Getty Images
گذشتہ کئی دنوں سے اسرائیل کی جانب سے عندیہ دیا جا رہا ہے کہ غزہ میں حماس کی عسکری وقت کے حتمی خاتمے کے لیے زمینی حملے کی تیاری کی جا چکی ہے جس کے لیے تین لاکھ ریزرو فوجی طلب کیے گئے اور غزہ کی پٹی کی دوسری جانب ٹینک، توپ خانہ اور ہزاروں مسلح فوجی اکھٹے ہیں۔
اسرائیلی فضائیہ اور بحریہ حماس اور فلسطین اسلامی جہاد کے ہر ممکنہ ٹھکانے اور اسلحہ خانے پر بھاری بمباری کر رہی ہیں جس کے دوران حماس کے کمانڈرز سمیت بڑی تعداد میں عام شہری بھی ہلاک اور زخمی ہوئے ہیں۔
منگل کے دن غزہ کے ایک ہسپتال میں ہونے والا دھماکہ، جس پر دونوں اطراف ایک دوسرے کو مورد الزام ٹھہرا رہی ہیں، خطے میں موجود تناؤ کو مزید بھڑکا چکا ہے۔
تو ایسے میں سوال ہو رہا ہے کہ اعلان کے باوجود اسرائیل غزہ پر زمینی حملے کا آغاز کیوں نہیں کر رہا؟ یہاں کئی عوامل کارفرما ہیں۔
امریکی صدر
امریکی صدر جو بائیڈن کا بدھ کی صبح اچانک اسرائیل کا دورہ اس بات کا عندیہ تھا کہ امریکہ بگڑتی ہوئی صورتحال سے کس قدر پریشان ہے۔ امریکہ کے دو تحفظات ہیں: پہلا انسانی جانوں کا بحران اور دوسرا اس تنازع کا مشرق وسطیٰ میں پھیلاؤ کا امکان۔
امریکی صدر نے واضح کیا ہے کہ وہ 2005 میں انخلا کے بعد دوبارہ غزہ پر اسرائیلی قبضے کی حمایت نہیں کرتے۔ ان کے مطابق ’یہ ایک بڑی غلطی ہو گی۔‘
سرکاری طور پر بائیڈن نے مشرق وسطیٰ میں امریکہ کے سب سے قریبی اتحادی کی حمایت کا اظہار کرنے کے لیے اسرائیل کا دورہ کیا جہاں وہ غزہ سے متعلق اسرائیلی منصوبے کے بارے میں بھی جاننا چاہتے ہیں۔
تاہم غیر سرکاری ذرائع کے مطابق امریکی صدر اسرائیلی حکومت کو ضبط کی تاکید کریں گے اور امریکہ یہ جاننا چاہے گا کہ اگر اسرائیل غزہ میں داخل ہوتا ہے تو یہ وہاں سے باہر نکلنے کا ارادہ رکھتا بھی ہے یا نہیں۔
Reuters
اسرائیل میں امریکی صدر کی موجودگی کے دوران غزہ پر زمینی حملہ دونوں ممالک کے لیے ہی اچھا تاثر نہیں دے گا۔
وہ بھی ایک ایسے وقت میں جب الاہلی ہسپتال میں دھماکے کے بعد جو بائیڈن نے عوامی سطح پر اسرائیل کے موقف کی حمایت کی ہے جس کے مطابق یہ دھماکہ فلسطین اسلامی جہاد کے راکٹ سے ہوا۔ فلسطینی حکام کا کہنا ہے کہ اسرائیلی فضائی نے ہسپتال کو نشانہ بنایا جس میں سینکڑوں کی تعداد میں ہلاکتیں ہوئیں۔
ایران
گذشتہ چند دنوں میں ایران نے سخت تنبیہ کی ہے کہ اسرائیل کی جانب سے غزہ پر حملے کا جواب دیا جائے گا۔ لیکن اس دھمکی کا مطلب کیا ہے؟
ایران مشرق وسطیٰ میں متعدد عسکری تنظیموں کو پیسے، اسلحہ اور تربیت فراہم کرتا ہے۔ ان میں سے سب سے طاقتور تنظیم لبنان میں موجود حزب اللہ ہے جو اسرائیل کے شمال میں واقع ہے۔
دونوں ممالک کے درمیان 2006 میں ہونے والی جنگ بے نتیجہ رہی تھی جس کے دوران اسرائیل کے جدید ٹینکوں کو ایک منظم منصوبہ بندی کے تحت تباہ کیا گیا تھا۔ اس وقت سے حزب اللہ نے ایران کی مدد سے تقریبا ڈیڑھ لاکھ راکٹ اور میزائل جمع کیے ہیں جن میں سے متعدد طویل فاصلے تک مخصوص ہدف کو نشانہ بنانے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔
ایران کے اعلان میں ڈھکی چھپی دھمکی یہ ہے کہ اگر اسرائیل نے غزہ پر حملہ کیا تو حزب اللہ شمال میں ایک نیا محاذ کھول کر اسے دو محاذوں پر جنگ لڑنے پر مجبور کر سکتی ہے۔
تاہم یہ طے شدہ بات نہیں کہ حزب اللہ بھی اس وقت جنگ میں داخل ہونا چاہے گی خصوصاً دو امریکی بحری جنگی بیڑوں کی بحریہ روم کے ساحل پر موجودگی میں جو کسی بھی وقت اسرائیل کی مدد کر سکتے ہیں۔
اس لیے اسرائیل کو یہ تسلی ہے کہ حزب اللہ کے حملے کی صورت میں امریکی بحری جنگی بیڑہ شدید ردعمل دے گا۔ یاد رکھنا ہو گا کہ 2006 میں حزب اللہ سے جنگ میں ایک اسرائیلی جنگی بحری جہاز کو بھی میزائل سے نشانہ بنایا گیا تھا۔
انسانی بحران
اسرائیلی حکومت کا انسانی بحران سے متعلق تصور مغربی دنیا کے خیالات سے کافی الگ ہے خصوصاً جب بات غزہ میں حماس کے خلاف جنگ کی ہو۔
اسرائیلی فضائی حملوں میں فلسطینی عام شہریوں کی ہلاکتوں کی تعداد میں اضافے کی وجہ سے اب حماس کے خلاف پیدا ہونے والا عالمی ردعمل عام شہریوں کی حفاظت کے مطالبے میں تبدیل ہو رہا ہے۔
اگر اسرائیل غزہ میں داخل ہوتا ہے تو ہلاکتوں میں تعداد میں اور اضافہ ہو گا۔ اسرائیلی فوجی بھی ہلاک ہوں گے اور عین ممکن ہے کہ زیادہ تر لڑائی زیر زمین میلوں تک پھیلی سرنگوں میں ہو۔
اور عین ممکن ہے کہ اس لڑائی کی قیمت بھی عام شہریوں کو ہی چکانی پڑے گی۔
انٹیلیجنس کی ناکامی
یہ مہینہ اسرائیل کے خفیہ اداروں کے لیے اچھا نہیں رہا۔
شن بیٹ، جو اسرائیل کی اندرونی خفیہ ایجنسی ہے، کو حماس کے حملے کو روکنے میں ناکامی پر تنقید کا سامنا رہا۔ خیال کیا جاتا ہے کہ شن بیٹ غزہ میں مخبروں اور جاسوسوں کا وسیع نیٹ ورک چلاتی ہے اور حماس سمیت فلسطین اسلامی جہاد کے کمانڈرز پر نگاہ رکھتی ہے۔
تاہم سات اکتوبر کو جنوبی اسرائیل میں جو کچھ ہوا وہ اسرائیل کی تاریخ میں 1973 کی یوم کپور جنگ کے بعد انٹیلیجنس کی سب سے بڑی ناکامی گردانا جا رہا ہے۔
Getty Images’حماس اور فلسطین اسلامی جہاد جوابی کارروائی کی منصوبہ بندی مکمل کر چکے ہوں گے‘
اسرائیلی خفیہ ادارے 10 دن سے بھرپور کوشش میں ہیں کہ اپنی ساکھ کو بحال کریں اور وہ حماس کے کمانڈرز سمیت یرغمالیوں کے نام اور پتے بھی شناخت کرنے میں اسرائیلی فوج کی مدد کر رہے ہیں۔
یہ ممکن ہے کہ اسرائیل کے خفیہ اداروں نے مزید معلومات حاصل کرنے کے لیے وقت مانگا ہو تاکہ جب فوج اندر داخل ہو تو ان کے پاس مخصوص مقامات کا پتہ موجود ہو اور وہ کھنڈرات میں ادھر ادھر گھومتے نہ رہیں جہاں کسی بھی وقت حملے کا خدشہ ہو گا اور دنیا کی جانب سے مذمت بھی ہو رہی ہو گی۔
اسرائیلی فضائیہ کی بھاری بمباری کے باوجود حماس اور فلسطین اسلامی جہاد کے حصے غزہ میں فعال ہیں جو زمینی حملے کی صورت میں جوابی کارروائی کی منصوبہ بندی مکمل کر چکے ہوں گے اور فوجیوں کے لیے جال بچھا چکے ہوں گے۔
یہ جال خصوصاً زیر زمین سرنگوں میں جان لیوا ثابت ہو سکتے ہیں۔ اسرائیلی خفیہ اداروں کی کوشش ہو گی کہ وہ ان مقامات کی شناخت کر سکیں اور فوج کو خبردار کر سکیں۔