Getty Images
انڈین فاسٹ بولر محمد شامی نے رواں ورلڈ کپ میں دو بار پانچ وکٹیں لے کر جہاں اپنی اہمیت واضح کی ہے وہیں وہ انڈیا کی جانب سے ورلڈ کپ میں سب سے زیادہ 45 وکٹ لینے والے بولر بھی بن گئے ہیں۔
محمد شامی نے رواں ورلڈ کپ کے صرف تین میچوں میں شرکت کی ہے اور ابھی تک 14 وکٹیں لے چکے ہیں۔ اس سے قبل سنہ 2019 کے ورلڈ کپ میں انھوں نے صرف چار میچز کھیلے تھے اور انھوں نے 14 وکٹیں حاصل کی تھیں۔
اپنے ان کارناموں کی وجہ سے وہ کئی دنوں سے سوشل میڈیا پر گرما گرم بحث کا موضوع بنے ہوئے ہیں اور وہیںلوگ پوچھ رہے ہیں کہ آخر انھیں سارے میچز میں کیوں نہیں کھلائے گئے۔
اس بات سے قطع نظر آئیے ہم محمد شامی کے کریئر پر ایک نظر ڈالتے ہیں۔
محمد شامی انڈیا کی سب سے بڑی ریاست اترپردیش کے ضلع امروہہ کے ایک گاؤں سہسپور سے آتے ہیں۔ کہتے ہیں کہ وہ اپنے والد کے خوابوں کی تعبیر ہیں۔
شامی کے والد توصیف علیکے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ اپنے زمانے میں فاسٹ بولر ہوا کرتے تھے لیکن وہ انڈین ٹیم میں یا پھر ریاستی ٹیم میں جگہ بنانے میں ناکام رہے تو انھوں نے اپنی قسمت پر صبر کیا اور آبائی پیشہ کھیتی باڑی کرنے لگے۔
ان کے ہاں پانچ بیٹے پیدا ہوئے اور انھوں نے سب کو تیز گیند باز بنانے کی کوشش کی لیکن انھیں اپنے بیٹے محمد شامی میں وہ چنگاری نظر آئی جو کبھی خود ان میں ہوا کرتی تھی۔ چنانچہ وہ اسے 15 سال کی عمر میں قریبی شہر مراد آباد کے معروف کرکٹ کوچ بدرالدین صدیق کے پاس لے کر پہنچے اور انھیں اپنی شاگردی میں لینے کی درخواست کی۔
شامی کے والد توصیف علی اب حیات نہیں۔ بی بی سی کے نمائندے دلنواز پاشا نے سنہ 2016 میں ان کے والد سے ملاقات کی تھی تو انھوں نے بتایا تھا کہجب وہ اپنے بیٹے کو ٹی سکرین پر وکٹ لے کر اچھلتے ہوئے دیکھتے ہیں تو ان کی آنکھوں میں آنسو آ جاتے ہیں۔
’جہاں جگہ ملتی ہے وہیں گیند بازی کرنے لگتے ہیں‘
توصیف علی نے بتایا تھا کہ شامی کوپیار سے سممی کہتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ’جہاں شامی کو جگہ ملتی ہے وہیں گیند بازی کرنے لگتے ہیں۔ گھر کے آنگن میں، چھت پر، باہر خالی زمین پر، 22 گز سے لمبی ہر جگہ ان کے لیے پچ ہوتی ہے۔‘
دلنواز پاشا نے بتایا کہ گاؤں میں ان کے گھر کے پیچھے قبرستان ہے اسی قبرستان کی خالی زمین شامی کے لیے پہلا میدان بنی۔
شامی نے وہیں پچ بنائی اور تیز گیندبازی کی مشق کرنے لگے۔ کہتے ہیں کہ وہ ٹینس بال سے کھیلتے تھے لیکن اس وقت ان کی رفتار بیٹسمینوں میں خوف پیدا کرتی تھی۔
سندیپ بنرجی شامی پر اپنے ایک مضمون میں بتاتے ہیں کہ کوچ بدرالدین نے شامی کے بارے میں کہا، ’جب میں نے پہلی بار اس 15 سال کے بچے کو نیٹ پر بولنگ کرتے دیکھا، تو میں جان گیا کہ یہ لڑکا عام نہیں ہے۔ اس لیے میں نے اسے تربیت دینے کا فیصلہ کیا۔ ایک سال تک میں نے اسے یوپی کے ٹرائلز کے لیے تیار کیا کیونکہ یہاں کوئی کلب کرکٹ جیسی چیز نہیں ہے۔‘
انھوں نے مزید کہا کہ ’شامی بہت تعاون کرنے والا، بہت معمول کا پابند اور بہت محنتی تھا، اس نے کبھی ٹریننگ سے ایک دن کی بھی چھٹی نہیں لی۔ انڈر 19 کے ٹرائلز کے دوران اس نے بہت اچھی بولنگ کی، لیکن سیاست کی وجہ سے وہ منتخب نہ ہو سکا۔‘
کوچ بدرالدین کے مطابق سیلیکٹرز نے انھیں اگلے سال بچے کو لانے کو کہا لیکن وہ کہتے ہیں کہ ’میں نہیں چاہتا تھا کہ شامی کا ایک سال ضائع ہو۔ اس لیے میں نے ان کے والد کو مشورہ دیا کہ وہ اسے کولکتہ بھیج دیں۔‘
وہ کہتے ہیں کہ شامی جب کلکتہ پہنچے تو ان کا کوئی ٹھکانہ نہیں تھا لیکن قسمت سے انھیں بنگال کرکٹ ایسوسی ایشن کے سابق اسسٹنٹ سیکریٹری دیب برت داس مل گئے جنھوں نے نہ صرف شامی کی صلاحیت کو پہچانا اور انھیں اپنے گھر میں جگہ دی بلکہ انھیں بنگال کے سیلکٹر سمبرن بنرجی سے ملوایا جو شامی کی بولنگ دیکھ کر بہت متاثر ہوئے۔
وہ شامی کو لے کر اس وقت کے انڈیا کے کپتان سورو گنگولی کے پاس لے گئے اور شامی نے جب نیٹس میں گنگولی کو بولنگ کی تو وہ ان سے متاثر ہوئے اور انھیں مغربی بنگال کی رنجی ٹیم کے لیے موزوں قرار دیا اور اس طرح محمد شامی بنگال کی ٹیم کا حصہ بنے۔
’تمہارا کنٹریکٹ سالانہ 75 ہزار روپے ہے،لنچ کے لیے 100 روپے روزملیں گے‘AFP
صحافی سدھارتھ مونگا ای ایس پی این کرکٹ انفو میں شامی اور دیب برت داس کی ملاقات کے بارے میں لکھا ہے کہ دیب نے جب 15 لڑکوں میں انھیں دیکھا تو 20 منٹ میں ہی وہ ’موتی‘ یعنی شامی کو پہچان گئے۔
انھوں نے کہا: ’میں نےپوچھا کہ تمہارا نام کیا ہے۔جواب آیا محمد شامی۔پھر سوال کیا تم کہاں سے آئے ہو؟جواب ملا اترپردیش کے سہسپور سے۔پھر میں نے پوچھا کیا تم کھیلنا چاہتے ہو؟ جواب ملاہاں۔‘
دیب برت داس نے انھیں کہا ’تمہارا کنٹریکٹ سالانہ 75000 روپے ہے اور لنچ کے لیے روزانہ 100 روپے ملیں گے جس پر شامی نے کہاایک مسئلہ ہے۔ میں ٹھہروں گا کہاں؟ میں نے کہا میرے گھر۔‘
صحافی سدھارتھ مونگا بتاتے ہیں کہ دیب برت داس نے شامی کو اپنے ساتھ لیا اور اپنی اہلیہ سے کہا کہ ’یہ لڑکا ہمارے ساتھ رہے گا۔ اس کے بعد اس نے ٹاؤن کلب کے لیے کھیلنا شروع کیا۔‘
محمد شامی کولکتہ کے معروف کرکٹ کلب موہن بگان کرکٹ کلب کے لیے منتخب ہوئے اور پھر انھوں نے پیچھے مڑ کر نہیں دیکھا۔
اکتوبر سنہ 2010 میں مغربی بنگال کے لیے اپنے پہلے ہی ٹی 20 میچ میں انھوں نے چار وکٹیں لے کر سب کو اپنی جانب متوجہ کیا۔
صرف 15 فرسٹ کلاس میچز کھیلنے کے بعد ہی انھیں سنہ 2013 میں ٹیم انڈیا میں منتخب کر لیا گیا اور دہلی کے فیروز شاہ کوٹلہ میں انھوں نے اپنا پہلا ونڈے میچ کھیلا اور چار اوورز میڈن ڈالے۔
انھوں نے ایڈن گارڈنز پر پہلا ٹیسٹ میچ کھیلا اور نو وکٹیں لے کر اپنی رفتار سے لوگوں کو متاثر کیا۔
Getty Images’وکٹ پر گیند لگنے کی آواز سب سے زیادہ پسند ہے‘
صحافی سدھارتھ مونگا نے اپنے مضمون میں مسٹر دیب داس کے حوالے سے لکھا کہ ’شامی کو کبھی پیسے کی خواہش نہیں رہتی۔ ان کا ہدف ہمیشہ سٹمپس ہوتا تھا یعنی جب گیند سٹمپس کو لگتی اور اس سے جو آواز آتی وہ انھیں سب سے زیادہ پسند تھی۔‘
سدھارتھ مونگا کے مطابق ’ہم نے جب سے انھیںدیکھا ہے اس کے زیادہ تر وکٹ بولڈ ہیں۔ وہ گیند کی سیم کو اوپر رکھ کر بولنگ کرتے ہیںاور آف سٹمپ پر یا اس کے ذرا باہر پچ کراتے ہیں اور اندر کی طرف لاتے ہیں۔‘
رواں ورلڈ کپ میں بھی دیکھیں تو شامی کی زیادہ وکٹیں بولڈ ہی ہیں اور یہ آواز ان کی بہت پسند ہے۔
اپنے پہلے ورلڈ کپ یعنی سنہ 2014-15 کے دوران انھوں نے سات میچوں میں 17 وکٹیں لی تھیں پھر سنہ 2019 کے ورلڈ کپ میں چار میچوں میں 14 وکٹیں اور پھر رواں ورلڈ کپ کے تین میچوں میں انھوں نے 14 وکٹیں لے کر ظہیر خان اور جواگل سریناتھ کے انڈیا کی جانب سے ورلڈ کپ میں سب سے زیادہ 44 وکٹیں لینے کا ریکارڈ توڑ دیا ہے۔
سریناتھ نے 44 وکٹیں 33 میچز میں لی تھیں جبکہ ظہیر خان نے 23 میچز میں یہ کارنامہ انجام دیا تھا لیکن محمد شامی نے صرف 14 میچوں میں ان سے زیادہ وکٹیں حاصل کر لی ہیں۔
اگر ورلڈ کپ کے اعدادوشمار پر نظر ڈالی جائے تو ان سے زیادہ کامیاب کوئی دوسرا بولر نہیں ہے۔
سوشل میڈیا پر صارفین یہ سوال پوچھ رہے ہیں کہ انھیں رواں ورلڈ کپ میں سارے میچز کیوں نہیں کھلائے گئے جبکہ بعض کرکٹ شائقین اس بات پر حیران ہیں کہ گذشتہ ورلڈ کپ میں ان کی شاندار کارکردگی کے باوجود انھیں صرف چار میچز ہی کیوں کھلائے گئے۔
سوشل میڈیا پلیٹ فارم ’ایکس‘ پر اموک نامی صارف نے محمد شامی کو ان الفاظ میں بیان کیا ہے:
’وہ محمد شامی ہے۔ انڈین کرکٹر ہے۔ اس کے لیے میرا احترام اور بڑھ گیا ہے۔ پچھلے 4 سالوں میں انھیں اپنی بیوی کی طرف سے جھوٹے الزامات کا سامنا کرنا پڑا۔ وہ اپنی بیٹی کے بیمار ہونے پر بھی اس سے نہیں مل سکے۔ بی جے پی کے حامیوں نے سٹیڈیم میں مذہبی نعرے لگاتے ہوئے ان کے ساتھ بدتمیزی کی اور پھر انھیں 4 میچوں میں ٹیم سے باہر رکھا گیا۔‘
اموک نے مزید لکھا ’اب وہ میچز میں گیند کے ساتھ قوم کے لیے اپنی لگن دکھا رہے ہیں۔وہ بس وکٹ لے رہے ہیں اور اپنے نفرت کرنے والوں کا منہ بند کر رہے ہیں۔وہ بولنگ لائن اپ کےوراٹ کوہلی ہیں۔‘
https://twitter.com/Politics_2022_/status/1720090239723868600
محمد شامی نے ٹیسٹ میچوں میں 229 وکٹس لی ہیں جبکہ 97 ون ڈے انٹرنیشنل میں انھوں نے 185 وکٹیں حاصل کی ہیں۔
شامی کا ریکارڈ ورلڈ کپ میں سب سے زیادہ نمایاں رہا ہے اور جس رفتار سے وہ وکٹیں لے رہے ہیں وہ اپنے آپ میں ایک ریکارڈ ہے۔ ابھی وہ ورلڈ کپ میں آل ٹائم سب سے زیادہ وکٹیں لینے والوں میں آٹھویں نمبر پر ہیں لیکن 20 سے زیادہ وکٹیں لینے والوں میں ان کا اوسط سب سے بہتر ہے۔