Getty Images
نیدرلینڈز سے شکست کے بعد جب بنگلہ دیشی کپتان شکیب الحسن نے کہا کہ وہ ورلڈ کپ کی مہم جوئی سے تو خارج ہو ہی چکے ہیں مگر ان کی نظر ابھی مزید فتوحات کھوج کر چیمپیئینز ٹرافی کی کوالیفکیشن پر ہے تو کئی کرکٹ بورڈز کے لیے یہ خبر کسی جھٹکے سے کم نہ تھی۔
دو سال پہلے جب ون ڈے سپر لیگ متعارف کروائی گئی تو اس کا مقصد عالمی ایونٹس کی براہِ راست کوالیفکیشن کا رستہ سدھارنا تھا مگر ایک ہی سال بعد ون ڈے سپر لیگ ختم کر کے ہر اگلے ایونٹ کی کوالیفکیشن کو سابقہ ایونٹ کے پوائنٹس ٹیبل سے مشروط کر دیا گیا۔
شکیب الحسن کے بیان کے بعد انگلش کیمپ کو بھی بہت بڑا جھٹکا لگا۔ انگلش کوچ میتھیو موٹ نے کہا کہ وہ بھی اس منظرنامے سے آگاہ نہ تھے کہ ان کی حالیہ کارکردگی دو برس بعد پاکستان میں منعقد ہونے والی چیمپیئنز ٹرافی میں شمولیت پر اثر انداز ہو سکتی ہے۔
بہرطور اس انکشاف کے بعد ورلڈ کپ کے باقی ماندہ بے معنی مقابلوں کو کچھ معنویت سی مل گئی ہے کہ جو ٹیمیں ٹاپ فور کی دوڑ سے باہر ہو چکی ہیں، انھیں بھی چیمپیئنز ٹرافی میں شمولیت کو ملحوظِ نظر رکھ کر بہتر کھیل پیش کر کے جیت کی خاطر جہد کرنا ہو گی۔
پاکستان کی مگر خوش قسمتی ہے کہ بطور میزبان ان کی کوالیفکیشن طے ہو چکی ہے اور کوئی نئی تلوار سر پر نہیں لٹک رہی مگر بنگلہ دیشی کیمپ میں اضطراب بھرپور ہے کہ اگر انھیں اگلے ون ڈے ایونٹ کے لیے رسائی حاصل کرنا ہے تو پاکستان کے خلاف جیت ناگزیر ہو چکی ہے۔
اس اضطراب کا ذمہ دار بھی خود بنگلہ دیشی کرکٹ بورڈ ہی ہے جہاں انتظامی معاملات آمرانہ انداز میں اور ٹیم سلیکشن بچکانہ انداز میں ہو رہے ہیں۔ اندرونی سیاست کی خلفشاریوں کا یہ عالم ہے کہ گیارہ کھلاڑی ٹیم میں نہیں ڈھل پا رہے اور ٹاپ پرفارمر بلے باز کا بیٹنگ آرڈر میچ در میچ نیچے سرکتا جا رہا ہے۔
جبکہ پاکستان کے سر پر لٹکتی تلوار فقط اس ’صحافت‘ کی ہے جو اپنے ناپسندیدہ چہروں کی گردن لپیٹنے کو کچھ بھی کر گزرنے پر تیار رہتی ہے۔
Getty Imagesشکیب الحسن نے کہا کہ وہ ورلڈ کپ کی مہم جوئی سے تو خارج ہو ہی چکے ہیں مگر ان کی نظر ابھی مزید فتوحات کھوج کر چیمپئینز ٹرافی کی کوالیفکیشن پر ہے تو کئی کرکٹ بورڈز کے لیے یہ خبر کسی جھٹکے سے کم نہ تھی
کپتان بابر اعظم کے ذاتی واٹس ایپ میسجز مین سٹریم میڈیا کی سکرینوں پر دکھائے جا رہے ہیں اور اسے صحافتی اخلاقیات کے عین مطابق بھی قرار دیا جا رہا ہے۔
یوٹیوب پر کلکس اور ویوز کی دوڑ میں بھاگتے ’سینیئر‘ صحافی ٹیم کو بیچ دیے جانے کے انکشافات فرما رہے ہیں اور ایک جید صحافی اس امر پر معترض ہو رہے ہیں کہ ٹیم کا میڈیا مینیجر نیکر پہن کر کیوں گھوم رہا ہے اور اس کا ٹیم کی کارکردگی پر کس قدر منفی اثر مرتب ہو رہا ہے۔
سونے پر سہاگہ یہ کہ ذکا اشرف ان تمام صحافتوں پر گہری نگاہ رکھے ہوئے ہیں اور شکایت موصول ہوتے ہی میڈیا مینیجر کو پاکستان واپس بلا چکے ہیں۔ ٹیم کی کارکردگی سے وہ پہلے ہی بری الذمہ ہو چکے ہیں کہ کپتان اور چیف سلیکٹر ہی تمام نقص کے ذمہ دار ہیں۔
جب کرکٹ کے انتظامی ادارے کی سربراہی پر ایسے لوگ براجمان ہوں گے جن کی اپنی نشست عارضی سیاسی پشت پناہی اور میڈیا کی تائید سے جڑی ہو گی تو ایسے ہی زریں فیصلے دیکھنے کو مل سکتے ہیں اور ٹیم کی کارکردگی بھی یوں ہی نشیب و فراز سے بھرپور رہے گی۔
آسٹریلین اور انگلش سپورٹس جرنلزم کے بارے میں اکثر کہا جاتا ہے کہ وہ اپنی ٹیم کے بارہویں کھلاڑی کا کردار نبھایا کرتے ہیں اور اپنی چیخ و پکار سے حریف ٹیموں کا جینا دوبھر کر دیتے ہیں جبکہ اس کے برعکس پاکستانی سپورٹس جرنلسٹس ایسے تعصبات سے یکسر خالی ہیں کہ وہ ہمیشہ حریف ٹیموں کے بارہویں کھلاڑی کی شکل میں اپنی ہی کرکٹ کی جڑیں کاٹنے میں مصروف رہتے ہیں۔
جو منفیت یہاں بابر اعظم کے خلاف پھیلائی جا رہی ہے، اس میں بنیادی وجہ ان کی قائدانہ صلاحیتوں پر کوئی کرکٹنگ بحث نہیں بلکہ یہ ساری مہم جوئی اس لیے ہو رہی ہے کہ ان کا تعلق اس ریجن سے نہیں جہاں سے میڈیا کی ہمدردیاں وابستہ ہیں۔
ورلڈ کپ کے آغاز سے پہلے ہی یہ مہم جوئی زور شور سے شروع ہو چکی تھی اور یہ میڈیا پہلے دن سے ہی پاکستان کی ہر حریف ٹیم کے بارہویں کھلاڑی کا کردار ادا کر رہا ہے اور کل بھی بابر اعظم کا مقابلہ بنگلہ دیش کے گیارہ کھلاڑیوں سے کہیں زیادہ ان کے بارہویں کھلاڑی سے ہی ہو گا جس کا تعلق بنگلہ دیش سے نہیں بلکہ بدقسمتی سے، پاکستان ہی کی ٹی وی سکرینوں سے ہے۔