’کرکٹ کہیں ایک قبیلے کا کھیل نہ بن جائے‘: سمیع چوہدری کا کالم

بی بی سی اردو  |  Oct 25, 2023

Getty Images

لیجنڈری روسی ادیب لیو ٹالسٹائی نے کہا تھا کہ خواہشات پیدا کرنے کی خواہش کا نام بوریت ہے۔ حالیہ ورلڈ کپ فی الوقت ٹالسٹائی کے اس جملے کی عملی تصویر نظر آ رہا ہے۔

ایسے عالمی مقابلوں میں چاشنی صرف غیر متوقع نتائج اور سنسنی خیز اختتامی لمحات سے پیدا ہوا کرتی ہے۔ گو تین ہفتوں میں تین اپ سیٹ تو ہو ہی گئے مگر سنسنی وہ جنسِ نایاب ہے کہ فی الحال یہ ورلڈ کپ پیدا کرنے سے معذور نظر آتا ہے۔

ٹورنامنٹ کے تین ہفتے مکمل ہو چکے ہیں اور تین اپ سیٹ میچز کے سوا باقی تمام نتائج نہ صرف حسبِ توقع بلکہ خاصی حد تک یکطرفہ بھی رہے ہیں۔ یہ نتائج جنریشن زی کے اس دعوے کو مزید تقویت دینے کا باعث ہیں کہ ٹی ٹوئنٹی کے ساون میں ون ڈے کرکٹ خزاں کی سی بوریت کے سوا کچھ نہیں۔

چار سال قبل انگلینڈ میں کھیلے گئے ون ڈے ورلڈ کپ میں گیند اور بلے کے مابین توازن کا معیار خاصا بہتر تھا اور ابتدائی مراحل میں ویسٹ انڈیز کے ہاتھوں پاکستان اور سری لنکا کے ہاتھوں انگلینڈ کی شکست نے آخر تک پوائنٹس ٹیبل میں ارتعاش پیدا کیے رکھا تھا۔

مگر انڈین پچز میں گیند اور بلے کے درمیان توازن بھی ویسا نہیں ہے اور چار برس گزرنے کے بعد ٹیموں کے مسابقتی معیار میں تفاوت بھی اس قدر بڑھ چکا ہے کہ تین اپ سیٹ نتائج ملنے کے باوجود ابھی تک کوئی ایک میچ سنسنی خیز کہلانے کے قابل نہیں رہا۔

کوئی ایک مقابلہ بھی ایسا نہیں ہو پایا جو آخری گیند تک توازن سے چل پایا ہو اور یہ سوال اب بلا جواز نہیں کہ چار برس بعد، کیا شائقین اس فارمیٹ کے ایک اور ورلڈ کپ کے متحمل ہو سکیں گے؟

جزوی طور پہ اس بوریت کو ٹی ٹوئنٹی کرکٹ کی افراط سے بھی منسوب کیا جا سکتا ہے کہ اکثر کھلاڑیوں کے ٹیمپرامنٹ ایک روزہ کھیل کی مشقت جھیلنے سے قاصر نظر آتے ہیں اور 50 اوورز تک اپنی توانائیاں جواں رکھنے کے قابل نہیں۔

اور پھر کسی حد تک ان یکطرفہ مقابلوں کو ورلڈ کرکٹ کی مارکیٹ اکانومی سے بھی مشروط کہا جا سکتا ہے۔

Getty Images

انگلینڈ اگرچہ انجریز، سلیکشن کی ہول سیل تبدیلیوں اور جاس بٹلر کی متوسط قائدانہ صلاحیتوں کے سبب ابھی تک اپنے ٹائٹل کے دفاع سے قاصر دکھائی دے رہا ہے مگر انڈیا، آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ کے نتائج یہ واضح بتا رہے ہیں کہ کھیل کے میدان میں بھی سبقت انہی ٹیموں کی ہے جن کے بورڈز کی جیبیں بھری ہوئی ہیں۔

آئی سی سی کا مالیاتی تقسیم کار ماڈل چونکہ ٹی وی ریٹنگز اور ریونیو کو مدِ نظر رکھ کر اپنی ترجیحات وضع کرتا ہے، سو ہر گزرتے ون ڈے ورلڈ کپ کے ساتھ سری لنکا، پاکستان اور بنگلہ دیش جیسی ٹیموں کی کارکردگی میں گراوٹ آتی جا رہی ہے جبکہ انڈیا، انگلینڈ اور آسٹریلیا کے نتائج سال بہ سال بہتر سے بہترین ہوئے چلے جاتے ہیں۔

معیارات میں تفاوت اس قدر بڑھ چکا ہے کہ باقی ماندہ دو درجن مقابلوں کی پیش گوئی کرنے کو زیادہ دماغ لڑانے کی ضرورت نہ پڑے گی۔ شیڈول پر انگلی رکھ کر ابھی سے یہ بتایا جا سکتا ہے کہ کون سا میچ کس کے نام ہو گا اور کتنے مارجن سے ہو سکے گا۔

جنوبی افریقہ واحد ایسی ٹیم ابھری ہے جو مالیاتی اعتبار سے بگ تھری کے ہم پلہ نہیں ہے اور پنڈتوں کی پیش گوئیوں میں بھی سیمی فائنل کی دوڑ کے قریب نہیں تھی مگر تباہ کن بیٹنگ اور ناقابلِ تسخیر بولنگ اٹیک کے طفیل حتمی چار کی دوڑ میں نئی فیورٹ بن چکی ہے۔

مگر اس کے علاوہ اب تک کے سبھی نتائج یہ واضح کر رہے ہیں کہ کھیل کے فروغ بارے آئی سی سی کے تمام تر دعوؤں کے باوجود کرکٹ اب ایک قبیلے کا کھیل بنتا جا رہا ہے اور یہی رجحان جاری رہا تو یہ قبیلہ بھی آہستہ آہستہ مزید سکڑ کر صرف دو تین ٹیموں تک محدود ہو جانے کا خدشہ ہے۔

مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More