داعش کمانڈر کی سابقہ اہلیہ کا انٹرویو: ’محبت میں شادی کی، لوگوں کے سر قلم کرنے جیسے مظالم کا علم نہیں تھا‘

بی بی سی اردو  |  Oct 18, 2023

BBC33 سالہ دُر احمد کو کینیڈا پہنچنے پر گرفتار کر لیا گیا تھا

کینیڈا سے تعلق رکھنے والی ایک خاتون نے پہلی بار شدت پسند تنظیم نام نہاد دولتِ اسلامیہ کے ایک جنگجو سے اپنی شادی اور پھر شام میں اپنے گزرے وقت سے متعلق بات کی ہے۔

نام نہاد دولتِ اسلامیہ کی جانب سے وحشیانہ کارروائیوں کی کوریج دنیا بھر کے میڈیا میں ہو رہی تھی مگر اس کے باوجود دُرِ احمد نامی اس خاتون کا دعویٰ ہے کہ وہ اصل صورتحال سے آگاہ نہیں تھیں۔ دُرِ احمد کے مطابق اُن کے سابقہ برطانوی شوہر اور داعش کمانڈر الشفی الشیخ ان پر تشدد کرتے تھے اور مظالم ڈھا رہے تھے۔

الشفی الشیخ داعش میں اُس سیل (شعبے) کے سرغنہ تھے جو مغربی ممالک سے یرغمال بنائے گئے شہریوں کو اغوا کرنے کے بعد اُن پر تشدد کرنے اور پھر ان کے سر قلم کرنے کا ذمہ دار تھا۔

دو بچوں کی والدہ دُر احمد کا کہنا ہے کہ وہ تشدد کی جانب مائل نہیں ہوئیں بلکہ انھوں نے یہ شادی ایک ایسی لڑکی کے طور پر کی تھی جو کسی لڑکے کی محبت میں اندھی، گونگی اور بہری ہو جاتی ہے۔

وہ بی بی سی اور کینیڈا کے نشریاتی ادارے ’سی بی سی‘ کے سوالات کے جوابات دینے پر حال ہی میں رضامند ہوئیں۔ انھوں نے کہا کہ ’میں یہ سب (انٹرویو) لوگوں کی ہمدردی حاصل کرنے یا قابلِ ترس سمجھے جانے کے لیے نہیں کر رہی ہوں۔‘

دُرِ احمد کو اس بات کا ادراک ہے کہ ان کے اس انٹرویو پر شدید ردعمل آئے گا مگر وہ کہتی ہیں کہ وہ شامی کیمپوں میں اب بھی موجود داعش کے مشتبہ جنگجوؤں کی بیویوں اور بچوں کی حالتِ زار کو اُجاگر کرنا چاہتی ہیں۔ وہ تین سال سے زیادہ عرصے تک اس طرح کے کیمپ میں مقید رہیں۔

ان کا کہنا ہے کہ انھیں چاہے یہ اچھا لگے یا بُرا مگر انھیں یہ بات تسلیم کرنی چاہیے کہ ان کا الشیخ کے ساتھ زندگی کا کچھ وقت بسر ہوا ہے۔

دُرِ احمد کا دعویٰ ہے کہ الشیخ نے انھیں شادی سے قبل کبھی نہیں بتایا کہ وہ داعش کا حصہ بن چکے ہیں۔ انھوں نے بتایا کہ جب انھوں نے سنہ 2014 میں کینیڈا سے شام تک کا سفر کیا تھا تو وہ اس گروپ کے جہادی نظریات سے آگاہ نہیں تھیں۔

ان کا دعویٰٰ ہے کہ انھوں نے اس پُرتشدد شخصیت کو شادی کے بعد پہچانا جو اب ان کے سابق شوہر ہیں۔

ان کے سابقہ شوہر الشیخ اور ان کے سیل کے دیگر افراد کو ان کے برطانوی لہجے کی وجہ سے اُن کے قیدیوں نے راک بینڈ ’بیٹلز‘ کا لقب دیا تھا۔

یہ افراد متعدد یرغمالیوں کی موت کے ذمہ دار تھے، جن میں سے بیشتر کے سر قلم کیے گئے، ویڈیوز بنائی گئیں اور پھر سوشل میڈیا پر بھی شیئر کی گئیں۔

امریکہ میں ان کے سنہ 2022 کے ٹرائل کے دوران استغاثہ نے کہا کہ الشیخ کے اقدامات کے نتیجے میں چار امریکیوں، جن میں صحافی جیمز فولی اور سٹیون سوٹلوف کے علاوہ امدادی کارکن کیلا مولر اور پیٹر کیسگ بھی شامل تھیں، مارے گئے۔

ان کا کہنا تھا کہ اس کمانڈر نے دو برطانوی امدادی کارکنوں ڈیوڈ ہینس اور ایلن ہیننگ کے ساتھ ساتھ جاپانی صحافی ہارونا یوکاوا اور کینجی گوٹو کو قتل کرنے کی سازش کی تھی۔

ہلاک ہونے والے ان تمام مغربی ممالک کے شہریوں کی لاشیں آج تک نہیں مل سکیں۔

الشیخ اب امریکی جیل میں ہیں۔ انھیں عدالت سے آٹھ مرتبہ عمر قید کی سزا سنائی گئی ہے۔ برطانیہ نے سزا یافتہ ہونے سے پہلے ہی ان کی شہریت صلب کر دی تھی۔

تاہم اب جبکہ وہ جیل میں ہیں اس بارے میں یہ سوالات اپنی جگہ موجود ہیں کہ دُرِ احمد کی طرح کتنے دوسرے لوگوں کو یہ معلوم ہے کہ داعش درحقیقت کس قسم کی سرگرمیوں میں ملوث ہے۔

درِ احمد نے شام میں الشیخ کے ہاتھ میں اس وقت ہاتھ دیا جب الشیخ کے سیل کی طرف سے کیے وحشیانہ رویے نے دنیا بھر میں غم و غصہ پیدا کیا تھا۔

یہ سب اس وقت ہوا جب داعش نے شمالی عراقی شہر موصل پر قبضہ کرتے ہوئے متعدد مظالم کا ارتکاب کیا تھا اور عراق کی یزیدی مذہبی اقلیت کے خلاف نسل کشی شروع کی تھی۔

دُرِ احمد کے ہاں دو بیٹوں کی ولادت ہوئی۔ وہ اور ان کے دونوں بچے اپریل میں دیگر خواتین اور بچوں سمیت کینیڈا واپس بھیج دیے گئے تھے۔

Reutersدُر احمد کے سابقہ شوہر اور داعش کمانڈر الشفی الشیخ

33 سالہ خاتون کو کینیڈا آمد پر گرفتار کر لیا گیا تھا تاہم بعد میں انھیں مشروط ضمانت دی گئی۔ سوموار کو اونٹاریو کی ایک مقامی عدالت نے ان شرائط کا جائزہ لیا جن کے تحت ان کو رہائی ملی۔

حکومتی وکیل نے موقف اپنایا کہ در احمد داعش کے بیانیے پر یقین رکھتی تھیں اور اس بات کا امکان موجود ہے کہ انھیں 2014 میں کینیڈا چھوڑنے سے قبل اپنے شوہر کے کردار کے بارے میں علم تھا۔

حکومت اور در احمد کے وکیل نے ایک مشترکہ تجویز پیش کی جس کے تحت جی پی ایس سسٹم کے ذریعے ان کی حرکات پر نظر رکھی جا سکے گی اور رات 10 بجے سے صبح چھ بجے تک انھیں الگ تھلگ رہنا ہو گا۔ جج نے کہا کہ اس معاملے پر 19 اکتوبر کو فیصلہ سنایا جائے گا۔

ہم نے دو بار در احمد سے انٹرویو کیا، آخری بار گذشتہ ہفتے اونٹاریو میں جہاں انھوں نے زیادہ آزادانہ طریقے سے بات چیت کی۔ تاہم ہماری پہلی ملاقات گذشتہ سال نومبر کے مہینے میں شام کے ایک کیمپ میں ہوئی تھی جہاں انھوں نے پیشکش کی تھی کہ وہ ان لاپتہ برطانوی بچوں کے بارے میں بات کر سکتی ہیں جنھیں ہم ایک بی بی سی سیریز کے لیے تلاش کر رہے تھے۔

اس وقت ہمیں ان کے شوہر کی شناخت کا علم نہیں تھا لیکن تحقیق کے بعد جب ہمیں ان کے بارے میں علم ہوا تو ہم جاننا چاہتے تھے کہ الشیخ کیسے داعش کا حصہ بنے اور ان کے ساتھی کون تھے جنھیں ماضی کے معروف برطانوی بینڈ ’بیٹلز‘ کے نام سے جانا جاتا ہے۔

در احمد اور الشافی شیخ 2007 میں ٹورونٹو میں ملے تھے۔ اس وقت در احمد 17 سال جبکہ الشافی 19 سال کے تھے۔

ان کی ملاقات کیسی رہی تھی؟ در احمد نے ہنستے ہوئے کہا ’چرس پیتے ہوئے۔ اسے خدا کی کوئی پرواہ نہیں تھی۔ اور نہ ہی اس ملاقات کا دولت اسلامیہ سے کوئی تعلق تھا۔‘

BBCدُر احمد اب کینیڈا میں اپنی والدہ کے ہمراہ رہتی ہیں

الشافی سوڈانی تارکین وطن کے بیٹے تھے جو لندن لوٹے تو در احمد نے ان سے رابطہ برقرار رکھا۔ 2010 میں ان دونوں نے شادی کر لی لیکن یہ ایک طویل فاصلے والا رشتہ رہا۔ در احمد ٹورونٹو میں ہی رہیں جہاں وہ انگریزی زبان میں ڈگری حاصل کر رہی تھیں۔

ادھر لندن میں الشافی کی ملاقات ایک ایسے شخص سے ہوئی جو داعش میں ان کا ساتھی بنا اور یوں وہ شدت پسندی کی جانب راغب ہوئے۔

در احمد نے کہا کہ ’وہ زیادہ میل جول رکھنے والا شخص نہیں تھا۔ وہ اکیلا رہنا پسند کرتا تھا۔ یعنی اس میں ایسی تمام عادات تھیں جو اسے شدت پسندی کے تاریک راستے پر لے جا سکتی تھیں۔‘

2012 میں الشافی شام چلے گئے جہاں انھوں نے باقاعدہ طور پر داعش میں شمولیت اختیار کی۔ اس دوران وہ اپنی اہلیہ کو رضامند کرتے رہے کہ وہ بھی ان کے ساتھ آ کر مل جائیں۔

در احمد کہتی ہیں کہ ’اس نے کہا کہ آ کر دیکھو تو صحیح۔ پھر تم واپس جا سکتی ہو۔ جیسے یہ سب اتنا ہی سادہ تھا۔‘

در احمد نے شام میں بتائے دنوں کی زیادہ تفصیلات فراہم کرنے سے انکار کیا۔ ان کا دعویٰ ہے کہ وہ یہ تک نہیں جانتی تھیں کہ وہ کس شہر میں رہائش پذیر رہیں۔ ’مجھے لگتا تھا کہ لاعلمی جاننے سے بہتر ہے۔‘

ان کا دعویٰ ہے کہ شام جانے کے بارے میں ابھی وہ سوچ ہی رہی تھیں کہ کینیڈا کے خفیہ ادارے ’سی ایس آئی ایس‘ کے اراکین نے ان کے شوہر کے بارے میں پوچھ گچھ کی۔

وہ کہتی ہیں کہ ان کے پاس سی ایس آئی ایس کو بتانے کے لیے کچھ نہیں تھا اور انھوں نے اپنے شوہر کو بھی بتایا کہ خفیہ ادارے نے ان سے رابطہ کیا ہے۔ سی ایس آئی ایس نے بی بی سی سے کہا ہے کہ وہ کسی مقدمے کے بارے میں بات نہیں کر سکتے۔

دراحمد 24 سال کی ہو چکی تھیں جب انھوں نے شام جانے کا فیصلہ کیا۔ ان کا کہنا ہے کہ اس وقت تک وہ داعش کی جانب سے لوگوں کے سر قلم کرنے جیسے مظالم کے بارے میں لاعلم تھیں۔ ایسے واقعات اس زمانے میں اکثر میڈیا میں رپورٹ ہوا کرتے تھے۔

تاہم در احمد کہتی ہیں کہ ’سچ یہ ہے کہ یہی سچ ہے۔‘

ہم نے ان سے سوال کیا کہ وہ ایک ذہین خاتون تھیں جو مشرق وسطیٰ کے بارے میں تعلیم بھی حاصل کر چکی تھیں تو یقینا وہ آگاہ رہی ہوں گی کہ دنیا کے اس خطے میں مسلمانوں کے ساتھ کیا ہو رہا تھا؟

انھوں نے جواب دیا کہ ’میں نے خود کو شام میں ہونے والے واقعات سے دور رکھا۔‘ ان کے مطابق ان کی تعلیم میں زیادہ تر قدیم مصر پر پڑھایا گیا، حالات حاضرہ کے بارے میں نہیں۔

دُر احمد کے مطابق ان کے تمام سفری معاملات ان کے شوہر نے طے کیے۔ ان کو صرف ’ترکی جانے کے لیے ایک طیارے میں بیٹھنا تھا۔‘

’میں نے بس تین پتلونیں اور دو ٹی شرٹس ساتھ لیں۔‘

دولت اسلامیہ کے بارے میں رپورٹنگ کے دوران ہمارا تجربہ رہا کہ اکثر خواتین اس بارے میں زیادہ بات نہیں کرنا چاہتیں کہ وہ کیسے اور کیوں اس گروپ کا حصہ بنیں۔ ہر کسی کی اپنی ہی کہانی ہوتی ہے۔

کچھ گھریلو تشدد سے متاثر تھیں تو کچھ کو دھوکہ دیا گیا۔ کچھ اپنی مرضی سے آئیں تو کچھ اپنے شوہروں یا بچوں کے ہمراہ۔ ان میں سے کچھ خود بہت کم عمر تھیں۔ اور یہ تمام خواتین دولت اسلامیہ کے بیانیے پر پختہ یقین رکھتی تھیں۔

در احمد دولت اسلامیہ کی حمایت کرنے سے انکار کرتی ہیں۔ انھوں نے خود کو ایک ’بیوقوف رومانوی‘ شخصیت کے طور پر پیش کیا۔ جب ہماری ان سے شام کے ایک کیمپ میں بات ہوئی جہاں وہ قید تھیں تو انھوں نے داعش کی مذمت کی یہ جانتے ہوئے بھی کہ اس مقام پر ایسا کرنا خطرناک ثابت ہو سکتا ہے۔

Reuters

الشیخ اور در احمد شام میں دولت اسلامیہ کے نام نہاد دارالحکومت رقہ میں رہائش پذیر تھے جہاں شہر کے وسطی مرکز میں اجتماعی سزا کے تحت ہلاکتیں روزمرہ کا معمول تھیں اور ہلاک ہونے والوں کے سر بعد میں سرعام رکھ دیے جاتے تھے۔

شام میں انٹرویو کے دوران در احمد نے بتایا کہ ان کا دن ساتھی خواتین کے ساتھ ریسٹورنٹ جانے اور بچوں کو گھمانے لے کر جانے جیسے روزمرہ کے کاموں میں گزرتا تھا۔

ٹورونٹو میں انٹرویو کے دوران انھوں نے اس بات کی تردید کی کہ ان کی پرتعیش زندگی کی وجہ ان کے شوہر کا اہم کردار تھا۔ ان کا دعویٰ تھا کہ رقہ میں ان کا گھر کسی جیل جیسا تھا جہاں فون یا انٹرنیٹ نہیں تھا۔ ان کے مطابق مرد ایک سے زیادہ شادیاں کرتے تھے۔ جب ہم نے ان سے سوال کیا کہ کیا ان کے گھر میں یزیدی خواتین کو غلام بنا کر رکھا گیا تو انھوں نے انکار کیا۔

ان کے مطابق ان کے شوہر کافی ’پرائیویٹ‘ تھے اس لیے ان کو گھر کے پردے بھی ہٹانے کی اجازت نہیں تھی۔ ان کے مطابق وہ خوش قسمت ہیں کہ ان کے بچے اب تک زندہ ہیں کیوں کہ ان کے شوہر نے حمل کے دوران ان کے ساتھ پرتشدد رویہ رکھا۔

دراحمد کہتی ہیں کہ انھوں نے کئی بار فرار ہونے کی کوشش کی لیکن ان کو کسی قسم کی مدد نہیں مل سکی اور وہ آخرکار شوہر سے طلاق ملنے کے بعد بچوں کے ساتھ ایک گیسٹ ہاؤس میں منتقل ہو گئیں۔

ہم نے کہا کہ دوسرے انٹرویو میں انھوں نے اضافی معلومات فراہم کی ہیں اور سوال کیا کہ آیا اب یہ سب کہنا ان کے لیے فائدہ مند ہے جب وہ کینیڈا واپس آ چکی ہیں اور ان کو قید کا سامنا ہے۔

انھوں نے جواب دیا کہ ’اگر مجھے سزا ہونی ہے تو ہو جائے، اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔‘ ان کے مطابق ’شام سے جسمانی دوری‘ نے انھیں وہاں بتائے وقت کو ’کسی باہر والے کی نگاہ سے دیکھنے کا موقع فراہم کیا اور میرا خیال ہے کہ مجھے سب کچھ سمجھنے میں آسانی ہوئی۔‘

Getty Images

الشافی الشیخ کو 2018 میں امریکی حمایت یافتہ سیریئن ڈیموکریٹک فورس نے گرفتار کیا تھا۔ در احمد نے اپنے بیٹوں کے ساتھ ایک سال بعد گرفتاری دی۔

کینیڈا ان ممالک میں شامل ہے جہاں چند داعش جنگجوؤں کے اہلخانہ کو واپس آنے کی اجازت دی گئی ہے۔ امریکہ، سپین، سویڈن، جرمنی اور فرانس بھی اسی حکمت عملی پر عمل پیرا ہیں۔

برطانیہ نے متعدد ایسے افراد کی شہریت منسوخ کر دی ہے جنھوں نے دولت اسلامیہ کے زیر اثر رہنے کے لیے سفر کیا۔

ان افراد میں شمیمہ بیگم بھی شامل ہیں جو 2015 میں شام چلی گئی تھیں۔ شمیمہ بیگم نے ایک داعش جنگجو سے شادی کی اور اب اسی کیمپ میں رہتی ہیں جہاں دراحمد ہمیں ملی تھیں۔

دراحمد کا کہنا ہے کہ خواتین اور بچوں کو ایسے کیمپوں میں چھوڑ دینے سے شدت پسندی کے راستے پر چلنے والوں کے خلاف کامیابی حاصل نہیں ہو گی۔

ان کا کہنا ہے کہ وہ صرف اپنے عوامی تاثر کو ٹھیک کرنے کی کوشش نہیں کر رہی ہیں بلکہ اس لیے کھل کر بات کر رہی ہیں کیوں کہ ان کو اور ان کے بچوں کو دوسرا موقع ملا جس پر وہ شکرگزار ہیں۔

الشافی کو سزا ہوئی لیکن انھوں نے عدالت میں الزامات کی تردید کی۔ دراحمد کہتی ہیں کہ الشافی کو چاہیے کہ وہ اپنے بچوں اور ان کا نشانہ بننے والوں کی خاطر اعتراف کر لیں۔

’یہ ایک ایسی چیز ہے جس پر اسے میرے بچوں سے بھی بات کرنی ہے۔ یہ معاملہ اس کی سزا سے ختم نہیں ہو سکتا۔‘

ان کا کہنا ہے کہ وہ اجازت ملنے پر اپنے سابق شوہر سے بات کریں گی اور ان لوگوں کی جانب سے سوال کریں گی جن کے رشتہ دار الشافی کا نشانہ بنے۔

مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More