ایسے تمام اسرائیلی شہری جو فوجی کارروائیوں میں یا حکومت کی جانب سے قرار دیے گئے دہشت گردی کے حملوں میں مرتے ہیں، ان کی موت کی سرکاری اطلاع دینے ایک فوجی افسر ان کے گھر خود آتا ہے۔
حماس کے حملوں سے اسرائیل میں 1,400 سے زیادہ لوگ مارے گئے ہیں جس سے ان خدمات کا دائرہ کار پہلے سے کئی زیادہ وسیع ہو گیا ہے۔
نتیجتاً اسرائیل ڈیفنس فورسز (آئی ڈی ایم) کے وہ افسران جو عام طور پر متاثرین کے اہل خانہ کے ساتھ کام نہیں کرتے ہیں، ان کو بھی سرکاری اطلاع کے کام کی انجام دہی کے لیے بلایا گیا ہے۔
انھی افسران میں سے ایک برازیل سے تعلق رکھنے والے رافیل ہیں جو عہدے کے لحاظ سے آرمی میجر ہیں۔
گذشتہ جمعے (13 اکتوبر) سے وہ کسی عزیز کی موت کی اطلاع دینے کے لیے روزانہ اوسطاً تین خاندانوں کے پاس جاتے ہیں۔
BBC’مشن کے لیے تربیت یافتہ افسران کم‘
اسی حوالے سے رافیل نے بی بی سی کو بتایا کہ ’جب میں ان خاندانوں کے دروازے پر دستک دیتا ہوں تو مجھے اپنا آپ موت کے فرشتے کی طرح محسوس ہوتا ہے۔‘ تاہم رافیل اپنے کام کی اہمیت سے بخوبی واقف ہیں۔
’لیکن میں جانتا ہوں کہ یہ کام بہت اہم ہے، کیونکہ یہ لواحقین کو اس بات کا یقین کرنے کا موقع فراہم کرتا ہے کہ ان کے پیاروں کے ساتھ کیا ہوا تھا اور وہ انھیں دفنانے کے لیے تیار ہو جائیں۔‘
یہ پہلا موقع ہے جب رافیل نے موت کا پیغام پہنچانے کا کردار ادا کیا ہے۔ کئی برسوں سے اسرائیلی فوج سے وابستہ رافیل عام طور پر فوج کے ساتھ قانونی امور کی انجام دہی کرتے ہیں۔
’فوج میں ایسے لوگ ہیں جو باقاعدگی سے یہ فرائض ادا کرتے ہیں، لیکن چونکہ ہلاکتوں کی تعداد بڑے پیمانے پر پہنچ گئی ہے تو اس قسم کے مشن کے لیے تربیت یافتہ افسران کی تعداد کافی نہیں تھی۔‘
’ہمارے لیے سونا اور کھانا پینا مشکل ہے‘
رافیل نے بتایا کہ انھوں نے یہ ذمہ داری شروع کرنے سے پہلے چار گھنٹے کی تربیت حاصل کی۔
’ہماری تربیت کے دوران انھوں نے خبردار کیا کہ ابتدائی چند دن ہمیں ہلا کر رکھ دیں گے جس کے باعث ہم بھوک اور نیند کی کمی کا سامنا کر سکتے ہیں۔ یہ واقعی ہو رہا ہے، ہمارے لیے سونا اور کھانا پینا مشکل ہے۔‘
’لیکن یقیناً میں کھانا کھاتا رہتا ہوں اور سونے کی کوشش بھی کرتا ہوں کیونکہ میں جانتا ہوں کہ اگر میں ایسا نہیںکروں گا تو بہت سے خاندان ایسے ہوں گے جو اپنے رشتہ داروں کے بارے میں وقت پر معلومات حاصل نہیں کریں گے۔‘
رافیل کا کہنا ہے کہ ان پر سب سے زیادہ اثر ان خاندانوں سے مل کے ہوا جن کے بچے چھوٹے اور نوعمر تھے۔
رافیل کو اس ڈیوٹی کے دوران ایک 17 سالہ لڑکی کی موت کی خبر ان کے والد تک پہنچانی تھی۔
یہ لڑکی اپنے بوائے فرینڈ کے ساتھ غزہ کی پٹی کے قریب ساحلی علاقے میں گئی تھی جب اس جوڑے پر حماس نے حملہ کیا۔
’جب ہم نے باپ کو ان کی بیٹی کے مرنے کی خبر پہنچائی تو انھوں نے کہا کہ ایک دن پہلے ٹی وی پر اپنی بیٹی کی تصویر یرغمالیوں کی فہرست میں دیکھی تھی۔‘
رافیل نے کہا کہ انھیں لگا کہ کوئی بچے کے اغوا ہونے سے یہ امید تو رکھ سکتا ہے کہ ’بچہ ابھی تک کم از کمزندہ ہے۔‘
’لاشوں کی شناخت ایک مشکل مرحلہ ہے‘
ایک اور سفر پر انھوں نے ایک 30 سالہ خاتون کے والدین سے ملاقات کی جسے اپنے ہی گھر میں قتل کر دیا گیا تھا اور اب اس خاتون کا شوہر لاپتہ ہے۔
’وہ اپنے پیچھے 10 ماہ کے دو جڑواں بچے چھوڑ گئے ہیں جو صرف اس لیے بچ گئے کیونکہ ان کے والدین انھیں دہشتگردوں کے پہنچنے سے پہلے بنکر کے اندر لے جانے اور کمرے کو بند کرنے میں کامیاب ہو گئے تھے۔‘
رافیل کے مطابق ’یہ بہت مشکل تھا۔ میں مرنے والوں کے لواحقین کے بارے میں سوچنا ترک نہیں کر سکتا۔ وہ ایسے والدین ہیں جو اپنے بچوں کو دوبارہ کبھی نہیں دیکھیں گے۔ وہ ایسے بچے ہیں جو اپنے والدین کے بغیر زندگی گزاریں گے۔¬
رافیل کے مطابق سات اکتوبر کے حملے کے متاثرین کے خاندانوں میں سے بہت سے لوگوں کو اپنے پیارے کی خبر ملنے سے پہلے کئی دن انتظار کرنا پڑے گا۔
’لاشوں کی شناخت ایک مشکل مرحلہ ہے کیونکہ ان میں سے کچھ مکمل طور پر ناقابل شناخت ہیں۔ نتیجتاً، موت کی تصدیق ہونے میں وقت لگتا ہے۔‘
رافیل کے مطابق ’600 سے زیادہ لوگ لاپتہ ہیں اور ان میں سے ایک بڑی تعداد بدقسمتی سے مر چکی ہے، لیکن لاشوں کی شناخت ابھی تک ممکن نہیں ہو سکی ہے۔‘
Getty Images
سات اکتوبر کی ’دراندازی‘ کو سرحد پار سے ہونے والا سب سے سنگین حملہ سمجھا جاتا ہے۔
حماس نے غزہ کو اسرائیل سے الگ کرنے والی باڑ کو مختلف مقامات پر توڑا اور دیہاتوں پر حملہ کیا۔ اس نے کم از کم 1400 افراد کو جان سے مار دیا۔ ایک اندازے کے مطابق تقریباً 200 افراد کو یرغمال بھی بنایا گیا ہے۔
عسکریت پسندوں نے غزہ کی پٹی سے تل ابیب اور یروشلم کی جانب سے ہزاروں راکٹ داغے۔ 20 اکتوبر تک اسرائیل کی جوابی بمباری سے غزہ میں مرنے والوں کی تعداد 3,700 سے بڑھ گئی ہے۔ فلسطینی حکام کا کہنا ہے کہ بمباری سے تباہ عمارتوں کے ملبے میں ایک ہزار کے قریب افراد لاپتہ ہیں۔
گذشتہ ہفتے کے آخر میں ملک کی مسلح افواج نے بھی اعلان کیا تھا کہ وہ غزہ کے خلاف زمینی، سمندری اور فضائی حملوں کی تیاری کر رہے ہیں۔
اسرائیل نے غزہ کے شمال میں رہنے والے 11 لاکھ فلسطینیوں سے کہا ہے کہ وہ متوقع حملے سے بچنے کے لیے جنوب کی طرف نقل مکانی کر جائیں۔
فلسطینی سرزمین میں انسانی بحران تیزی سے شدت اختیار کرتا جا رہا ہے اور لبنان اور ایرانسمیت خطے کے دیگر ممالک کے ساتھ علاقائی کشیدگی میں اضافے کا خدشہ بھی سر اٹھا رہا ہے.