’ناکامی کے ملبے سے بچنے کی ایک امید‘: سمیع چوہدری کا کالم

بی بی سی اردو  |  Nov 10, 2023

Getty Images

ساری دعائیں سوکھی رہ گئیں، کوئی ہریالی نخلِ تمنا پہ نمودار نہ ہوئی اور دھیرے دھیرے بنگلورو کے تشنہ بادلوں کی نمی پاکستانی شائقین کی آنکھوں میں اترتی چلی گئی۔

مگر بنگلورو کا افق خشک ہی رہا۔

جس قدرت کے نظام سے پاکستان کی ساری توقعات جڑی تھیں، اس قدرت کے نظام نے یوں پلٹ وار کیا کہ سری لنکن ٹیم پاکستانی امیدیں جگانے کی بجائے خود ہی سوئی سوئی سی رہ گئی۔

ٹرینٹ بولٹ پورے ٹورنامنٹ میں اوسط کارکردگی کا بوجھ ڈھوتے ڈھوتے اچانک عین سمے، اپنے بہترین پہ امڈ کر آئے اور پاکستان کو سیمی فائنل سے لگ بھگ خارج از امکان کر ڈالا۔ بولٹ اور کیویز کی اس پرفارمنس کے بعد، اب بظاہر یہ آخری میچ بابر اعظم کی ٹیم کے لیے محض ایک رسمی کارروائی سا ہے، جسے ائیرپورٹ پہنچنے سے قبل بس نمٹانا ہے۔

مگر دوسری جانب انگلش ٹیم کے لیے یہ معرکہ ایک آخری دمک کی مانند ہے جو شمع کو بجھنے سے پہلے بہرحال دکھانا ہے کہ اسی پہ چیمپیئنز ٹرافی کی کوالیفکیشن بھی ٹکی ہے۔ اگرچہ نیدرلینڈز کا انڈیا کو شکست دے پانا تقریباً ناممکن ہے مگر جاس بٹلر یہاں خود کو قسمت کے رحم و کرم پہ ہرگز نہیں چھوڑنا چاہیں گے۔

انگلش کیمپ کے لیے نیدرلینڈز کے خلاف فتح کئی اعتبار سے خوش آئند تھی کہ نہ صرف مہینہ بھر بعد فتوحات کا سلسلہ بحال ہوا بلکہ بین سٹوکس بھی اپنی اصل فارم میں لوٹے اور سیمرز کے ساتھ ساتھ سپن بولنگ یونٹ نے بھی عمدہ کاوش دکھلائی۔

Getty Images

پاکستان کے خلاف میچ سے پہلے انگلش کیمپ کا اعتماد بحال ہو جانا بہرحال بابر اعظم کے لیے کوئی نیک شگون نہیں ہے جو سیمی فائنل کی دوڑ سے باہر ہو جانے کے بعد اب اپنی مہم جوئی کا اختتام کم از کم ایک مثبت نکتے پہ کرنا چاہیں گے۔

گذشتہ روز پی سی بی کے سوشل میڈیا نے ٹوئٹر پہ شاداب خان کی بحالئ صحت اور پریکٹس میں شرکت کو بطور خوشخبری اناؤنس کیا۔ گو یہ پاکستانی شائقین کے لیے کسی اعتبار سے کوئی خوش خبری نہ تھی مگر شاداب کے لیے بہرطور ایک آخری موقع ضرور ہے کہ ناکام ورلڈ کپ کے بعد پی سی بی کی حتمی انہدامی کارروائی میں سے بچ نکلنے کا کوئی امکان پیدا کر پائیں۔

دوسری جانب انگلش ٹیم کے مہتممِ اعلیٰ روب کی بھی اس وقت انڈیا کے دورے پہ ہیں اور مابعد از ٹورنامنٹ اتھل پتھل کی راہ سجھا رہے ہیں کہ اس ایونٹ کی ناگفتہ بہ ناکامی کے بعد آئندہ برسوں کے لیے کیا لائحہ عمل ہونا چاہیے۔

جہاں بین سٹوکس، معین علی، جونی بئیر سٹو، ڈیوڈ ولی اور عادل رشید جیسے آزمودہ کار چہروں کی ون ڈے پلانز سے مکمل رخصتی یقینی ہے، وہیں پاکستان کے خلاف میچ میں ہیری بروک اور گس ایٹکنسن جیسے نوجوان اپنی حتمی کاوش میں بہترین کارکردگی نبھانے کی تگ و دو کریں گے تا کہ وہ مستقبل کے منصوبوں کا حصہ رہ پائیں۔

Getty Images

پاکستانی کیمپ میں اگرچہ کوئی ایسے عمر رسیدگان موجود نہیں کہ جن کے سر پہ تلوار گرا کر اس ناقص کارکردگی کا بوجھ ہلکا کیے جانے کی کوشش ہو پائے، مگر پی سی بی کی حیرت ناکیوں سے کچھ بعید بھی نہیں ہے۔ سو ہر کھلاڑی کو بہترین کھیل پیش کر کے اپنی ہستی کا جواز لانے کا موقع میّسر ہو گا۔

ریاضیاتی اعتبار سے نیٹ رن ریٹ میں کیویز پہ برتری کے جو تقاضے پاکستان کو نبھانا ہیں، وہ تو ناممکن ہو ہی چکے ہیں مگر آخری میچ میں فتح نہ صرف شائقین کے لیے ایک اثبات کا سامان ہو سکتی ہے بلکہ کچھ کھلاڑی اپنی انفرادی کارکردگی کی بنا پہ، ریویو کمیٹی کی یقینی شمشیر زنی سے ممکنہ حفاظت کا اہتمام بھی کرنا چاہیں گے۔

ورلڈ کپ اپنی فطرت میں بہت ہی ستم پرور ہوا کرتے ہیں کہ اگر مہم جوئی کامیاب رہے تو کئی سٹارز جنم پاتے ہیں اور کرئیر سنور جاتے ہیں۔ لیکن ناکامی ایک ایسا بوجھ ہوا کرتی ہے کہ جس کے ملبے تلے سے بچ نکلنے کو بعض اوقات انفرادی کاوشیں بھی کم پڑ جاتی ہیں۔

مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More