وہ ’ایک‘ جیت پانے کی آخری مہلت: سمیع چوہدری کا کالم

بی بی سی اردو  |  Oct 26, 2023

Getty Images

’جب ہم بولنگ اچھی کرتے ہیں تو ہماری بیٹنگ اچھی نہیں رہتی اور جب ہم بیٹنگ اچھی کرتے ہیں تو فیلڈنگ اچھی نہیں کر پاتے۔‘ یہ الفاظ تھے بابر اعظم کے جو چنئی میں افغانستان کے ہاتھوں شکست کے بعد اپنے جذبات عیاں کر رہے تھے۔

بابر کے یہ الفاظ آفیشل سطح سے اگرچہ بہت دیر بعد آئے ہیں مگر پاکستانی شائقین کافی عرصے سے ان کا اظہار کچھ مختلف الفاظ میں کرتے آئے ہیں کہ جب ہم بولنگ کرتے ہیں تو پچ بیٹنگ کے لیے سازگار بن جاتی ہے اور جب ہم بیٹنگ کرنے لگتے ہیں تو پچ اچانک سے بولنگ ٹریک بن جاتی ہے۔

اگرچہ افغانستان کے خلاف میچ سے قبل ٹیم کے ہر دل عزیز ڈائریکٹر مکی آرتھر نے کہا تھا کہ فیلڈنگ پر کافی محنت کی گئی ہے اور اس میچ میں شائقین ہمارے فیلڈرز کی انرجی کا نیا لیول دیکھیں گے۔ مگر جو شائقین کے مشاہدے کو ملا، وہ انرجی کی کمی کا کوئی نیا لیول تھا۔

بابر اعظم کہتے ہیں کہ فیلڈنگ ایک رویے کا نام ہے اور ٹیم فی الحال اس رویے سے خالی نظر آ رہی ہے۔

جو جو باتیں بابر اعظم نے اس تاریخی شکست کے بعد پریس کانفرنس میں کہیں، وہ کوئی انکشاف نہیں تھیں بلکہ کوئی بھی مبصر باریک بینی سے پاکستان کی کارکردگی جانچنے کے بعد بتا ہی سکتا تھا۔ بابر سے متوقع یہ تھا کہ وہ اس شکست کی وجوہات سے پردہ اٹھاتے۔

یہ تو ناظرین بھی جانتے ہیں کہ پاکستانی سپنرز اچھی بولنگ نہیں کر رہے اور دباؤ پیدا نہ کرنے کے سبب وکٹوں سے بھی محروم رہے ہیں۔ سو، بابر اعظم کی جانب سے یہ اعتراف بہرحال ایک خوشگوار حیرت تھا ورنہ کچھ روز پہلے تک تو وہ یہی کہہ رہے تھے کہ شاداب خان بولنگ بہت عمدہ کر رہے ہیں مگر وکٹوں کے معاملے میں شومئی قسمت کا شکار ہیں۔

بحیثیتِ مجموعی بابر کی وہ پریس کانفرنس اس لحاظ سے خوش کن تھی کہ بالآخر انھوں نے ان کوتاہیوں کا اعتراف کرنا شروع کر دیا ہے جنھیں اب تک وہ بدقسمتی کا لبادہ پہناتے چلے آ رہے تھے اور تواتر سے یہی امید بندھاتے آ رہے تھے کہ وننگ ٹریک پر چڑھنے سے وہ فقط ایک جیت کی دوری پر ہیں۔

Getty Images

مگر اب وہ ایک جیت پانے کو مہلت نہ ہونے کے برابر ہے۔ پاکستان کو سیمی فائنل تک رسائی کے لیے اپنے باقی ماندہ سبھی میچز نہ صرف جیتنا ضروری ہیں بلکہ نیٹ رن ریٹ میں بھی بہتری لانا اشد ضروری ہے۔ اور پھر یہ کہ ان باقی ماندہ مقابلوں میں محض ایک بنگلہ دیش کے سوا کوئی بھی حریف آسان نہیں ہے۔

اگرچہ ورلڈ کپ مقابلوں میں جنوبی افریقہ بارہا پاکستان کے ہاتھوں ڈھیر ہو چکی ہے اور گذشتہ چند آئی سی سی ایونٹس میں تو متواتر یہ ٹیم پاکستان کو زیر کرنے کی سعادت سے محروم رہی ہے۔ مگر چنئی میں جس جنوبی افریقہ کا سامنا بابر اعظم کو کرنا ہے، وہ حیرت انگیز فارم میں ہے۔

کوئنٹن ڈی کوک رنز کے انبار لگائے چلے جا رہے ہیں۔ مارکرم اور کلاسن مصدقہ میچ ونرز ہیں۔ ڈیوڈ ملر کسی بھی ممکنہ بحرانی صورتحال کا تدارک ہو سکتے ہیں اور پھر جنوبی افریقی پیس اٹیک انگلینڈ اور آسٹریلیا جیسے برج گرانے کے بعد اعتماد سے مالا مال ہے۔

اور ایسا بھی نہیں کہ سپن ڈیپارٹمنٹ سے ہی پاکستان کو کوئی سکھ کا سانس مل سکے۔ کیشو مہاراج بھی بھرپور ڈسپلن کے ساتھ جلوہ گر رہے ہیں اور چنئی میں غالبا تبریز شمسی بھی ان کے ہمرکاب ہو کر پاکستانی مڈل آرڈر کا امتحاں لینے کو موجود ہوں گے۔

پاکستان کے لیے امید کی کرن بہرحال یہ ہے کہ اپنی تمام تر رعنائیوں کے باوجود ٹیمبا باوومہ کی یہ ٹیم نیدرلینڈز کے ہاتھوں اپ سیٹ ہو ہی گئی تھی جہاں ڈچ بولنگ اور سکاٹ ایڈورڈز کی پُرمغز جارحیت نے انھیں لاجواب کر چھوڑا تھا۔

پاکستان کرکٹ کی بھی دیرینہ خوبی یہی رہی ہے کہ یہ کبھی بھی، کسی کو بھی حیران کر سکتی ہے۔ اور جس طرح کا بحران فی الوقت بابر کو درپیش ہے، اس سے زیادہ بہتر موقع بھی شاید میسر نہیں ہو سکتا تھا کہ پاکستان اٹھ کھڑا ہو اور اپنے بہترین کھیل کے اظہار سے سب خدشات کو رفع کر دے۔

مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More