Getty Images
طویل عرصے بعد ایک ورلڈ کپ ان کنڈیشنز میں منعقد ہو رہا تھا جو پاکستان کے لیے نامانوس نہیں تھیں۔ سو، ٹورنامنٹ کے آغاز سے پہلے پاکستانی شائقین کی توقعات بجا طور پہ بہت بلند تھیں۔
جہاں پہلی دو آسان فتوحات کے بعد ان توقعات کو تقویت ملی تو اگلے ہی دو میچز میں بھاری شکست نے ان پہ کاری ضرب لگا دی ہے۔
اب اگرچہ سیمی فائنل کی دوڑ میں پاکستانی امیدیں مدھم پڑ رہی ہیں مگر پوائنٹس ٹیبل جس ہلچل کا شکار ہے، یہ یقینی ہے کہ لو ابھی تک بجھی بھی نہیں ہے۔ اور اس تناظر میں افغانستان کے خلاف معرکہ انتہائی اہمیت کا حامل ہو چکا ہے۔
دوسری جانب افغانستان نے انگلینڈ کو مات کرنے کے بعد تمناؤں کا جو معیار اپنے لیے طے کر چھوڑا تھا، کیویز کے خلاف وہ پورا ہونے سے کوسوں دور رہ گیا۔ اس کا سبب افغان بیٹنگ سے کہیں زیادہ ناقص فیلڈنگ اور ٹاس کے مرحلے پہ فیصلہ سازی کا خلجان تھا۔
کرکٹ کے میدان میں پاکستان کو زیر کرنا افغانستان کا دیرینہ خواب رہا ہے۔ اگرچہ حال ہی میں پاکستان نے ٹی ٹونٹی کے لیے شاداب خان کی قیادت میں ایک سیکنڈ الیون شارجہ بھیج کر دوطرفہ سیریز میں یہ افغان خواب پورا بھی کر دیا مگر ون ڈے کرکٹ میں پاکستان کو شکست دینا آج بھی افغانستان کا خواب ہی ہے۔
پچھلے ون ڈے ورلڈ کپ میں دونوں ٹیموں کے میچ سے پہلے افغان کپتان گلبدین نائب نے کہا تھا کہ ہم تو ڈوبے ہیں صنم، تم کو بھی لے ڈوبیں گے۔ مگر سخت مقابلے کے بعد بھی گلبدین سرفراز کی ٹیم کو لے ڈوبنے سے قاصر رہے تھے۔
اب یہاں بابر اعظم کی ٹیم ہے کہ جس کے کلیدی پیسر شاہین آفریدی تو آسٹریلیا کے خلاف خوب فارم میں لوٹے مگر باقی ساری بولنگ پہلے دونوں پاور پلے میں بھٹکتی ہی رہ گئی اور آسٹریلوی بلے باز بازی چرا لے گئے۔
پاکستان کے لیے مگر اس شکست میں بھی مثبت پہلو کافی رہے۔
Getty Images
ابتدائی تین میچز کی پے در پے ناکامیوں کے بعد امام الحق بھی فارم میں واپس آئے اور آسٹریلیا کے خلاف ایک اچھی اننگز کھیلی۔ مگر انھیں یہ بھی غور کرنا ہو گا کہ ان کی اس اننگز کا ٹیم کو فائدہ تبھی ہو سکتا تھا اگر وہ ففٹی سینچری میں بدل پاتی اور سٹرائیک ریٹ بھی ٹیم کی ضروریات کے مطابق ڈھل پاتا۔
ایک اور مثبت پہلو محمد رضوان کی مستقل مزاجی ہے جو اکیلے ہی نہ صرف مڈل آرڈر کا بوجھ ڈھوتے آ رہے ہیں بلکہ ٹاپ آرڈر کی عدم جارحیت کی بھی تلافی کرنے میں کوشاں رہتے ہیں۔ لیکن ان کے تسلسل سے فائدہ اٹھانے کے لیے ٹاپ آرڈر کو بھی فوری اپنے سٹرائیک ریٹ پہ نظرِثانی کی ضرورت ہے۔
اب اگر پاکستان کو باقی ماندہ مہم جوئی سے اپنے شائقین کی امیدیں جواں رکھنا ہیں تو سب سے اہم پہلو بابر اعظم کی اپنی فارم ہے جو اس ورلڈ کپ میں کہیں بھی مکمل روانی میں دکھائی نہیں دیے۔ انڈیا کے خلاف اکلوتی ففٹی میں بھی ان کی اننگز تفکرات سے لیس تھی اور کسی بھی مرحلے پہ وہ بولرز کو دباؤ میں نہیں لا پائے۔
اگر یہاں بابر اعظم اپنی نمبرون انٹرنیشنل رینکنگ سے انصاف کر پائے تو پاکستان کے امکانات کا پلڑا بھاری ہو سکتا ہے۔ بلاشبہ افغان بولنگ پاکستان کے لیے امتحان بن سکتی ہے کہ چنائی کی پچ عموماً سپنرز کے لیے سازگار رہا کرتی ہے اور افغانستان کا سپن ڈیپارٹمنٹ یقیناً اس ایونٹ کے تمام شرکا میں سے بہترین ہے۔
قیادت کے محاذ پہ بھی بابر اعظم کو اپنا کھیل بہت بہتر کرنے کی ضرورت ہے۔ نہ صرف یہ سمجھنا اہم ہے کہ ٹاس جیت کر پہلے بیٹنگ کیوں ضروری ہے بلکہ یہ بھی ذہن نشین کرنا ہو گا کہ تاحال اس ورلڈ کپ میں دوسری اننگز کی اوس ایک واہمے کے سوا کچھ ثابت نہیں ہوئی۔ اور پریشر میچز میں ہمیشہ سکور بورڈ پہ جڑا مجموعہ ہی مفید ثابت ہوا کرتا ہے۔
جو لگی بندھی کپتانی تاحال بابر اعظم کرتے چلے آ رہے ہیں، اس سے نمایاں ہو رہا ہے کہ وہ سب کچھ ڈریسنگ روم سے ہی طے کر کے نکلتے ہیں اور زمینی حقائق لاکھ بدلتے رہیں، وہ اپنے پلان اے سے ذرا سا بھی انحراف نہیں کرتے۔
لمبے ایونٹس میں جیت کی مسافت بہت طویل ہوتی ہے۔ اور یہ مسافت طے کرنے کو نہ صرف عمدہ بیٹنگ اور بولنگ درکار ہوتی ہے بلکہ ناقابلِ تسخیر قیادت بھی ناگزیر ہوا کرتی ہے۔
پاکستان کے لیے ضروری ہے کہ نہ صرف بلے باز بابر اعظم اپنی شہرت سے انصاف کریں بلکہ کپتان بابر اعظم بھی حریف بلے بازوں کے ذہن سے کھیلنا سیکھ پائیں۔