Getty Images
نجانے یہ بنگلورو کے مطلع پہ چھائی نمی کا اثر تھا کہ دونوں تھنک ٹینکس کے اذہان بھی ابر آلود سے ہو گئے اور طویل سوچ بچار کے بعد دونوں ٹیموں نے اپنے اپنے تئیںٹیم سلیکشن کی بوالعجبی سے حریف کو مات کرنے کی کوشش کی۔
جب ایک ہی میچ کے گِرد لاتعداد اگر مگر اٹھ کھڑے ہوں تو ایسی طفلانہ غلطیاں بھی شاید ناگزیر سی ہو رہتی ہیں۔ پاکستان نے جنوبی افریقہ کے نقشِ قدم پہ چلتے ہوئے چار سیمرز کھلانے کا فیصلہ کیا تو کیویز نے اپنے اٹیک سے پیس منہا کر کے سپن کو تقویت دینے کا عجیب فیصلہ کیا۔
دونوں ہی چالیں اپنے تئیں یوں غلط ثابت ہوئیں کہ یکے بعد دیگرے حارث رؤف اور شاہین آفریدی نے ورلڈ کپ کے بدترین اعدادوشمار اپنے نام کئے۔ دوسری جانب تیسرے پیسر سے محروم کین ولیمسن کو جب فخر زمان کی یلغار سے پالا پڑا تو وہ بھی دھند میں ٹامک ٹوئیاں مارتے نظر آئے۔
بنگلورو کی یہ پچ رنز سے بھرپور تھی، گھاس نام کو نہ تھی اور یہاں کسی سپیشلسٹ سپنر کے بغیر میدان میں اترنا بہت بڑی حماقت تھی۔ مگر کیویز نے یہاں پاکستان سے بھی بڑی حماقت کر ڈالی اور تیسرے سیمر کو الیون میں شامل کرنا ضروری خیال نہ کیا۔
ٹاس جیت کر کیویز کو پہلے بیٹنگ کی دعوت دینے کا فیصلہ گو پچ کے لحاظ سے ایسا دانشمندانہ نہیں تھا مگر یہ بصیرت بہرحال اس میں تھی کہ ہدف کے تعاقب کے ہنگام اگر بارش ہو گئی تو بیٹنگ ٹیم کے لیے ترجیحات زیادہ واضح رہنے کا امکان ہوا کرتا ہے۔
یہ بھی طے کرنا دشوار ہے کہ پہلے پاور پلے میں پاکستانی بولنگ زیادہ احمقانہ تھی یا کیوی بولنگ۔ شاہین آفریدی کبھی لیگ سٹمپ کے باہر بھٹکتے پائے گئے تو کبھی آف سٹمپ سے پرے کھوئے کھوئے سے دکھائی دیے۔
Getty Images
کیوی بیٹنگ نے پاکستانی بولنگ کی غلطیوں کا بھرپور فائدہ اٹھایا اور رچن رویندرا نے اپنے مختصر ترین کرئیر کی تیسری سینچری داغ ڈالی۔ ولیمسن بھی طویل غیر حاضری کے بعد ٹیم میں واپس آئے اور اپنی موجودگی سے اس بیٹنگ لائن کو تقویت فراہم کی جو جنوبی افریقی بولنگ مہارت کے سامنے بری طرح آشکار ہوئی تھی۔
یہ ہدف تقریباً ناقابلِ تسخیر تھا اگر کیوی اٹیک کو ساؤدی اور بولٹ کے سوا کوئی تیسرا باقاعدہ سیمر مہیا ہوتا۔ مگر جو بولنگ وسائل ولیمسن کو دستیاب تھے، ان کو بھی دانشمندی سے استعمال کر جاتے تو بھی شاید یہ فتح پاکستان کے حصے نہ آ پاتی۔
مگر جہاں فخر زمان بارش کے منڈلاتے خطرے اور ڈک ورتھ لوئیس کے تقاضوں سے پوری طرح آگاہ تھے، وہیں ولیمسن اس سارے حساب کتاب سے یکسر غافل نظر آئے۔
جہاں وکٹ میں بولرز کے لیے ذرہ بھر تائید نہ تھی اور ٹرینٹ بولٹ کو بھی فخر زمان آڑے ہاتھوں لے رہے تھے، وہاں اگر ولیمسن گلین فلپس کو دو اوورز آزمانے کے بعد ڈیرل مچل کے سست میڈیم پیس کٹرز کی طرف رجوع کرتے تو شاید کوئی بچت کی سبیل بن بھی پاتی۔
مگر اپنے کم بیک کے بعد فخر زمان جس دھواں دھار فارم میں ہیں، وہاں شاید کوئی بہترین بولر بھی ان کا رستہ روکنے کو کم پڑ جاتا۔ جس درستی اور برق رفتاری سے فخر کا بلا اور قدم متحرک ہوئے، وہاں اگر بارش نہ بھی برستی تو جیت پاکستان ہی کا مقدر ٹھہرتی۔
بلکہ ایک لحاظ سے بارش پاکستان کے لیے ناسازگار ہی ثابت ہوئی کہ اگر اننگز مکمل ہو پاتی تو شاید پاکستان کے نیٹ رن ریٹ میں زیادہ بہتری آ جاتی اور ورلڈ کپ کی تاریخ میں سب سے بڑے مجموعے کے تعاقب کا ایک نیا ریکارڈ بھی حصے میں آ جاتا۔
گو، بادی النظر میں پاکستانی شائقین اس فتح کو قدرت کے نظام کی کاری گری سے تعبیر کر سکتے ہیں مگر درحقیقت یہ فخر زمان کی کاریگری تھی جو کیوی اٹیک کی کم مائیگی اور ولیمسن جیسے ذہین کپتان کی منصوبہ سازی پہ یکسر بھاری پڑ گئی۔