Getty Images
’دنیا نے 30 سال سے اس بات پر ہنسنا چھوڑ دیا تھا۔۔۔‘ یہ کہنا ہے ویوین رچرڈز اور انڈین اداکارہ نینا گپتا کی بیٹی مسابا کا جنھوں نے ایک پاکستانی شو کے دوران کرکٹ کمنٹیٹر رمیز راجہ کے برتاؤ پر سوال اٹھایا ہے۔
دراصل کچھ عرصہ قبل نشر کیے گئے نجی چینل ’سُنو ٹی وی‘ کے ایک شو میں مزاحیہ کرداروں نے رمیز راجہ کی موجودگی میں نینا گپتا اور ویوین رچرڈز کے افیئر کا ذکر کرتے ہوئے نسل پرستی پر مبنی شعر سُنایا۔
یہ معاملہ اس وقت تو سوشل میڈیا کی توجہ حاصل نہیں کر سکا مگر لگ بھگ دو ماہ بعد گذشتہ روز مسابا گپتا نے رمیز راجہ پر تنقید کرتے ہوئے ایک سخت مؤقف اپنایا اور یوں سوشل میڈیا پر یہ معاملہ زیرِ بحث آ گیا۔
بی بی سی نے رمیز راجہ کا موقف جاننے کے لیے انھیں بذریعہ واٹس ایپ پیغام بھیجا ہے تاہم ان کی جانب سے اب تک کوئی جواب موصول نہیں ہوا۔ جبکہ سُنو ٹی وی کی انتظامیہ کے مطابق وہ جلد ہی اس معاملے پر اپنا تحریری مؤقف جاری کریں گے۔
https://twitter.com/MasabaG/status/1724753155156783300
شو میں وہ بات جسے مسابا گپتا نے اپنے والدین کی ’تضحیک‘ قرار دیا
یہ شو 12 ستمبر 2023 کو سنو نیوز کے یوٹیوب چینل پر اپ لوڈ کیا گیا۔ اس روز ایشیا کپ کے مقابلے میں انڈیا نے سری لنکا کو 41 رنز سے شکست دی تھی۔
مگر ’کرکٹ مستیاں‘ نامی اس پروگرام میں سابق پاکستانی کرکٹر اور کمنٹیٹر رمیز راجہ کی موجودگی میں بشریٰ انصاری اور حسن نثار کے ’ڈمی‘ یا پیروڈی کردار بٹھائے گئے تھے۔
شو کے دوران بشریٰ انصاری کا کردار نبھانے والی اداکارہ سے پوچھا گیا کہ آیا وہ کرکٹ میچز دیکھتی ہیں۔
اس پر انھوں نے جواب دیا کہ ’دیکھتی ہوں لیکن ایک بار ہی میرا دل ٹوٹ گیا تھا، جب ویوین لے گیا تھا نینا گپتا کو۔ میں نے تب ہی ایک شعر لکھ دیا تھا کہ جو لڑکیاں خود کو کہتی ہیں ملکۂ عالیہ، ان کو پھر ملتا ہے مسٹر کالیا۔‘
اس مذاق پر نہ صرف وہ اداکارہ خود ہنستی ہیں بلکہ ساتھ بیٹھے رمیز راجہ بھی ہنس پڑتے ہیں۔
اینکر سوال کرتی ہیں کہ یہ تو بہت پرانی بات ہے جس پر انھیں اداکارہ کی طرف سے جواب ملتا ہے کہ ’اگر بشریٰ رانی اور رمیز راجہ مل جاتے تو پھر میں دوبارہ میچ دیکھ لیتی۔‘
کئی ہفتوں تک یہ کلپ گردش کرتا رہا مگر پھر گذشتہ روز نینا گپتا اور ویوین رچرڈز کی بیٹی مسابا نے اس پر اپنا ردعمل دیا۔
ایکس پر ان کا کہنا تھا کہ ’رمیز راجہ (سر)، گریس ایک خوبی ہے جو کچھ لوگوں میں ہی ہوتی ہے۔ میرے والد، ماں اور مجھ میں اس کی بہت گریس ہے۔ آپ میں یہ نہیں ہے۔‘
مسابا گپتا نے کہا کہ ’یہ دیکھ کر افسوس ہوا کہ آپ نیشنل ٹی وی پر ایک ایسی بات پر ہنس رہے ہیں جس پر دنیا نے قریب 30 سال قبل ہنسنا چھوڑ دیا تھا۔ مستقبل میں قدم رکھیں۔ ہم تینوں سر بلند کیے یہیں موجود ہیں۔‘
انھوں نے انسٹاگرام پر مزید کہا کہ ’اب تقریباً 2024 آ چکا ہے۔ آپ چاہے جو بھی ہوں میں نسل پرستی اور میری والدہ کی تضحیک پر آپ کا نام لوں گی۔ میں اسے برداشت نہیں کروں گی۔ یہ اب بھی میری لڑائی ہے۔‘
نینا گپتا اور ویوین رچرڈز کی بیٹی مسابا دو نومبر 1989 کو پیدا ہوئیں اور اب وہ ایک مشہور انڈین فیشن ڈیزائنر ہیں۔
بعض انڈیا فینز کی جانب سے ایسے تبصرے بھی سامنے آئے ہیں کہ نسل پرستی پر مبنی اس ہنسی مذاق میں حصہ لینے پر رمیز راجہ کو بطور براڈکاسٹر ورلڈ کپ کی کوریج کے لیے انڈیا نہیں بلانا چاہیے تھا۔
’رمیز راجہ کو بھی معافی مانگنی چاہیے‘
کئی صارفین نے اس معاملے پر آئی سی سی سے نوٹس لینے کا مطالبہ کیا ہے کیونکہ رمیز راجہ ورلڈ کپ کے براڈکاسٹرز کے پینل کا حصہ ہیں۔
بعض لوگوں نے یہ رائے دی ہے کہ پاکستان کے سابقہ کرکٹرز اپنے بیانات کی وجہ سے حالیہ عرصے میں تنازعات کا شکار ہو رہے ہیں۔
جیسے عائلہ کہتی ہیں کہ ’پاکستانی سابق کرکٹرز کا مسئلہ کیا ہے؟ وہ خواتین مخالف یا نسل پرستی پر مبنی بیانات دے رہے ہیں یا اس پر ہنس رہے ہیں۔ رمیز راجہ سے یہ امید نہ تھی۔ ایک اور معافی؟‘
https://twitter.com/middwickett_/status/1724906711222456327
ششانک سنگھ نے کہا کہ بظاہر مسابا نے اپنے والدین کی کردار کشی سے زیادہ نسل پرستی پر مبنی لطیفے کا بُرا منایا ہے۔
بعض صارفین نے یہ نقطہ اٹھایا کہ شو کے اینکرز ایسا کوئی تبصرہ کرنے سے روک سکتے تھے یا پھر چینل کی انتظامیہ اور رمیز راجہ کی جانب سے اس کی مذمت کی جانی چاہیے تھی۔ تاہم ایسا اب تک نہیں ہوا۔
ایک صارف نے رمیز راجہ کے دفاع میں کہا کہ ’وہ آخر میں اس تبصرے پر ناخوش لگے۔ انھوں نے اس بارے میں کوئی بات نہیں کی کیونکہ یہ اچھا موقع نہیں تھا۔‘
ان کا مزید کہنا تھا کہ ’ایسا کوئی جملہ فی البدیہ ادا کیا جائے تو مشکل ہوتا ہے۔ یہ عبدالرزاق کے واقعے سے مختلف ہے۔‘
تاہم بعض صارفین نے اس امید کا اظہار کیا ہے کہ عبدالرزاق کی طرح رمیز راجہ بھی معافی مانگ لیں گے۔