Getty Images
’ہم معجزات پر یقین رکھتے ہیں، اور یقین سے معجزے ہوتے ہیں۔ اس سے پہلے بھی ہم ایسی صورتحال میں آنے کے بعد کامیاب ہوئے ہیں۔‘
یہ پاکستان کے نائب کپتان شاداب خان تھے جو پاکستان کے جنوبی افریقہ کے خلاف اہم میچ سے قبل میڈیا سے بات کر رہے تھے اور ایک بار پھر ایک ایسی صورتحال کا تذکرہ کر رہے تھے جس میں پاکستانی ٹیم ایک آئی سی سی ایونٹ میں پھنس چکی ہے۔
پاکستانی ٹیم کی یہ روایت خاصی پرانی ہے کہ جب وہ کسی ٹونامنٹ میں برا آغاز کرے تو پھر اچانک اسے ہوش آتا ہے اور پھر ٹیم کی فتوحات کا سلسلہ شروع ہو جاتا ہے۔
تاہم پاکستان کی گذشتہ تین میچوں پر نظر ڈالیں تو قومی ٹیم کی ناقص فیلڈنگ اور بولنگ اور بینچ پر بیٹھے متبادل کھلاڑیوں کو دیکھ کر ایسا ہرگز نہیں لگتا کہ یہ ٹیم اس صورتحال کو تبدیل کر پائے گی۔ لیکن سوال یہ ضرور بنتا ہے کہ بات یہاں تک پہنچی کیسے؟
ورلڈ کپ شروع ہونے سے لگ بھگ پانچ ماہ قبل پاکستان نے نیوزی لینڈ کو پاکستان میں کھیلی جانے والی پانچ میچوں کی ون ڈے سیریز میں 4-1 سے شکست دی تھی۔
اس سیریز میں پاکستان کے لیے سب فخر زمان نے تین لگاتار سنچریاں سکور کی تھیں اور پلیئر آف دی سیریز قرار پائے تھے جبکہ حارث رؤف، نسیم شاہ اور اسامہ میر خاص طور پر نمایاں رہے تھے۔
کپتان بابر اعظم بھی اچھی فارم میں تھے اور سیریز میں دو نصف سنچریاں اور ایک سنچری بنا چکے تھے۔ سیریز کے اختتام تک پاکستان کے تین بلے باز آئی سی سی ون ڈے رینکنگ میں ٹاپ فائیو میں تھے اور پاکستان ٹیم درجہ بندی میں سرِ فہرست آ چکی تھی۔
تو پھر گذشتہ پانچ ماہ میں ایسا کیا ہوا کہ بظاہر ہر شعبے میں بہترین کارکردگی دکھانے والی ٹیم انڈیا جا کر بولنگ اور فیلڈنگ میں خاص طور پر بری طرح ناکام دکھائی دی؟
https://twitter.com/najamsethi/status/1645326581311864833?ref_src=twsrc%5Etfw
بورڈ چیئرمین کی تبدیلی، ورلڈ کپ سے پہلے پاکستان کا شیڈول
ورلڈ کپ کا سال عموماً ویسے ہی اہم ہوتا ہے جیسے کسی سیاسی جماعت کے لیے الیکشن کا سال۔ اس سال کے دوران عموماً دنیا بھر کی ٹیمیں ان 15 کھلاڑیوں کے سکواڈ کو حتمی شکل دیتی ہیں جو کرکٹ کا سب سے اہم ٹورنامنٹ کھیلے گا۔
تاہم پاکستان کرکٹ کے لیے یہی ورلڈ کپ کا سال عموماً بورڈ کی سطح پر سب سے زیادہ تبدیلیوں کا سال ہوتا ہے۔
گذشتہ ایک سال کے دوران پہلے رمیز راجہ کی جگہ نجم سیٹھی کو چیئرمین بنایا گیا اور پھر عین ورلڈ کپ سے چند ماہ قبل ذکا اشرف کو چیئرمین لگا دیا گیا۔
اسی دوران بابر اعظم کی کپتانی پر نظرِ ثانی کے بارے میں بھی تنازع بنا رہا۔ شان مسعود جنھوں نے رواں سال کے آغاز میں چار سال تک کوئی ون ڈے نہیں کھیلا تھا اچانک بطور نائب کپتان ٹیم میں شامل کر لیے گئے۔
یہی نہیں مارچ میں افغانستان کے ساتھ ٹی ٹوئنٹی سیریز سے قبل شاہین آفریدی کو کپتان بنانے کی بھی افواہیں گردش کیں جس کے بعد شاہین کی جانب سے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس پر بابر اعظم اور رضوان کے ساتھ ایک تصویر پوسٹ کی گئی جس سے بظاہر بابر اعظم کی حمایت کی گئی۔
نجم سیٹھی نے ایک یوٹیوب چینل پر صحافی وحید خان کو انٹرویو میں کہا تھا کہ ’ان کے لیے اعداد و شمار بہت اہمیت رکھتے ہیں اور اگر بابر اعظم اچھا پرفارم کریں گے تو انھیں کپتان برقرار رکھا جائے گا۔ ورنہ آپ سمیت دیگر صحافی ان کی کپتانی پر سوال کریں گے۔‘
بورڈ چیئرمین کی جانب سے ایسا بیان یقیناً کسی بھی کپتان پر دباؤ بڑھاتا ہے اور بابر اعظم جو پہلے ہی انگلینڈ کے خلاف ہوم ٹیسٹ سیریز ہارنے کے باعث دباؤ میں تھے نے اگلے کئی میچوں کے لیے ٹیم میں زیادہ تبدیلیاں نہ کرنے پر اکتفا کیا۔
اس کا خمیازہ پاکستان کو ورلڈ کپ سے پہلے کھلاڑیوں کے آؤٹ آف فارم ہونے اور زخمی ہونے کی بعد بھگتنا پڑا جب بینچ پر متبادل کھلاڑی موجود ہی نہیں تھے۔
تاہم اس انٹرویو میں انھوں نے ایک اہم انکشاف یہ بھی کیا تھا کہ نیوزی لینڈ سیریز سے قبل جب انھوں نے ذمہ داری سنبھالی تھی تو عبوری سلیکشن کمیٹی (جس کی سربراہی شاہد آفریدی کر رہے تھے) قومی ٹیم میں تبدیلیوں کے علاوہ کپتان کو بھی تبدیل کرنا چاہتی تھی۔
اس کے بعد شاہد آفریدی کی جانب سے جاری بیان میں وضاحت کی گئی تھی کہ نجم سیٹھی کی جانب سے دیے گیے بیان میں ان کے بارے میں بات نہیں کی گئی تھی۔
اس ساری صورتحال میں نہ صرف پاکستان نے سری لنکا کے خلاف ٹیسٹ سیریز میں کسی کو آرام نہیں دیا بلکہ افغانستان کی سیریز اور ایشیا کپ میں بھی زیادہ تبدیلیاں نہیں کی گئیں۔
نتیجہ یہ نکلا کے جب نسیم شاہ زخمی ہوئے تو ان کا متبادل حسن علی سامنے آئے جو ایک سال سے ٹیم کے ون ڈے پلانز میں نہیں تھے۔ اسی طرح فخر زمان کے آؤٹ آف فارم ہونے کے بعد عبداللہ شفیق کو ایشیا کپ کے آخری میچ میں چانس دیا گیا، اور سعود شکیل کو ورلڈ کپ سے پہلے بالکل بھی موقع نہیں دیا۔
یہ تینوں ہی کھلاڑی اب تک ورلڈ کپ میں قدرے بہتر کارکردگی دکھانے میں کامیاب رہے ہیں۔
Getty Imagesٹی ٹوئنٹی کرکٹ پر زور اور آؤٹ آف فارم کھلاڑی
اس ورلڈ کپ میں پاکستان کی بولنگ اور فیلڈنگ دونوں ہی بہت ناقص رہی ہیں۔ اس کی وجہ واضح طور پر پاکستانی کھلاڑیوں میں تھکاوٹ کے آثار بھی ہیں جو ایک تھکا دینے والے ایشیا کپ شیڈول اور سری لنکا میں حبس اور گرمی میں کھیلی جانے والی لنکا پریمیئر لیگ اور افغانستان کے خلاف سیریز کے باعث ہو سکتے ہیں۔
پاکستان کرکٹ ٹیم کے بولرز نے پہلے سری لنکا میں جولائی میں دو ٹیسٹ میچوں کی سیریز کھیلی جس میں نسیم شاہ اور شاہین آفریدی دونوں موجود تھے۔
اس کے بعد لنکا پریمیئر لیگ میں کپتان بابر اعظم سمیت پاکستان کے متعدد کھلاڑیوں نے شرکت کی جبکہ دیگر کھلاڑی ’دی 100‘ نامی فارمیٹ کھیلنے انگلینڈ میں موجود تھے۔
اس سے پہلے کھلاڑیوں نے امریکہ میں میجر لیگ کرکٹ نامی ٹی ٹوئنٹی ٹورنامنٹ اور کینیڈا گلوبل ٹی 20 لیگ میں بھی حصہ لیا تھا۔
یہی وجہ تھی کہ اکثر کھلاڑی انٹرنیشنل کرکٹ کی غیر موجودگی میں بھی ون ڈے ورلڈ کپ کے لیے تیاری کی بجائے ٹی 20 لیگز کھیل رہے تھے۔
یہ کانٹریکٹ ظاہر ہے کئی ماہ پہلے کیے جاتے ہیں اور یہاں اصولاً پاکستان کرکٹ بورڈ کی جانب سے دور اندیشی کا مظاہرہ کیا جانا تھا جو نہیں کیا گیا۔
اسی طرح ایشیا کپ میں پاکستان ٹیم کے تھکا دینے والے شیڈول اور سری لنکا میں ہی افغانستان سے سیریز کھیلنے نے بھی کھلاڑیوں پر مزید دباؤ بڑھایا۔
اسی طرح جب سکواڈ کی سیلیکشن کا موقع آیا تو کپتان بابر اعظم کی جانب سے انھی کھلاڑیوں پر بھروسہ کیا گیا جو ایک عرصے سے ٹیم کے ساتھ موجود تھے، حالانکہ وہ حالیہ عرصے میں آؤٹ آف فارم تھے۔
سنہ 2019 کے ورلڈ کپ سے اس سال 15 جولائی تک پاکستان نے صرف 27 ون ڈے کھیلے تھے، یہی وجہ تھی کہ اس بارے ٹیم کامبینیشنز کا استعمال نہیں کیا جا سکا اور توجہ ٹی ٹوئنٹی پر رہی۔
Getty Images
اس کے علاوہ متعدد کھلاڑی ایک ساتھ ہی آؤٹ آف فارم ہوئے ہیں جن میں سرِ فہرست پاکستان کے بولرز ہیں۔
سپنر محمد نواز اس سال اپریل تک عمدہ فارم میں تھے اور پاکستان کو مڈل اوورز میں وکٹیں لے کر دے رہے تھے۔ رواں برس اپریل سے پہلے کھیلے گئے 11 ون ڈے میچوں میں ان کی اوسط 21 کی تھی، جبکہ اس کے بعد سے کھیلے جانے والے میچوں میں ان کی اوسط 88 کی ہے۔
شاداب خان جو انجریز کا شکار رہے ہیں خود کو ون ڈے کرکٹ میں بطور بولر منوانے میں ناکام رہے ہیں اور تبھی ان کی جگہ اسامہ میر کو بیک اپ کے طور پر کھلایا گیا اور انھوں نے نیوزی لینڈ کے خلاف سیریز میں اچھا پرفارم بھی کیا تاہم انھیں بعد میں ورلڈ کپ سے پہلے میچوں میں چانس نہیں دیے گئے جو سمجھ سے بالاتر تھی۔
شاہین آفریدی بھی آغاز کے میچوں میں اپنی بہترین فارم میں دکھائی نہیں دیے اور حارث رؤف بھی بہت مہنگے ثابت ہوئے ہیں۔
اب دیکھنا ہو گا کہ پاکستان ورلڈ کپ کے بقیا میچوں میں بھی مایوس کن کارکردگی کا مظاہرہ کرے گے یا وہ سوئچ ڈھونڈنے میں کامیاب ہو پائے گا جو عموماً ایسے موقعوں پر ماضی کی پاکستانی ٹیمیں ڈھونڈ پائی ہیں اور جس کا ذکر شاداب خان کر رہے تھے۔