Getty Images
ابھی زیادہ وقت نہیں گزرا جب وراٹ کوہلی نے یہ اعتراف کرنے میں کوئی ہچکچاہٹ نہیں دکھائی کہ حالیہ دور میں پاکستانی کپتان بابر اعظم شاید کرکٹ کے تینوں فارمیٹس میں بہترین بلے باز ہیں۔
کوہلی ایسے کھلاڑی نہیں ہیں جو محض کچھ کہنے کی خاطر اس طرح کے بیانات دیتے ہیں۔ خاص طور پر جب ہم ایک ایسے کھلاڑی کے بارے میں بات کر رہے ہیں جس کے ساتھ ان کا اکثر موازنہ کیا جاتا رہا ہے۔
ویسے تو کوہلی کوہلی ہیں لیکن بابر اعظم کئی اپنی حالیہ فارم کے باوجود آئی سی سی رینکنگ میں دنیا کے نمبر ون بلے باز ہیں۔ لیکن پاکستانی کرکٹ شائقین اور ماہرین کی دلیل یہ ہے کہ اگر کپتان ورلڈ کپ کے اہم میچوں میں بڑی اننگز کھیلنے میں ناکام رہے تو باقی دلائل بے معنی ہو جاتے ہیں۔
دراصل ٹیم انڈیا سے ہارنے کے بعد بابر کی کپتانی اور ان کی بلے بازی دونوں پر ہی سوال اٹھنے لگے۔
تنقید کی برسات
لیکن افغانستان کیخلاف شکست کے بعد بابر پر ہر طرف سے ہی حملے شروع ہو گئے۔
پاکستان کے سابق کپتان راشد لطیف نے بابر اعظم کا موازنہ کوہلی کے اس دور کپتانی سے کیا جب ان پر ڈریسنگ روم میں کسی کی بات نہ سننے کا الزام لگتا تھا تو سابق فاسٹ بولر عاقب جاوید نے کہا کہ بابر سے بہتر کپتان شاہین شاہ آفریدی ہو سکتے ہیں۔
ایسے میں سوشل میڈیا سمیت ٹی وی شو میں بھی کپتان کو بدلنے کی بحث عروج پر ہے حالانکہ ابھی کرکٹ ورلڈ کپ جاری ہے۔
Getty Images
برصغیر کے کرکٹ کلچر سے واقف لوگ بابر اعظم کیخلاف اس طرح کے شدید ردعمل سے حیران نہیں ہوں گے کیونکہ شکست کے وقت کپتان کو گرانا سب سے آسان ہوتا ہے۔
کسی کو پرواہ نہیں ہوتی کہ کپتان کے پاس کیسی ٹیم ہے۔ کرکٹ میں ایک پرانی کہاوت ہے کہ کوئی بھی کپتان اتنا ہی اچھا ہوتا ہے جتنے اس کی ٹیم میں شامل کھلاڑی ہوتے ہیں۔
جب ٹیم انڈیا نے ایسا ہی دور دیکھا
آج ہر کوئی انڈیا کی کرکٹ ٹیم کے کپتان روہت شرما کی بلے بازی اور کپتانی کی تعریف کر رہا ہے لیکن ٹھیک ایک سال پہلے ہر کوئی روہت اور سابق کپتان اور موجودہ کوچ راہول ڈریوڈ کے پیچھے پڑا ہوا تھا۔
آسٹریلیا میں ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ کے بعد یہ ناکامی کا وقت تھا۔ لیکن بہت کم لوگ اس حقیقت سے واقف تھے کہ جسپریت بمراہ اس ٹیم میں نہیں تھے، جن ک وجہ سے انڈیا کا باولنگ اٹیک کافی مضبوط ہو جاتا ہے اور کپتان کے ترکش میں تیروں کی تعداد بڑھ جاتی ہے۔
آج بمراہ، محمد شامی اور محمد سراج بھی شاندار کارکردگی کا مظاہرہ کر رہے ہیں، رویندرا جدیجا آل راؤنڈر کے طور پر کارکردگی دکھا رہے ہیں اور وراٹ کوہلی نے اپنی فارم دوبارہ حاصل کر لی ہے۔
اس لیے اگر ہاردک پانڈیا کے زخمی ہونے کے بعد ان کی غیر موجودگی کو اس طرح محسوس نہیں کیا جا رہا ہے۔ اگر سوریہ کمار یادو، شبمن گل، شریاس آئیر، شاردول ٹھاکر اور ایشون نے بہت عمدہ کارکردگی نہیں دکھائی تب بھی ٹیم پریشان نہیں ہے۔
Getty Imagesبابر کو کیسی ٹیم ملی؟
بابر اعظم کی ٹیم کو دیکھیں تو اگر ہم آسٹریلیا کے خلاف اننگز میں شاہین شاہ آفریدی کی پانچ وکٹوں کو چھوڑ دیں تو وہ انڈیا اور یہاں تک کہ افغانستان کے خلاف بھی بہت متاثر کن کارکردگی نہیں دکھا پائے۔
محمد رضوان اور عبداللہ شفیق کو چھوڑ کر کسی دوسرے بلے باز نے اتنے رنز نہیں بنائے کہ اسے پلیئنگ الیون میں شمولیت کے لیے مضبوط امیدوار سمجھا جائے۔
لیکن، بابر کو اس شعبے میں زیادہ بڑے مسائل کا سامنا ہے جو پاکستانی کرکٹ کی سب سے بڑی طاقت رہی ہے۔ پاکستانی باؤلنگ اٹیک کی کارکردگی دیکھ کر سابق کپتان اور تیز گیند باز وسیم اکرم اور وقار یونس بھی مایوس نظر آئے ہیں۔
آفریدی نے اب تک 10 وکٹیں تو حاصل کی ہیں، لیکن ان کا اکانومی ریٹ تقریباً چھ رنز فی اوور ہے۔ ادھر انڈیا کی جانب سے جسپریت بمراہ نے 12 وکٹیں حاصل کی ہیں لیکن ان کا اکانومی ریٹ چار سے بھی کم ہے۔
Getty Images
حسن علی اور حارث رؤف کے پاس بھی آٹھ، آٹھ وکٹیں ہیں، لیکن ان کا اکانومی ریٹ بھی اچھا نہیں ہے۔
سپنر کے نام پر پاکستان کے پاس شاداب خان اور محمد نواز جیسے کھلاڑی ہیں جنھوں نے اب تک صرف دو وکٹیں حاصل کی ہیں۔ ان کا اکانومی ریٹ بھی بہت مہنگا ہے۔
افتخار احمد اور اسامہ میر کو زیر بحث لانا بھی مناسب نہیں۔ ایسے میں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا ایسی ٹیم اور کارکردگی کے ہوتے ہوئے پاکستان کی ٹیم سیمی فائنل تک پہنچ سکتی ہے؟
اور اسی لیے سابق کپتان اور بیٹنگ کوچ محمد یوسف نے بابر کا دفاع کیا ہے۔ ان کا ماننا ہے کہ ایسی شکستوں کے لیے اکیلے بابر کو مورد الزام ٹھہرانا درست نہیں ہے۔ یوسف کا کہنا ہے کہ پاکستان صرف بابر کی وجہ سے نہیں ہارا اور ایسی صورتحال میں وہ ان کے ساتھ کھڑے ہیں۔
اس کا مطلب یہ نہیں کہ بابر کے کھیل میں کوئی خامیاں نہیں ہیں یا ان کی کپتانی میں کوئی مسئلہ نہیں ہے۔ لیکن پاکستان کرکٹ کو یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ پچھلے پانچ سالوں میں ان کے پاس صرف بابر ہی ہے جو دنیا کے سامنے ایک ورلڈ کلاس بلے باز کے طور پر پیش کیا جا سکتا ہے۔
اسی سال، بابر ون ڈے کرکٹ کی تاریخ میں تیز ترین 5000 رنز بنانے والے بلے باز بنے، اور انھوں نے ہاشم آملہ اور ویو رچرڈز جیسے عظیم بلے بازوں کو پیچھے چھوڑ دیا۔
Getty Images
کوہلی اور روہت شرما جیسے کھلاڑی بھی حالیہ برسوں میں ان کی نمبر ون رینکنگ کو چیلنج کرنے میں ناکام رہے ہیں۔ چند ماہ قبل تک بابر ٹی ٹوئنٹی میں ٹاپ 5 اور ٹیسٹ میں بھی ٹاپ 5 میں تھے۔
انضمام الحق کی ریٹائرمنٹ کے بعد بابر واحد پاکستانی بلے باز ہیں جنھوں نے اپنے بلے کے بل بوتے پر دنیا میں شہرت حاصل کی۔ لیکن افسوس کی بات ہے کہ پاکستان کرکٹ انھیں وہ عزت نہیں دے رہی جس کے وہ حقدار ہیں۔
شاید ورلڈ کپ کے بقیہ میچوں میں پاکستان کی معجزانہ فتح ان کے داغدار امیج کو بچانے میں مددگار ثابت ہو سکے۔