بلوچستان کے 15 الیکٹیبلز نون لیگ میں شامل: ’سیاسی وفاداریاں بدلنے والے جانتے ہیں کہ ہوا کس طرف کی ہے‘

بی بی سی اردو  |  Nov 15, 2023

AFP

بلوچستان سے تعلق رکھنے والے 15 کے قریب الیکٹیبلز سمیت 20 سے زائد سیاسی شخصیات نے پاکستان مسلم لیگ نون کے قائد اور سابق وزیر اعظم نواز شریف کے دورہ کوئٹہ کے موقع نواز لیگ میں شمولیت اختیار کی۔

مسلم لیگ ن میں شامل ہونے والوں کا تعلق بلوچستان عوامی پارٹی، پاکستان پیپلز پارٹی، نیشنل پارٹی اور بلوچستان نیشنل پارٹی سے تھا۔ شامل ہونے والے الیکٹیبلز اور دیگر سیاسی شخصیات میں سے اکثریت کا نہ صرف ماضی میں نواز لیگ سے تعلق رہا ہے بلکہ وقتاً فوقتاً یہ دیگر سیاسی جماعتوں کا بھی حصہ بنتے رہے ہیں۔

تجزیہ کاروں کے مطابق اس پیش رفت کی ایک اہم وجہ یہ ہے کہ بظاہر عمومی رائے یہی ہے کہ ’اسٹیبلمشنٹ کی ہواؤں کا رُخ بھی ن لیگ کے حق میں‘ ہو چکا ہے۔

پاکستان کے دیگر صوبوں کی طرح بلوچستان میں سیاسی وفاداریوں کی تبدیلی کوئی نیا معاملہ نہیں جہاں مرکزی سیاسی جماعتیں بھی انتخابات میں کامیابی کے لیے مقامی الیکٹیبلز پر ہی انحصار کرتی ہیں تاہم بلوچستان عوامی پارٹی (باپ) ایک ایسی جماعت تھی جس نے 2018 کے الیکشن سے قبل اچانک نمودار ہو کر صوبے میں ن لیگ کی حکومت کا تختہ الٹ دیا اور الیکشن کے بعد تحریک انصاف کی اتحادی بن گئی اور حکومت قائم کی۔

تجزیہ کاروں کے مطابق بدلتی سیاسی صورتحال کے پیش نظر بظاہر ن لیگ بھی اب اُس تلخ ماضی کو بھلانے کے لیے تیار نظر آتی ہے۔ بلوچستان میں پارٹی سے بغاوت کرنے والے الیکٹیبلز کو دوبارہ پارٹی میں شامل کرنے کے اقدام کا ناصرف سابق سپیکر قومی اسمبلی سردار ایاز صادق نے دفاع کیا ہے بلکہ انھوں نے اس اُمید کا اظہار بھی کیا ہے کہ ان کی شمولیت سے آئندہ عام انتخابات کے بعد بلوچستان میں نواز لیگ کی حکومت بنے گی۔

نون لیگ میں شامل ہونے والے رہنما کون ہیں؟

نواز لیگ میں شامل ہونے والوں میں بلوچستان عوامی پارٹی سے سابق وزیرِ اعلیٰ جام کمال خان کے علاوہ جن سابق اراکینِ قومی و صوبائی اسمبلی نے شرکت کی اُن میں نور محمد دمڑ، سردار عبدالرحمن کھیتران، محمد خان لہڑی، سردار مسعود لونی، ربابہ بلیدی، شعیب نوشیروانی، میرعاصم کرد گیلو، نوابزادہ جنگیز مری، دوستین ڈومکی شامل تھے۔ ان میں سے ربابہ بلیدی خواتین کی مخصوص نشست پر کامیاب ہوئی تھیں۔

تحریک انصاف سے تعلق رکھنے والے دو سابق اراکین قومی اسمبلی میر خان محمد جمالی اور سردار عاطف سنجرانی نواز لیگ میں شامل ہوئے۔

مسلم لیگ ن میں بلوچستان سے پاکستان پیپلز پارٹی سے تعلق رکھنے والے سابق اراکین قومی و صوبائی اسمبلی سردار فتح محمد حسنی، میر سلیم خان کھوسہ اور میر فائق علی خان جمالی شامل ہوئے۔ میر سلیم خان کھوسہ اور میر فائق جمالی چند ماہ قبل پاکستان پیپلز پارٹی میں شامل ہوئے تھے جبکہ پیپلز پارٹی میں شمولیت سے قبل میر سلیم خان کھوسہ کا تعلق بلوچستان عوامی پارٹی سے تھا۔

نیشنل پارٹی کے سابق سینیٹر ڈاکٹر اشوک کمار اور سابق رکن اسمبلی مجیب محمد حسنی اور بی این پی کی سابق رکن اسمبلی زینت شاہوانی بھی ن لیگ میں شامل ہوئے۔ زینت شاہوانی خواتین کی مخصوص نشست پر رکن بلوچستان اسمبلی منتخب ہوئی تھیں۔

شمولیت کرنے والوں میں ضلع آواران سے تعلق رکھنے والے میر رامین محمد حسنی اور سابق سینیٹر سعید الحسن مندوخیل بھی شامل تھے۔

اس اہم شمولیتی تقریب کی کوریج سے مقامی میڈیا کو دور رکھا گیا۔

نواز شریف کے دورے پر صحافیوں کو کوریج سے دور کیوں رکھا گیا؟

بڑی تعداد میں الیکٹیبلز کی نواز لیگ میں شمولیت کے علاوہ اس سلسلے میں سابق وزیر اعظم میاں نواز شریف کا دورہِ کوئٹہ یہاں کی بڑی سیاسی سرگرمیاں تھیں لیکن ان کی کوریج سے کوئٹہ کے مقامی صحافیوں کو دور رکھا گیا جس کے باعث انھیں کوریج میں مشکلات کا سامنا کرنا۔

بلوچستان یونین آف جرنلسٹس کی جانب سے سیاسی جماعتوں کی جانب سے روا رکھے جانے والے اس رویے پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے اس پر تشویش کا اظہار کیا گیا۔

بلوچستان یونین آف جرنلسٹس کے صدر عرفان سعید نے کہا کہ شہر کی سب سے بڑی سیاسی سرگرمی سے شہر ہی کے صحافیوں کو دور رکھنے کی بات سمجھ سے بالاتر تھی۔

ان کا کہنا تھا کہ ’شاید مقامی صحافیوں کو اس لیے دور رکھا گیا کہ وہ سیاسی وفاداریاں تبدیل کرنے سے متعلق کوئی سخت سوال پوچھ کر نواز لیگ کی مرکزی قیادت کے لیے کوئی مشکل پیدا نہ کریں کیونکہ شامل ہونے والوں کی اکثریت کا تعلق بلوچستان عوامی پارٹی سے تھا جس کے حوالے سے ماضی میں نواز لیگ ایسٹیبلشمنٹ کو موردِ الزام ٹہراتی رہی ہے۔‘

تاہم نواز لیگ کی جانب سے واٹس ایپ پر اس سلسلے میں جاری کیے جانے والے ایک میسیج میں کہا گیا تھا کہ ’تمام ساتھیوں کو اطلاع دی جاتی ہے کہ میاں نواز شریف کی کوئٹہ آمد پر سکیورٹی وجوہات کی بنا پر تمام تر پروگرام کی میڈیا کوریج کے بارے میں مرکزی سیکرٹری اطلاعات مریم اورنگزیب ازخود تمام ہدایات اور پروگرام کی تفصیلات جاری کریں گی۔‘

’باپ‘ کے الیکٹیبلز کی بڑی تعداد میں علیحدگی کے بعد مستقبل سے جڑے اہم سوال

بلوچستان عوامی پارٹی کے الیکٹیبلز کی اکثریت کی نواز لیگ میں شمولیت کے بعد بلوچستان کے سیاسی میدان میں گذشتہ پانچ سال سے اہم کردار ادا کرنے والی جماعت کے مستقبل سے جڑا ایک اور سوال بھی پیدا ہوتا ہے کہ آیا ملک کی مجموعی سیاسی صورتحال میں اب بلوچستان عوامی پارٹی کا وجود برقرار رہے گا یا نہیں؟

اس کے بعد دوسرا اہم سوال یہ ہے کہ بلوچستان عوامی پارٹی، جس کے قیام پر خود ن لیگ کی جانب سے ’اسٹیبلشمنٹ کے ملوث ہونے‘ کے الزامات عائد کیے گئے تھے، کی اکثریت نواز لیگ کی جانب رخ کیوں کر رہی ہے؟

ان سوالات کے جواب جاننے کے لیے بی بی سی نے بلوچستان کی سیاست پر گہری نظر رکھنے والے تجزیہ کاروں سے بات کی لیکن اس سے پہلے اس جماعت کا ذکر کرتے ہیں جو قیام کے ساتھ ہی اراکین اسمبلی کے لحاظ سے بلوچستان اسمبلی کی اکثریتی پارٹی بن گئی۔

2018 میں بلوچستان عوامی پارٹی کے نام سے ’نیا تجربہ‘BBCمار چ 2018 میں جب بلوچستان میں مسلم لیگ نواز اور مسلم لیگ ق کے منحرف اراکین نے مل کر بلوچستان عوامی پارٹی کے نام سے نئی سیاسی جماعت کے قیام کا اعلان کیا تو موجودہ وزیر اعظم انوار کاکڑ بھی اعلان کے وقت موجود تھے

سنہ 2013 کے عام انتخابات کے بعد بلوچستان میں نواز لیگ اور قوم پرست جماعتوں کی مخلوط حکومت بن گئی تھی۔ قوم پرست جماعتوں کے ساتھ طے پانے والے معاہدے کے مطابق پہلے ڈھائی سال نیشنل پارٹی کے سربراہ ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ وزیراعلیٰ بنے جبکہ دوسری مدت کے لیے نواز لیگ سے تعلق رکھنے والے نواب ثنا اللہ زہری وزیراعلیٰ بنے۔

تاہم نواز لیگ کے الیکٹیبلز کی بغاوت کی وجہ سے ثنا اللہ زہری اپنی مدت پوری نہیں کر سکے۔ نواب ثنا اللہ زہری اور راحیلہ درانی کے سوا پارٹی کے تمام اراکین اسمبلی بلوچستان عوامی پارٹی کا حصہ بن گئے۔ تجزیہ کار رضا الرحمان کے مطابق بلوچستان میں ’یہ ایک نیا سیاسی تجربہ تھا۔‘

بلوچستان عوامی پارٹی کو بنانے میں سابق وزیر اعلیٰ میر عبدالقدوس بزنجو، موجودہ نگراں وزیر اعظم انوار الحق کاکڑ سمیت بعض دیگر لوگ شامل تھے۔

ایک نئی جماعت تو بن گئی لیکن آغاز سے ہی اسے اندرونی اختلافات اور اقتدار کی جنگ کا سامنا رہا جس میں پہلے پارٹی رہنما جام کمال خان کو وزرات اعلیٰ سے استعفیٰ دینا پڑا جس کے بعد عبدالقدوس بزنجو وزارت اعلیٰ کے منصب پر فائز ہوئے۔

رضا الرحمان کا کہنا ہے کہ ’بلوچستان عوامی پارٹی کے قیام کا یہ جواز پیش کیا گیا تھا کہ قومی دھارے کی جماعتیں بلوچستان کو اہمیت نہیں دیتیں اور صوبے کے فیصلے اسلام آباد میں ہوتے ہیں جبکہ اس پارٹی کے قیام کے بعد بلوچستان کے فیصلے بلوچستان میں ہی ہوں گے۔‘

انھوں نے بتایا کہ ’بلوچستان عوامی پارٹی کا تجربہ بظاہر ناکام رہا کیونکہ اس سے تعلق رکھنے والوں نے واپس ان جماعتوں کا رخ کر لیا جن کے بارے میں وہ کہتے رہے کہ وہ بلوچستان کو اہمیت نہیں دیتے۔‘

تاہم رضا الرحمان کے مطابق ’باپ میں اب بھی الیکٹیبلز موجود ہیں اور اس جماعت کو ایک پریشر گروپ کے طور پر برقرار رکھا جائے گا۔‘

’باپ کو برقرار رکھا جائے گا‘

رضا الرحمان کی بات میں وزن ہے۔

سابق وزیر اعلیٰ جام کمال کے استعفیٰ کے بعد میر عبدالقدوس بزنجو وزیراعلیٰ بنے تو کوئٹہ میں ایک سینیئر سرکاری اہلکار سے چند صحافیوں کی ایک غیر رسمی نشست ہوئی جس میں بی بی سی کے نمائندے کی حیثیت سے میں خود بھی موجود تھا۔

اس وقت پارٹی کے اندرونی اختلافات کی وجہ سے یہ سوال شدت سے اٹھ رہا تھا کہ اس جماعت کا مستقبل کیا ہو گا؟

ایسے میں یہ اطلاعات بھی سامنے آئیں کہ بی اے پی پیپلز پارٹی میں ضم ہو سکتی ہے۔ ان اطلاعات کو اس وقت دوام ملا جب سابق وزیراعلیٰ میر عبدالقدوس بزنجو نے ایک بیان دیا کہ انھوں نے سابق صدر آصف علی زرداری سے پیپلز پارٹی میں شامل ہونے کا وعدہ کیا ہے۔

تاہم اس غیر رسمی نشست کے دوران جب ایک صحافی نے سرکاری افسر سے بلوچستان عوامی پارٹی کے مستقبل کے بارے میں پوچھا تو انھوں نے جواب دیا کہ ’بی اے پی ختم نہیں ہو گی بلکہ اسے برقرار رکھا جائے گا۔‘

اس کے بعد رواں سال 28 مئی اور بعد میں 5 جولائی کو پارٹی کے سابق صدر کی حیثیت سے قدوس بزنجو نے بھی کہا کہ انھوں نے سابق صدر آصف علی زرداری سے پیپلزپارٹی میں شمولیت کا وعدہ ضرور کیا تھا لیکن بعد میں چند دوستوں نے مشورہ دیا کہ ’میں بی اے پی میں رہ کر بلوچستان کے عوام کی خدمت کر سکتا ہوں۔‘

صحافی اور تجزیہ کار شہزادہ ذوالفقار کا کہنا ہے کہ ’جن لوگوں نے اس پارٹی کو بنایا وہ ان الیکٹیبلز کو ضائع نہیں کرنا چاہتے۔‘

یہاں اس بات کا تذکرہ بھی ضروری ہے کہ جہاں میاں نواز شریف کے دورہ کوئٹہ کے موقع پر بلوچستان عوامی پارٹی کے الیکٹیبلز کی بڑی تعداد نے نواز لیگ میں شمولیت اختیار کی بلکہ اس سے قبل جن سیاسی جماعتوں کی وفود نے نواز لیگ کے قائد سے ملاقات کی ان میں پارٹی کے نئے سربراہ نوابزادہ خالد مگسی کی قیادت میں بلوچستان عوامی پارٹی کا وفد بھی شامل تھا۔

اس ملاقات کے بعد میڈیا کے نمائندوں سے بات کرتے ہوئے نوابزادہ خالد مگسی نے کہا کہ ہم نے میاں نواز شریف کو خوش آمدید کہا اور اپنے خیالات کا اظہار کیا۔

ان کا کہنا تھا کہ ’مسلم لیگ کی قیادت سے مزید ملاقاتیں ہوں گی تو کسی سیاسی ایڈجسٹمنٹ کے حوالے بات ہو گی۔

انھوں نے بتایا کہ میاں صاحب چاہتے ہیں کہ سیاسی عمل بہتر طریقے سے چلے۔

بلوچستان عوامی پارٹی کے الیکٹیبلز اور نواز لیگ

نواز شریف کے دورہ کوئٹہ سے قبل پارٹی رہنما اور سابق سپیکر قومی اسمبلی سردار ایاز صادق نے کوئٹہ میں جن الیکٹیبلز سے ملاقات کی ان میں بلوچستان عوامی پارٹی کے ترجمان اور سابق وزیر سردار عبدالرحمان کھیتران بھی شامل تھے۔

بی بی سی سے بات کرتے ہوئے سردار عبدالرحمان نے کہا کہ’ہم بنیادی طور پر مسلم لیگی ہیں اور ہم چاہتے ہیں کہ بلوچستان اور ہمارے علاقے ترقی کریں۔ محمد نواز شریف نے ماضی میں بلوچستان کو جو ترقی دی، اس کی نظیر نہیں ملتی۔‘

بعد میں سردار ایاز صادق نے بلوچستان میں پارٹی کے صدر کی جانب سے دیے جانے والے عشائیے سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ’جس طرح دوستوں نے حوصلہ دیا اور ہاتھ تھاما، میں وثوق کے ساتھ کہہ سکتا ہوں کہ بلوچستان میں بھی نواز لیگ کی حکومت بنے گی۔ مجھے بہت یقین ہے اس چیز پر۔‘

واضح رہے کہ حال ہی میں پاکستان مسلم لیگ نواز نے ایم کیو ایم کے ساتھ کراچی اور سندھ میں انتخابی اتحاد کا اعلان کیا ہے۔

اس تقریب میں بلوچستان عوامی پارٹی کے سابق اراکین اسمبلی کی بڑی تعداد موجود تھی۔ ایسے میں جب ایک صحافی نے ایاز صادق سے پوچھا کہ کیا یہ لوگ دوبارہ نواز لیگ کو نقصان نہیں پہنچائیں گے تو ان کا جواب تھا کہ ’آپ جانتے ہیں بلوچستان میں ڈائنامکس بڑی مختلف ہیں۔‘

’وقت کے ساتھ حالات بھی تبدیل ہوتے ہیں۔ جو آ رہے ہیں ان میں سے کچھ پہلے ہمارے ساتھ تھے اور کچھ نئے دوست شامل ہو رہے ہیں۔ پارٹیوں میں بہت گنجائش ہوتی ہے۔ اس گنجائش کو مدِنظر رکھتے ہوئے ہم بہتری لانا چاہتے ہیں اور یہ بہتری تبھی آ سکتی ہے جب مرکز کے ساتھ یہاں بھی نواز لیگ کی حکومت ہو۔‘

’ہواؤں کا رخ نواز لیگ کی طرف ہے‘

بلوچستان میں ہونے والی یہ پیش رفت اس لحاظ سے بھی دلچسپ ہے کیوں کہ اب سے کچھ عرصہ پہلے تک مقامی الیکٹیبلز کی جانب سے پاکستان پیپلز پارٹی سے رابطے عروج پر تھے۔ پھر اچانک ایسا کیا ہوا کہ ہواؤں کا رخ بلکل الٹی سمت میں چلنا شروع ہو گیا؟

تجزیہ کار سید علی شاہ کا ماننا ہے کہ ’پہلے کے مقابلے میں اب صورتحال نواز لیگ کے حق میں تبدیل ہو چکی ہے۔‘

’ایک سال پہلے آپ نے دیکھا کہ یہاں کے بڑے الیکٹیبلز کی لائنیں بلاول ہاؤس کے سامنے لگی ہوئی تھیں۔ لیکن جب سے نگران حکومت بنی ہے تو ہواؤں کا رخ ن لیگ کی جانب ہے۔‘

صحافی اور تجزیہ کار شہزادہ ذوالفقار بھی اس نکتے سے اتفاق کرتے ہیں۔

وہ کہتے ہیں کہ ’وفاداریاں تبدیل کرنے والے جانتے ہیں کہ کہاں جانا ہے۔ جس طرف ہوا چلتی ہے یا جس طرف کا سگنل ملتا ہے تو وہاں جاتے ہیں۔ اس لیے یہ لوگ پیپلز پارٹی کی بجائے ن لیگ کی جانب جا رہے ہیں۔‘

شہزادہ ذوالفقار کی رائے ہے کہ ’تحریک انصاف کی پنجاب میں کافی حمایت ہے جہاں پیپلز پارٹی کا زیادہ اثر و رسوخ نہیں رہا اور ایسے میں چونکہ اصل لڑائی پنجاب میں ہے جہاں تحریک انصاف کا مقابلہ ن لیگ ہی کر سکتی ہے، اس لیے ہوائیں بھی اس کے حق میں بدل گئی ہیں جس کے نتیجے میں الیکٹیبلز اس کی طرف جا رہے ہیں۔‘

’چونکہ تحریک انصاف زیر عتاب ہے اور اس کے لیے لیول پلیئنگ فیلڈ نہیں، اس لیے الیکٹیبلز یہ دیکھ رہے ہیں کہ مجموعی طور پر پلیئنگ فیلڈ نواز لیگ کے حق میں ہے اور ان میں سے زیادہ تر کی کوشش یہی ہے کہ وہ نواز لیگ میں جگہ بنا لیں۔‘

سید علی شاہ کا کہنا تھا کہ ’سیاست میں اخلاقیات کا عمل دخل کم ہوتا ہے۔ زیادہ تر سیاسی جماعتیں یہ نہیں دیکھتیں کہ کس کا ماضی کیا ہے، بلکہ ان کے رہنما 99 فیصد صرف یہ دیکھتے ہیں کہ میرا اُمیدوار جیت جائے، اس لیے وہ کہتے ہیں کہ جو الیکٹیبلز آ رہے ہیں ان کو لے لو۔‘

شہزادہ ذوالفقار نے بتایا کہ ’ہم نے نواز لیگ کے ایک رہنما سے پوچھا کہ ان لوگوں کو لینے سے کیا نواز لیگ اکثریت حاصل کرنے کی صورت میں اچھا طرز حکمرانی قائم کر سکے گی تو انھوں نے کہا کہ جانے پہچانے چہرے اور الیکٹیبلز یہی ہیں۔‘

تجزیہ کاروں کا کہنا تھا کہ اس پیش رفت کے بعد بلوچستان میں نواز لیگ کی پوزیشن یقینا مضبوط ہو گی۔

مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More