تک سامنے آنے والی رپورٹس کے مطابق اس حادثے کے بنیادی وجہ ارضیاتی عدم استحکام ہی نظر آ رہی ہیں۔‘
انھوں نے کہا کہ ’ارضیاتی عدم استحکام کا مطلب یہ ہے کہ اگر پہاڑ کی چٹانیں غیر مستحکم ہیں تو یہ سرنگ اوپر کے وزن سے یا بیرونی عوامل جیسے زلزلے یا شدید بارش کی وجہ سے گر سکتی ہیں۔‘
ارضیاتی عدم استحکام کا مطلب یہ بھی ہے کہ یہ قدرتی وجوہات ہیں اور انسانی کنٹرول سے باہر ہیں۔ یہ عمل ملبے کے مسلسل طور پر گرنے سے نمایاں ہوتا ہے، جس کہ وجہ سے امدادی کارروائیوں میں تاخیر کا سامنا ہے۔
سرنگ میں پھنسے مزدوروں کو بچانے کے لیے کیا کیا جا رہا ہے؟
حکومت کے مطابق امدادی کارکنان اندر پھنسے مزدوروں کو نکالنے کے لیے ’ہائیڈرولک جیک‘ کی مدد سے 900 ملی میٹر قطر کے اسٹیل پائپ کو اندر تک پہچانے کی کوشش کر رہے ہیں۔
لیکن ریسکیو مشن کے لیے سب سے اہم اور پہلا مرحلہ مزدوروں تک مناسب خوراک اور آکسیجن کی فراہمی تھی۔
ملک کا کہنا ہے کہ ’مزدورں جہاں پھنسے ہوئے ہیں، اس کے بعد سرنگ کے تعمیر شدہ حصے کی لمبائی تقریباً دو کلومیٹر ہے، جس کا مطلب ہے کہ ان کے پاس فی الحال کافی آکسیجن موجود ہے۔‘
انھوں نے کہا کہ لیکن حکام احتیاطی اقدام کے طور پر پائپ کے ذریعے مزید آکسیجن فراہم کر رہے ہیں۔
حالانکہ سرنگ کے اس طرح کے منصوبوں میں ہنگامی صورتحال کے لئے آکسیجن اور کھانے پینے کی فراہمی کے انتظامات اور ہنگامی راستوں جیسے اقدامات شامل ہوتے ہیں۔ لیکن چونکہ یہ سرنگ ابھی زیر تعمیر ہے، یہ واضح نہیں ہے کہ آیا اس طرح کے حفاظتی انتظامات ابھی لیے گئے تھے یا نہیں۔
ریسکیو آپریشن کے انچارج کرنل دیپک پاٹل کا کہنا ہے کہ ’سرنگ کی چوڑائی بہت زیادہ ہے اور اس میں 400 میٹر کی ایک موٹی ’لائننگ‘ ہے۔ (سرنگ کے گرنے سے بچنے کے لیے ’لائننگ‘ سپورٹ کے طور پر کام کرتا ہے)۔‘
انھوں نے بی بی سی کو بتایا کہ ’سرنگ میں زیر تعمیر ’دو کلومیٹر کے اندر کافی روشنی ہے اور مناسب ہوا موجود ہے۔‘
ان کا کہنا ہے کہ ’لہٰذا انھیں سرنگ سے نکالنے میں اندر کوئی مسئلہ نہیں ہو گی۔ ہم اندر اور ہوا پمپ بھی کر رہے ہیں۔‘
BBC
مقامی میڈیا نے اطلاع دی ہے کہ حکام نے مناسب قطر کے پائپوں کو اندر پہچانے میں کامیاب ہوگئے ہیں جس کے ذریعے وہ خوراک اور آکسیجن پہنچا رہے ہیں۔
اس سرنگ کو ’نیو آسٹرین‘ طریقہ استعمال کرتے ہوئے کھودا جا رہا ہے، جس کے تحت سرنگ بنانے کی تکنیک میں ضرورت کے حساب سے ترمیم کی جاتی ہے۔ اس سے یہ واضح ہوتا ہے کہ ہمالیہ میں کئی ارضیاتی چیلنجز موجود ہیں جو کہ سرنگ بنانے کے کام کو یا اس میں پھنسے لوگوں کے نکالنے کے کام کو مشکل بناتی ہیں۔
سرکاری دستاویزات کے مطابق سرنگ کی تعمیر کا کام نصف سے تھوڑا زیادہ مکمل ہو چُکا ہے، جس کی وجہ سے اندر پھنسے ہوئے مزدوروں کے لئے مناسب جگہ ہے، اور حالات مزید خرابے ہونے کی صورت میں وہ محفوظ مقام پر پناہ لے سکتے ہیں۔
لیکن فی الحال سرنگ کے باہر موجود امدادی کارکُنوں کے لیے سب سے بڑا چیلنج سرنگ میں پھنسے ہوئے مزدوروں تک پہنچنا۔
ڈرلنگ مشینوں کے استعمال کے علاوہ ریسکیو مشن نے ایکسکیویٹر کے ذریعے ملبے کو ہٹانے کی کوشش کی ہے لیکن یہ کوششیں بھی ناکام رہی ہیں۔
اس سے نمٹنے کے لیے ملبے پر ’شاٹ کریٹنگ‘ کیا گیا، جس کے تحت ملبے کو مستحکم کرنے کے لیے کنکریٹ یا مارٹر کا چھڑکاؤ کیا جاتا ہے۔
لیکن ان اقدامات کے ناکافی ہونے کے بعد مزید صلاحیت والی ایک مشین کو بالآخر بدھ کو دہلی سے ہوائی جہاز سے روانہ کیا گیا۔
ریسکیو مشن میں شامل انجینئر اور ڈرلنگ ماہر آدیش جین کا کہنا ہے کہ ’12 نومبر سے ملبہ کئی دفع گر چکا ہے اور اس کا حجم بڑھ کر 70 میٹر ہو گیا ہے۔۔۔ میری مشین صرف 45 میٹر تک کام کر سکتی ہے اسی لیے حکومت نے تقریباً 70 میٹر تک پہنچنے کی صلاحیت رکھنے والی ایک بڑی مشین کا بندوبست کیا ہے۔‘
انھوں نے خبر رساں ادارے اے این آئی کو بتایا کہ ’ہم نے نئی مشین کو بہتر انداز سے کام کرنے میں مد دینے کے لیے ایک بنیادی ڈھانچے کو تیار کر دیا ہے۔ تاکہ تمام مزدوروں کی جان کے تحفظ کو یقینی بنایا جا سکے۔‘
فی الحال حکام پھنسے ہوئے مزدوروں تک پہنچنے کے لیے درکار تقریبا 60 میٹر میں سے 20 میٹر سے زیادہ کا فاصلہ طے کرنے میں کامیاب ہو چکے ہیں۔
واضح رہے کہ مقامی لوگ اور ماہرین ماحولیات ’ہمالیہ‘ میں اس طرح کے بڑے تعمیراتی منصوبوں کے خلاف احتجاج کر رہے ہیں اور انکا کہنا ہے کہ اس طرح کے تعمیراتی کامپہاڑوں کی نازک ماحولیاتی نظام کو غیر مستحکم کر رہے ہیں جس کہ وجہ سے لینڈ سلائیڈنگ اور سیلاب جیسی آفات کی شرح اور شدت میں اضافہ ہوا ہے۔
جبکہ ریاست کے وزیر اعلیٰ پشکر دھامی سمیت کئی افسران نے کہا ہے کہ سرنگ میں پھنسے ہوئے افراد کو ایک دو دنوں میں بچا لیا جائے گا، اترکاشی کے ڈسٹرکٹ انفارمیشن آفیسر کیرتی پنوار نے ایک بیان میں کہا ہے کہ ناروے اور تھائی لینڈ کی خصوصی ٹیموں سے مدد لی جا رہی ہے۔
واضح رہے کہ 2018 میں 12 فٹ بالرز شمالی تھائی لینڈ کی ایک غار میں پانی بھر جانے کی وجہ سے 18 دن تک پھنسے رہے تھے۔