Getty Images
ہر شعبۂ حیات کی طرح کرکٹ میں بھی پاکستان کی دیرینہ خصلت رہی ہے کہ نظام کی ناکامی کا علاج افراد کی برطرفیوں، استعفوں اور سبکدوشیوں میں ڈھونڈا کرتی ہے۔ حالیہ بورڈ مینیجمنٹ کمیٹی اگرچہ خود ایڈہاک بنیادوں پر لائف لائن لے کر چل رہی ہے مگر طویل المدتی فیصلہ سازی کو بھی اپنا حتمی حق جان بیٹھی ہے۔
حسبِ توقع حالیہ ورلڈ کپ کی ناکام مہم جوئی کا ملبہ بھی ایک اور کپتان کے سر پہ گرا کر پی سی بی اپنی تمام تر کوتاہیوں سے ہاتھ جھاڑ چکا ہے۔ چار سال تک قومی ٹیم کی قیادت نبھانے کے بعد بالآخر بابر اعظم مستعفی ہو گئے اور ان کی جگہ 'نئی' قیادت سامنے لائی گئی ہے۔
بابر کے چار سالہ دور پہ نظر دوڑائی جائے تو نمایاں ترین حقیقت یہ ابھر کر سامنے آتی ہے کہ ٹی ٹونٹی فارمیٹ میں، سرفراز احمد کے بعد، وہ پاکستان کے دوسرے کامیاب ترین کپتان رہے بلکہ ان کی فتوحات زیادہ خوش کُن رہیں کہ سرفراز کے برعکس ان کا شیڈول قدرے طویل اور نسبتاً کٹھن تھا۔
بابر اعظم کی قیادت کا نقطۂ کمال تب سامنے آیا جب 2021 کے ٹی ٹونٹی ورلڈ کپ میں انھوں نے انڈیا کے خلاف فتح حاصل کی اور آئی سی سی ایونٹس کی 46 سالہ تاریخ میں یہ پہلا موقع تھا جب پاکستان نے عالمی مقابلوں میں روایتی حریف کو شکست دی۔
اس کے ایک ہی برس بعد آسٹریلیا میں منعقدہ ٹی ٹونٹی ورلڈ کپ میں بابر اعظم کی قیادت نے مزید عروج دیکھا جب ان کی ٹیم انگلینڈ کے خلاف فائنل تک پہنچی اور ایونٹ کی رنر اپ ٹھہری۔ اگرچہ اس فائنل میچ میں بھی پاکستان فتح کے عین قریب آ چکا تھا مگر شاہین آفریدی انجری کے سبب اپنے آخری دو اوورز نہ پھینک پائے اور بابر ٹرافی اٹھانے سے محروم رہ گئے۔
مگر مختصر فارمیٹ میں بابر اعظم کی کامیابیوں کا سلسلہ پھر بھی جاری رہا اور یکے بعد دیگرے جنوبی افریقہ، آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ کو شکست دیتے ہوئے، انھوں نے پاکستان کو آئی سی سی ون ڈے رینکنگ میں درجۂ اوّل تک پہنچایا۔
Getty Images
ٹیسٹ کرکٹ میں اگرچہ بابر اعظم ویسی کامیابیاں نہ سمیٹ پائے مگر یہ بھی انھی کی قیادت میں ہوا کہ پاکستان نے پہلی بار ہوم سیریز میں جنوبی افریقہ کو کلین سویپ کیا اور حال ہی میں سری لنکا کے دورے پہ ’دی پاکستان وے‘ نامی جارحانہ اپروچ کی بدولت ایک اور کلین سویپ رقم کی۔
لیکن تصویر کا دوسرا رخ یہ ہے کہ تین ایشیا کپ، دو ٹی ٹونٹی ورلڈ کپ اور حالیہ ون ڈے ورلڈ کپ تک پاکستان کی قیادت کرنے کے باوجود بابر اعظم کوئی بڑا ٹائٹل جیتنے میں ناکام رہے۔ ان پہ تنقید کا نمایاں ترین پہلو یہی رہا کہ دباؤ کے ہنگام وہ اپنے اعصاب مجتمع نہیں رکھ پاتے اور فیصلہ سازی میں کلیدی غلطیاں کر بیٹھتے ہیں۔
گذشتہ ورلڈ ٹیسٹ چیمپئین شپ سائیکل کا جب آغاز ہوا تو پاکستان کو فائنل کے لئے فیورٹ قرار دیا جا رہا تھا کیونکہ شیڈول کے مطابق انہیں کسی مشکل دورے کا سامنا نہیں تھا۔ گھر سے باہر بنگلہ دیش اور سری لنکا جیسے آسان حریف مہیا تھے تو آسٹریلیا، نیوزی لینڈ اور انگلینڈ جیسی مشکلوں کا سامنا کرنے کو ہوم کنڈیشنز کی سہولت میسر تھی۔
آسٹریلوی سر زمین پہ کوئی ٹیسٹ میچ جیتے پاکستان کو دو دہائیاں بیت چکی تھیں اور متوقع یہ تھا کہ ہوم گراؤنڈز پہ پاکستان آسٹریلیا کے لئے ایک سخت حریف ثابت ہو گا۔ مگر بابر اعظم کی فیصلہ سازی اہم لمحات پہ خطا کھاتی رہی اور مدافعانہ حکمت عملی کے سبب پاکستان آسٹریلیا سے سیریز ہار گیا۔
بین سٹوکس کی قیادت میں جب انگلش ٹیم ٹیسٹ سیریز کے لئے پاکستان آئی تو بیز بال کی تند خوئی کے سامنے بابر اعظم کی فیصلہ سازی ایک بار پھر آشکار ہوئی اور تاریخ میں پہلی بار پاکستان کو ہوم گراؤنڈز پہ کلین سویپ کی خفت سے دوچار ہونا پڑا۔
Getty Images
نیوزی لینڈ کے خلاف ٹیسٹ سیریز البتہ قدرے بہتر رہی کہ پاکستان شکست سے تو محفوظ رہا مگر ساتھ ہی یہ حقیقت بھی بری طرح کَھلنے لگی کہ چیمپئین شپ کے اس سائیکل میں پاکستان ہوم گراؤنڈز پہ ایک بھی ٹیسٹ میچ جیتنے سے قاصر رہا۔
بعینہٖ جب انگلش ٹیم سات ٹی ٹوئنٹی میچز کی طویل سیریز کھیلنے کو پاکستان آئی تو وہاں بھی ٹیم سلیکشن اور فیصلہ سازی کے لایعنی رجحانات کے سبب بابر اعظم سیریز جیتنے سے معذور رہے۔ اور حالیہ ورلڈ کپ میں یہ خفت بھی پہلی بار پاکستان کو نصیب ہوئی کہ ایونٹ میں پانچ میچز ہار گیا۔
مگر نگاہوں سے اوجھل ایک پہلو یہ بھی ہے کہ اس چار سالہ عہد میں بابر اعظم کو چار مختلف پی سی بی سربراہان سے معاملہ کرنا پڑا۔ اسی طرح کوچنگ سیٹ اپ میں بھی تبدیلیوں کی بھرمار رہی اور تین ہیڈ کوچز کی یکسر الگ الگ سوچوں سے نمٹنا پڑا۔
جب 2019 میں احسان مانی نے مصباح الحق کو کوچنگ کی ذمہ داری سونپی تو انہیں اگلے دس برس کے لئے ٹیم تیار کرنے کا ٹاسک دیا گیا تھا جہاں تجربات کے نتیجے میں کچھ ابتدائی ناکامیاں متوقع تھیں۔ مگر دو برس کی ریاضت کے بعد اسی منیجمنٹ کے تحت، بابر کی قیادت میں، پاکستان جنوبی افریقہ کو ٹیسٹ سیریز کلین سویپ کرنے اور آسٹریلیا کو ون ڈے سیریز ہرانے تک پہنچ پایا۔
مگر پھر رمیز راجہ چئیرمین ہوئے اور ان کی متلون مزاجی نے وہ رنگ دکھائے کہ کوچنگ سیٹ اپ میں ایڈہاک تبدیلیوں، پچز کی 'تشکیلِ نو' اور سلیکشن کے نئے تجربات کی بدولت ٹیسٹ کرکٹ میں پاکستان کی ناکامیوں کا ایک نیا سلسلہ چل نکلا۔
اس میں شبہ نہیں کہ بابر اعظم کی قائدانہ صلاحیتیں قابلِ بحث تھیں اور کچھ اہم ترین لمحات پہ ان کے آن فیلڈ فیصلے بھی پاکستان ٹیم کو بہت مہنگے پڑے مگر بابر سے کہیں زیادہ مہنگے فیصلے ان پی سی بی سربراہان اور انہیں مقرر کرنے والے وزرائے اعظم کے تھے جن کی بھینٹ بابر کو چڑھنا پڑا۔