BBC
انڈین ریاست پنجاب کے ایک چھوٹے سے گاؤں کی ایک درجن سے زیادہ نوجوان لڑکیاں کھیتوں کے بیچ سائیکل چلاتی جا رہی ہیں۔
سفید لباس میں ملبوس، کیچے راستوں پر چلتے ہوئے، ان کا جوش و خروش بڑھنے لگتا ہے۔ گندم کے کھیتوں کے درمیان، ان کی خوشی کی وجہ نظر آتی ہے: کرکٹ کی پچ، پلاسٹک کی وکٹیں اور کنکریٹ کی پٹی جہاں وہ بیٹنگ کر سکتی ہیں۔
اگر یہ سنہ 1989 کی ہالی وڈ فلم فیلڈ آف ڈریمز کا منظر لگتا ہے تو یہ حقیقت سے زیادہ دور نہیں ہوگا۔ یہ 18 لڑکیاں گلاب سنگھ کرکٹ ٹیم کی رکن ہیں۔
کرکٹ انڈیا میں ایک مذہب کی طرح سب سے زیادہ مقبول کھیل ہے۔ اگرچہ یہ مردوں کا کھیل رہا ہے لیکن اب حالات بدل رہے ہیں۔
اس سال کے شروع میں، انڈیا نے خواتین کی کرکٹ پریمیئر لیگ، ڈبلیو پی ایل، شروع کی ہے، جو انڈین پریمیئر لیگ، آئی پی ایل، کا ایک ورژن ہے۔ یہ تیزی سے دنیا کی سب سے زیادہ منافع بخش خواتین کی فرنچائزز میں سے ایک بن گئی ہے، جو امریکہ میں خواتین کی باسکٹ بال لیگ کے بعد دوسرے نمبر پر ہے۔
انڈیا میں خواتین کئی سالوں سے کرکٹ میں سرگرم اور اعلیٰ کارکردگی کا مظاہرہ کر رہی ہیں۔ ڈبلیو پی ایل نے انھیں مرکزی دھارے میں لانے میں اہم کردار ادا کیا ہے اور اب انھیں میڈیا پر بھی پذیرائی حاصل ہوتیہے جو اس سے قبل صرف مردوں کی ٹیموں کے لیے مخصوص ہوا کرتی تھی۔
اکتوبر میں انڈیا کے کرکٹ بورڈ کی گورننگ باڈی نے کہا ہے کہ تمام کنٹریکٹ یافتہ خواتین کرکٹرز کو مردوں کے برابر میچ فیس ادا کی جائے گی۔ یہ ملک کے سب سے پسندیدہ کھیل میں صنفی مساوات کو فروغ دینے کا ایک تاریخی فیصلہ ہے۔
تاہم قومی سطح پر تبدیلیوں کے باوجود، خاص طور پر چھوٹے شہروں میں لڑکیوں کو کھیلنے کا موقع فراہم کرنا اب بھی مشکل ہے۔
35 سالہ گلاب سنگھ شیرگل، جنھوں نے چار سال قبل اس چھوٹی سی لیگ کا آغاز کیا تھا،کہتے ہیں کہ ’میں نے یہ کرکٹ ٹیم ان کی زندگیاں بہتر بنانے کے لیے بنائی ہے۔۔‘
BBC
وہ کہتے ہیں ’انھیں اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کی اجازت نہیں ملتی، صرف دسویں جماعت تک جانے کی اجازت ملتی ہے۔‘ اس کے بعد یہ کھانا پکانے اور صفائی ستھرائی میں لگ جاتی ہیں جب تک کہ ان کی شادی نہیں ہو جاتی اور انھیں اپنے سسرال کے ساتھ رہنے کے لیے بھیجا جاتا ہے۔
ہر روز ان کی ٹیم میں شامل لڑکیاں یہاں آتی ہیں اور بیٹنگ ایریا کے پیچھے ایک درخت کے نیچے اپنی بائیک پارک کرنے کے بعد میدان میں وارم اپ ہوتی ہیں۔
13 سالہ سمرن جیت کور بولنگ سیکھ رہی ہیں۔ وہ بھاگتی ہیں اپنا بازو گھما کر چمڑے کی گیند کو پھینکتی ہیں۔ ان کا قد تیز رفتار گیندبازی کرنے میں ان کی مدد کرتا ہے۔ وہ کہتی ہیں کہ ان کی باؤلنگ میں بہتری آنے لگی ہے۔
ان کا جسم کسی بچے جیسا ہی ہے لیکن ان کو جلدی سے بڑے ہونا ہے۔ تین سال قبل ان کی والدہ کی اچانک موت کے بعد ان کی دادی نے سمرنجیت اور ان کی دو بہنوں کا خیال رکھا جن کی عمر دس اور تین سال ہے۔
چند سال قبل ان لڑکیوں کو کھیلتا دیکھ کر وہ ٹیم میں شامل ہوئیں جہاں وہ اپنے کرکٹ کے شوقین والد کے ساتھ ایک ٹورنامنٹ دیکھنے گئی تھیں۔
’میرے والد نے پوچھا کہ کیا میں کھیلنا چاہوں گی۔ میں نے ہاں کہہ دیا۔ تو انھوں نے کوچ سے پوچھا کہ کیا میں بھی ٹیم میں شامل ہو سکتی ہوں تو انھوں نے اگلے دن سے آنے کو کہا۔‘
BBC
سکول جانے سے پہلے سمرنجیت دادی کے ساتھ روٹیاں پکاتی ہیں۔ سکول کے بعد اپنی عمر کی دیگر بچیوں کی طرح گھر کے کام کرنے کے بجائے، اپنے باپ اور دادی کی حمایت سے، وہ کرکٹ کا لباس پہن کر پریکٹس پر چلی جاتی ہیں۔ اب ان کی بہن بھی ان کے ساتھ جاتی ہے۔
ان کی دادی، بلجیت کور کہتی ہیں کہ ’دیہاتوں میں ایک بری سوچ ہے کہ لڑکیوں کی شادی کرو اور سسرال بھیج دو جیسے ان کی اپنی کوئی زندگی نہیں۔ کچھ لوگ ہمیں کہتے ہیں کہ آپ اپنی بچیوں کو کھیلنے کیوں بھیجتے ہو تو ہم کہتے ہیں کہ یہ ہماری خواہش ہے، ہم چاہتے ہیں کہ وہ کھیلیں۔‘
جب سمرنجیت سے سوال کیا گیا کہ ان کو کیسا لگتا ہے کہ لوگ ایسا کہتے ہیں تو وہ کہتی ہیں کہ ’یہ میری زندگی ہے، میں کھیلنا نہیں چھوڑنا چاہتی۔ مجھے برا لگتا ہے کیوں کہ مجھے کرکٹ پسند ہے۔‘
گلاب سنگھ شیرگل پولیس کانسٹیبل بھی ہیں جو ان کی اصل نوکری ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ ’کھلاڑیوں کو کسی چیز کے پیسے نہیں دینا پڑتے۔‘ لیکن ان کی اپنی تنخواہ لگ جاتی ہے۔ یونیفارم، سامان اور ایک کوچ کی تنخواہ میں۔
انھوں نے کرکٹ پچ کے لیے بھی اپنی زمین کا ایک ٹکڑا دیا ہے اور ان کو امید ہے کہ ایک دن وہ یہاں ایک دفتر بنا سکیں گے۔
ابھی تک ان کی ٹیم بنے ہوئے چار سال ہی ہوئے ہیں لیکن وہ لڑکیوں کو ایک ایسی زندگی سے آشنا کروا چکے ہیں جو گاؤں سے دور لے جا سکتی ہے۔
’اب ہم لڑکوں اور لڑکیوں کے میچ کرواتے ہیں۔ اس سے ان لڑکیوں کو اپنے آپ پر فخر ہوتا ہے اور وہ اپنے والدین کو کہہ سکتی ہیں کہ میں یہ کر سکتی ہوں۔‘
ان لڑکیوں کے لیے کرکٹ کھیلنا کچھ الگ سا ہے۔ چند گھنٹوں کے لیے صنف سے جڑے امتیاز ان سے دور ہو جاتے ہیں۔ دس سالہ ہرسمرت کور کہتی ہیں کہ جب ہم میچ کھیلتے ہیں تو مجھے ایسا لگتا ہے جیسے میں انڈیا کی ٹیم میں ہوں۔
’جب میں چھکا لگاتی ہوں تو میں جانتی ہوں کہ یہ میں نے انڈیا کے لیے کیا۔ مجھے صرف ایک بات کا احساس ہے کہ ابھی تو میں انڈیا کی ٹیم میں نہیں ہوں لیکن ایک دن ضرور کھیلوں گی۔‘
BBC
اس کام میں گلاب سنگھ کو دیگر خواتین کی حمایت بھی حاصل ہے۔ ان کی بڑی بہن جسویر کور، جن کو پیار سے بوا بلایا جاتا ہے، ان کی سب سے بڑی حمایتی ہیں۔
وہ ہفتے میں ایک دن ضرور میدان میں اترتی ہیں۔ کبھی وہ چوٹ کھا جانے والی کھلاڑیوں کی ہمت باندھتی ہیں تو کبھی صرف انھیں دیکھتی ہیں۔ ان کو عورت پر سماج کے دباؤ کا بخوبی اندازہ ہے۔
ان کی شادی 19 سال کی عمر میں ہوئی اور پھر وہ ماں بن گئیں۔ وہ یہ سوچ کر اکثر روتی ہیں کہ ان لڑکیوں کا مقدر بھی ایسا ہی نہ ہو۔
وہ کہتی ہیں کہ ’میری تمام امیدیں عورت ہونے کی وجہ سے توڑ دی گئیں۔ مجھے کہا گیا کہ گھر پر کام کرو، کھانا بناؤ۔ اب میں چاہتی ہوں کہ اگر میں ان لڑکیوں کی مدد کر سکوں کہ یہ کچھ کر سکیں تو مجھے اور کچھ نہیں چاہیے۔ میں اپنی پوری طاقت ان کی مدد کرنے میں استعمال کرنا چاہتی ہوں۔‘
گلاب سنگھ شاید پروفیشنل کرکٹر بننے کا خواب بیچ رہے ہیں کہ یہ لڑکیاں کسی دن دنیا میں انڈیا کی نمائندگی کر سکیں گی۔ لیکن جو سبق وہ ان لڑکیوں کو سکھا رہے ہیں وہ انمول ہے۔
سمرنجیت کہتی ہیں کہ ’لڑکے اور لڑکی میں کوئی فرق نہیں۔ جو لڑکے کر سکتے ہیں، لڑکیاں بھی کر سکتی ہیں۔‘