افغانستان کی ٹیم انڈیا میں جاری رواں ورلڈ کپ میں پے در پے کامیابیاں حاصل کر رہی ہے اور اس ٹیم کو ملکی ٹیم کے بعد بظاہر سب سے زیادہ حمایت حاصل ہے۔
افغان ٹیم نے پہلے دفاعی چیمپیئن انگلینڈ کو شکست دے کر ایک بڑا اپ سیٹ کیا اور پھر اس نے پاکستان کو شکست دے کر ایک نئی تاریخ رقم کی لیکن گذشتہ شب پونے میں جب اس نے سری لنکا کی ٹیم کو باآسانی سات وکٹوں سے شکست دی تو مبصرین نے کہا کہ افغان ٹیم کی جیت کو اب ’اپ سیٹ‘ نہیں کہا جاسکتا بلکہ یہ ایک مستقل قوت کے طور پر کرکٹ کے افق پر ابھری ہے۔
بہر حال یہاں سوال یہ ہے کہ انڈیا میں کرکٹ شائقین اپنے ملک کی ٹیم کے بعد اگر کسی ٹیم کی حمایت کر رہے ہیں تو وہ افغانستان ہے۔ بات صرف شائقین تک محدود نہیں ہے بلکہ عرفان پٹھان اور ہربھجن سنگھ جیسے معروف کھلاڑی اور کمنٹیٹر بھی افغان ٹیم کی جیت کی خوشی میں رقص کر رہے ہیں۔
سوشل میڈیا پر افغانستان کے باشندے اور افغان ٹیم کے اراکین انڈینز کی حمایت کی تعریف اور ان کا شکریہ ادا کر رہے ہیں۔
ایسے میں سوال یہ اٹھتا ہے کہ آخر افغانستان کی کرکٹ ٹیم کو انڈیا میں اس قدر کیوں پسند کیا جا رہا ہے؟ یہاں تک کہ انڈیا کو اس کو دوسرا گھر بھی کہا جا رہا ہے۔
ہم نے یہ سوال کینیڈا میں مقیم سپورٹس جرنسلٹ معین الدین حمید سے کیا جنھوں نے پاکستانی کرکٹر اور سابق کپتان سلیم ملک پر ایک کتاب تصنیف کی ہے اور کرکٹ پر گہری نظر رکھتے ہیں۔
Getty Images
معین الدین حمید نے بی بی سی سے ٹیلیفون پر بات کرتے ہوئے کہا کہ اس کی تاریخی اور سیاسی وجوہات ہیں۔ اگرچہ افغانستان انڈیا کا براہ راست پڑوسی نہیں ہے لیکن پھر بھی دونوں کا تاریخی تعلق رہا ہے اور پاکستان کے مقابلے افغانستان میں انڈیا کو زیادہ پسند کیا جاتا ہے۔ اور یہی صورت حال اب انڈیا میں بھی ہے۔
انھوں نے کہا کہ ’اگرچہ پاکستان نے افغانستان کی ہر موقع پر مدد کی ہے اور اس کے لاکھوں پناہ گزینوں کو اپنے یہاں پناہ دی ہے یہاں تک کہ ان کی ٹیم کو تیار کرنے میں بھی کلیدی کردار ادا کیا ہے لیکن پاکستان کے عوام میں یہ احساس پایا جاتا ہے کہ اگر بات انڈیا اور پاکستان کی ہو تو افغانستان کے لوگ روایتی طور پر انڈیا کی حمایت کرتے نظر آتے ہیں۔‘
انھوں نے مزید کہا کہ ’اگر سپورٹس کی بات کی جائے تو پاکستان کے کھلاڑیوں نے تو انھیں بیٹ پکڑنا سکھایا ہے۔ کبیر خان، راشد لطیف، انضمام الحق، عمر گل وغیرہ نے ان کی تربیت میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا ہے۔ وہ وہاں جا کر ان کی کوچنگ کیا کرتے تھے۔‘
اگرچہ راشد لطیف اور انضمام کو پشتو زبان نہیں آتی لیکن باقی کھلاڑی جو خیبرپختونخوا سے آتے ہیں وہ انھیں ان کی زبان میں تربیت دے رہے تھے۔ جبکہ راشد خان جیسے کچھ افغان کھلاڑی اگرچہ افغانستان میں پیدا ہوئے ہیں لیکن جب وہ بے وطن ہو کر پاکستان آئے تو انھوں نے پاکستان میں ہی کرکٹ سیکھی اور سکول اور کالج کی تعلیم حاصل کی۔
بہر حال ان کا یہ کہنا تھا کہ عقیدے کی یکسانیت کے باوجود پاکستان کے بجائے ان کا انڈیا کی طرف جھکاؤ ناقابل فہم ہے۔
’دوسرا گھر‘
دوسری جانب افغانستان پر امریکہ کے قبضے کے بعد افغانستان میں انڈیا نے ترقیاتی پروگراموں میں اربوں ڈالر کی سرمایہ کاری کر رکھی ہے۔ اور سنہ 2021 کے وسط میں افغانستان میں طالبان کی واپسی کے بعد سے افغان ٹیم کو انڈیا نے پناہ دے رکھی ہے اور بہت سے مبصرین کے خیال میں انڈیا افغانستان کی ٹیم کا ’دوسرا گھر‘ ہے۔
کرکٹ صحافی آدیش کمار نے بی بی سی سے فون پر بات کرتے ہوئے کہا کہ ’اس میں کوئی شک نہیں کہ پاکستان کے کھلاڑیوں نے افغانستان ٹیم کو کھڑا کیا لیکن جب ان کی جانب سے حمایت ختم ہو گئی تو انڈیا نے ہاتھ بڑھایا اور افغان کھلاڑیوں کی تربیت کی۔ بی سی سی آئی نے دہلی کے پاس نوئیڈا میں اور دہرہ دون میں انھیں تربیت فراہم کی۔‘
انھوں نے مزید کہا کہ ’دونوں ممالک کے پرانے رشتے بھی اس معاملے میں اہم ہیں۔ اب جبکہ پاکستان کے خلاف انڈیا کے میچز صرف آئی سی سی ٹورنامنٹ تک محدود ہو گئے ہیں تو افغانستان کی ٹیم انڈیا میں اہمیت حاصل کر گئی ہے۔‘
’سیاسی وجوہات کی بنا پر آئی پی ایل میں پاکستانی کھلاڑی نہیں ہیں جبکہ افغانستان کے کھلاڑی یہاں نظر آتے ہیں اور اسی وجہ سے نئے کرکٹ شائقین میں ان سے ایک طرح کی انسیت بھی ہے۔ لیکن حالیہ ورلڈ کپ میں انھوں نے جس کارکردگی کا مظاہرہ کیا ہے اس سے یہ لگتا ہے کہ اب زیادہ افغان کھلاڑی آئی پی ایل میں نظر آئيں گے۔‘
بی سی سی آئی کی حمایت کے ساتھ افغان ٹیم کو جو کمپنی سپانسر کر رہی ہے وہ انڈین کمپنی امول ہے۔ فی الحال ان کی ٹیم کے مینٹور انڈین کرکٹر اجے جڈیجہ ہیں اور افغان ٹیم کے ساتھ انھیں دیکھا جانا بھی انڈینز کے لیے قابل قدر بات ہے۔
یہ بھی پڑھیے
دہلی میں افغانستان کا سفارتخانہ 21 سال بعد دوبارہ بند کیوں ہوا؟
’کسی اور ملک نہیں جا سکتے، افغانستان میں خطرات ہیں اور یہاں اب کوئی رہنے نہیں دے گا‘
پاکستان، افغانستان کرکٹ میچ ’سیاسی‘ کیسے بنا؟
سوشل میڈیا پر بازگشت
اس حوالے سے سوشل میڈیا پر بھی بات ہو رہی ہے۔
عرفہ فیروز ذکی نامی صارف نے لکھا کہ ’افغان کھلاڑیوں نے کرکٹ پاکستان میں سیکھی لیکن حیرت کی بات ہے کہ ہمیشہ انڈیا کو اپنا دوسرا گھر بتایا۔ افغان نے ہمیشہ پاکستان کے خلاف انڈیا کی حمایت کی ہے۔۔۔‘
https://twitter.com/ArfaSays_/status/1716329419969622027
دی کیپلائی نامی ایک صارف نے اسی بات کی جانب اشارہ کرتے ہوئے ایکس (سابقہ ٹوئٹر) پر لکھا کہ ’میں جانتا ہوں کہ بی سی سی آئی (انڈین کرکٹ بورڈ) بہت سی چیزوں کا قصوروار ہے لیکن ایک چیز جس کے لیے وہ کریڈٹ کے مستحق ہیں وہ افغان کرکٹ ٹیم کو ان کی غیر متزلزل حمایت ہے۔
’انھیں بین الاقوامی میچوں کی میزبانی کے لیے ایک سٹیڈیم دینا، جب ان کے پاس کوئی نہیں تھا اس صورت حال میں تربیتی سہولیات تک رسائی دینا اور کوچنگ اقدامات کے ذریعے افغان کھلاڑیوں اور کوچز کی مدد کرنا، افغان کرکٹ کی ترقی میں بی سی سی آئی کا بڑا ہاتھ ہے۔‘
انھوں نے مزید لکھا کہ ’آج، کرکٹ کی دنیا میں ان کا تیزی سے ترقی کے زینے چڑھنا ہم سب کے لیے خوشی کا باعث ہے۔ لیکن اگر بی سی سی آئی نہ ہوتا تو ان کا سفر کچھ زیادہ ہی مشکل ہوتا۔‘
https://twitter.com/thekaipullai/status/1716670616764621083
بہت سے صارفین نے ان کی بات سے اتفاق کیا ہے۔ انوپما سنگھ نامی ایک صارف نے لکھا کہ ’یہ بالکل درست ہے اور انڈیا میں افغانستان ٹیم کو جو تعاون ملا ہے وہ الگ ہی سطح پر ہے اور اس کے لیے تمام کھلاڑی شکرگزار ہیں۔ ہم انھیں کئی گنا ترقی کرتا دیکھنا چاہتے ہیں۔‘
وازمہ سائل نامی ایک صارف نے لکھا کہ ’سلام افغانستان اور انڈیا۔ ورلڈ کپ میچز جیتنے کی خوشی کچھ الگ ہی تھی مگر انڈین دوستوں کی حمایت سے یہ خوشی دگنی ہو گئی ہے۔ شکریہ انڈیا آپ کا افغان ٹیم کی خوشی میں شامل ہونے کے لیے اور عرفان پٹھان کے لیے خصوصی شکریہ ان کے ڈانس کے لیے جس نے ہم لوگوں کا دل جیت لیا۔ انڈیا افغان دوستی زندہ باد۔‘
https://twitter.com/Sayel_D/status/1719109806991024436
جبکہ صحافی نذرانہ یوسفزئی نے لکھا کہ ’افغانستان کی ٹیم طالبان حکومت کی صفر حمایت کے ساتھ کھیل رہی ہے اور اس نے اب تک اتنا کچھ حاصل کیا ہے۔ یہ عالمی سطح کے کھیل کا مظاہرہ ہے۔ ان کو دیکھنا کتنا اچھا تھا۔ افغانوں کو مسکراتا دیکھ کر بہت خوش ہوں۔‘
https://twitter.com/Nazranausufzai/status/1719023605680337185
بہر حال عرفان پٹھان کے جشن اور ڈانس پر جہاں افغانستان کے کھلاڑیوں اور مداحوں سے ان کی تحسین کی جا رہی ہے وہیں پاکستان کے مداح ان سے خوش نہیں ہیں۔
افغان کرکٹر محمد مجیب نے عرفان پٹھان کے جشن اور حمایت کا شکریہ ادا کیا ہے جبکہ عبید معظم نامی ایک صارف نے افغانستانی ٹیم کے کھلاڑیوں کی میدان میں نماز ادا کرنے والی ایک ویڈیو ڈال کر لکھا کہ ’افغانستان ٹیم کرکٹ گراؤنڈ پر نماز ادا کر رہی ہے۔ عرفان بھائی صرف ناچتے گاتے ہو یا کبھی افغان ٹیم کے ساتھ نماز بھی پڑھوگے؟‘
فضل افغان نامی ایک صارف نے لکھا کہ پڑوسی ہماری شکست پر رقص کرنا چاہتے تھے لیکن ہمارے بھائی ہماری جیت پر رقص کر رہے ہیں۔ ان کے خواب بس خواب ہی رہے۔ شکریہ عرفان بھائی اور سارے انڈین ساتھیوں۔‘
https://twitter.com/fhzadran/status/1719063999026012184
موسکا سنگر نیازی نامی صارف نے لکھا کہ ’افغان قوم کے لیے محبت اور حمایت کا اظہار کرنے کے لیے آپ کا شکریہ عرفان پٹھان اور ہربھجن سنگھ۔ آپ کا رقص ہمارے پڑوسی کے لیے ’جوہری‘ دھماکہ ہے۔‘
افغانستان کے سوشل میڈیا صارفین کی ٹویٹس دیکھ کر یہ واضح ہوتا ہے کہ وہ پاکستان کو اپنا حریف مانتے ہیں اور ان کی ساری مسابقت پڑوسی ملک پاکستان سے ہے۔
صحافی معین الدین حمید نے کہا کہ افغانستانیوں کا انڈیا کی حمایت کرنا ان کی سمجھ سے باہر ہے۔
انھوں نے کہا کہ ’افغانستان سے پاکستان کی سرحد ملتی ہے اور انھیں راستہ بھی پاکستان ہی فراہم کرتا ہے تو ان کی تجارت چلتی ہے کیونکہ ان کے پاس بندرگاہ بھی نہیں ہے، پھر بھی جس طرح سے متحدہ عرب امارات میں افغان کھلاڑیوں نے پاکستانی کھلاڑی کے ساتھ تصادم کیا تھا وہ ناقابل یقین تھا۔ پاکستان میں یہ تاثر پایا جاتا ہے کہ افغانستان احسان فراموش رہا ہے۔‘
Getty Images
بہت سے لوگوں کا خیال ہے کہ انڈیا میں پاکستان کے خلاف کسی بھی ٹیم کی حمایت دیکھنے میں آئی اور انڈینز میں یہ تبدیلی سنہ 2014 میں مودی حکومت کے بعد واضح طور پر دیکھی جا رہی ہے۔
عوام کو افغانستان یا بنگلہ دیش کے کھلاڑیوں کے نماز پڑھنے اور اپنے ملک کا پرچم لہرانے پر کوئی اعتراض نہیں ہے جبکہ پاکستان کے معاملے میں نہ عوام اور نہ ہی انتظامیہ کو ایسا پسند ہے جس کی ایک جھلک پاکستان اور افغانستان کے میچ کے دوران ایک پاکستانی شہری کے پاکستانی پرچم کے ساتھ سٹیڈیم میں پولیس کانسٹیبل سے مباحثے کے دوران ملتی ہے۔
انڈیا کی اہم یونیورسٹی جے این یو میں فارسی کے پروفیسر اور افغان امور کے ماہر محمد مظہرا الحق نے اس سے قبل بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا تھا کہ 'آج انڈیا کی افغانستان سے تجارت پہلے سے کہیں زیادہ ہے۔'
انھوں نے کہا کہ طالبان حکومت کے آنے کے بعد اگرچہ سفارتی تعلقات ظاہری طور پر نظر نہیں آتے لیکن ٹیکنیکل سسٹینس کے طور پر انڈیا کی وہاں موجودگی کافی مضبوط ہے۔
انڈیا نے افغانستان میں بہت سے پراجیکٹ شروع کر رکھے ہیں اور اس نے تقریباً تین ارب امریکی ڈالر کی سرمایہ کاری بھی کر رکھی ہے۔