Getty Images
حیراں ہوں دل کو روؤں کہ پیٹوں جگر کو میں
مقدور ہو تو ساتھ رکھوں نوحہ گر کو میں (غالب)
لگتا نہیں کہ یہ کوئی کرکٹ کا میدان ہے۔ یہ شاید کسی تھیٹر کا منظر ہے۔ بابر اعظم چِلا رہے ہیں۔ رضوان مڈ آف سے الجھ رہے ہیں۔ شاداب کے ہاتھ سر پہ ہیں اور وہ ایکسٹرا کور باؤنڈری کو منھ کیے، جھنجلا رہے ہیں۔
جوں جوں میچ اپنے انجام کی طرف بڑھا، پاکستان کا غصہ غم میں بدلنے لگا، جوش حسرتِ ناکام میں ڈھلتا گیا اور دھیرے دھیرے، جھنجلاہٹ نے بھی مایوسی کی چادر اوڑھ لی۔ بابر اعظم کی نگاہیں جھکتی چلی گئیں اور محمد رضوان کا چہرہ بار بار سیاہ دستانوں کی اوٹ میں چھپنے لگا۔
افغان بیٹنگ پاکستانی فیلڈرز پہ وحشت ڈھا رہی تھی اور میچ کے اختتامی لمحات کی جانب جب مڈ آف پہ کھڑے کپتان بابر اعظم کیمرے کے کلوز شاٹ کی زینت بنے تو ان کی آنکھیں کسی کرب آلود نمی سے گویا چھلکنے کو تھیں۔
کامیاب کپتان دو طرح کے ہوتے ہیں۔ پہلے وہ جنھیں قسمت کی یاوری سے بولنگ اٹیک ہی ایسا نصیب ہو جائے کہ کبھی ذہن پہ زور ڈالنے کی ضرورت نہ پڑے۔ دوسری وہ قسم ہوتی ہے کہ بولرز کتنے ہی بے سروسامان کیوں نہ ہو جائیں، ان کے دماغ چھوٹے چھوٹے لمحات کو یوں مضبوطی سے تھام لیتے ہیں کہ پھر میچ پھسل نہیں پاتا۔
بابر اعظم کو جب تک پہلی قسم کا سکون دستیاب رہے، ان کی ٹیم کا عزم بھی جواں رہتا ہے اور فتوحات بھی نصیب ہوتی رہتی ہیں۔ مگر جونہی معاملہ ذرا سی کروٹ لے، وہ جھنجلانے، چِلانے اور مایوسی میں سر نیہوڑانے کے سوا کچھ بھی کرنے پہ قادر نظر نہیں آتے۔
چنئی کی یہ پچ سپن کے لیے سازگار تھی اور افغانستان نے چار سپنرز منتخب کر کے اپنے امکانات کو بھرپور تقویت دی۔ مگر پاکستان کی خوش بختی تھی کہ یہاں ٹاس جیت گیا اور پہلے بیٹنگ کا فیصلہ بھی کر بیٹھا۔
Getty Images
لیکن کرکٹ کی مجموعی دانش سے کچھ نہ سیکھنے کے باوجود اگر صرف اپنی بیٹنگ اننگز پہ ہی نظر دوڑا لی جاتی تو یہ سبق اخذ کرنے کو کسی سقراط کا دماغ درکار نہ تھا کہ یہاں پیسرز کے لیے زندگی دشوار تھی تاآنکہ گیند پرانی ہو جائے اور ریورس سوئنگ کی کچھ جھلک نظر آنے لگے۔
مگر بابر اعظم نے جہاں اپنی بیٹنگ سے پاکستانی اننگز کی نبض بحال کی، وہیں اپنی قائدانہ صلاحیتوں سے ایک اچھے قابلِ دفاع مجموعے کو افغان بلے بازوں کی جھولی میں ڈال دیا۔
محمد نواز کی عدم دستیابی بلاشبہ بابر کے اختیار میں نہ تھی۔ مگر نجانے یہ حقیقت کیسے ہر بار ان کی نظر سے اوجھل رہ جاتی ہے کہ پاکستانی سپنرز کی اس پریشان مہم جوئی میں افتخار احمد ان کا وہ واحد ہتھیار ہیں جو اب تک ہمہ قسمی بلے بازوں کے لئے دقت پیدا کرتے رہے ہیں۔
سو، اگر شماریاتی اعتبار سے پاور پلے میں لیگ سپن سے احتراز برتنا ناگزیر تھا اور پیسرز بھی اپنی لائن پہ گرفت نہیں رکھ پا رہے تھے تو کیا امر مانع تھا کہ ایک کنارے سے گیند افتخار احمد کو تھما دی جاتی اور افغان اوپنرز کی جارحیت کے لئے آف سپن کا دامِ تزویر بچھا دیا جاتا۔
مگر نہ تو بابر اعظم محدود سوچ کے حصار سے باہر کچھ سُجھا پائے، نہ ہی پیسرز اپنی لائن میں کوئی ڈسپلن نبھا پائے اور نہ ہی پاکستانی فیلڈرز اپنی کاوش میں کوئی بہتری لا پائے۔ اور جب ایک کنارے سے شاہین کا سپیل مختصر کیا بھی گیا تو سپن کو موقع دینے کی بجائے بابر نے گیند حارث رؤف کو تھما دی۔
پھر اننگز کے بیچ وہ مرحلہ بھی آیا کہ جب گیند کی دمک ماند پڑ گئی اور حسن علی کے دوسرے سپیل میں واضح طور پہ ریورس سوئنگ کی جھلک بھی نظر آئی۔ تب بھی کافی میچ باقی تھا اور اگر بابر اعظم دانش مندی سے کام لیتے تو بھی انہونی کو ٹال سکتے تھے۔
وہاں نہ صرف شاہین کا کوٹہ باقی تھا بلکہ حارث رؤف کے اوورز بھی میسر تھے جن کی شہرت ہی ڈیتھ اوورز بولنگ ہے۔ مگر یہاں پھر بابر اعظم نے روایت سے ہٹ کر سوچنے کی بجائے گیند شاداب اور اسامہ میر کے سپرد کر دی۔
اس میں دو رائے نہیں کہ موجودہ افغان ٹیم اپنی تاریخ کی بہترین ٹیم ہے اور مسابقتی کرکٹ کھیل کر کسی بھی حریف کو شکست دے سکتی ہے۔ مگر یہاں اس پیس اٹیک اور سکور بورڈ پہ جڑے ایسے مجموعے کے ساتھ ہدف کے تعاقب میں جیت کا سوچنا کسی بھی بیٹنگ یونٹ کے لئے دشوار تھا۔
وہ تو بھلا ہو کہ افغان کرکٹ کو یہاں بابر اعظم جیسا حریف کپتان میسر آ گیا جس نے یہ یقینی بنایا کہ تعاقب کے کسی بھی مرحلے پہ افغان بلے بازوں کو کہیں کوئی دقت نہ پیش آ جائے۔
افغان پاکستان کرکٹ رقابت آج تک ایک بے جوڑ اور منطق سے ماورا شے تھی مگر یہاں حشمت اللہ کی ٹیم مبارک باد کی مستحق ہے کہ انہوں نے بہترین کرکٹ کھیل کر اس رقابت کو معنویت بخش دی۔
اور پھر یہ لگی بندھی، مدافعانہ کپتانی بھی تو ایسی ہی شکست کی حق دار تھی۔