حماس کے ’طوفان الاقصیٰ‘ آپریشن میں 150 اسرائیلی جبکہ غزہ پر جوابی فضائی حملوں میں 232 فلسطینی ہلاک، متعدد اسرائیلی شہری اور فوجی یرغمال بنا لیے گئے

بی بی سی اردو  |  Oct 07, 2023

Getty Images

اسرائیل میں فلسطینی عسکریت پسند تنظیم حماس کے ’طوفان الاقصیٰ‘ آپریشن اور اس کے جواب میں غزہ پر اسرائیلی بمباری سے ہلاک ہونے والوں کی تعداد 380 سے بڑھ گئی ہے جبکہ 1900 سے زیادہ افراد ان کارروائیوں میں زخمی ہوئے ہیں۔

ان حملوں کے بعد حماس کے رہنما محمد دیف کا کہنا تھا کہ ’ہم نے فیصلہ کیا ہے کہ اب بہت ہو چکا ہے‘ جبکہ اسرائیلی وزیراعظم بنیامین نتن یاہو نے کہا ہے کہ ان کا ملک حالتِ جنگ میں ہے اور حماس کو ان حملوں کی وہ قیمت چکانا پڑے گی جس کی ماضی میں مثال نہیں ملتی۔

اسرائیل کی ایمرجنسی سروسز کا کہنا ہے کہ سنیچر کو فلسطینی عسکریت پسندوں کی جانب سے اسرائیلی علاقوں میں راکٹ داغے جانے اور زمینی حملوں میں مرنے والے اسرائیلیوں کی تعداد کم از کم 150 ہے جبکہ 900 سے زائد افراد زخمی ہوئے۔

ادھر فلسطینی حکام کا کہنا ہے کہ غزہ پر اسرائیل کے جوابی حملوں میں سنیچر کی شب تک 232 افراد ہلاک اور ایک ہزار سے زائد زخمی ہو چکے ہیں۔

اسرائیلی فوج نے اپنے ہزاروں رضاکاروں کو ڈیوٹی پر طلب کر لیا ہے اور خیال کیا جا رہا ہے کہ وہ اب غزہ میں زمینی کارروائی شروع کرے گی۔

اسرائیل اور فلسطینیوں کے درمیان گذشتہ مئی کے بعد سے یہ سب سے زیادہ پرتشدد کشیدہ صورتحال قرار دی جا سکتی ہے۔

حماس کا ’طوفان الاقصیٰ‘ کیسے شروع ہوا؟

حماس سے تعلق رکھنے والے عسکریت پسند سنیچر کو علی الصبح موٹرسائیکلوں کے علاوہ پیرا گلائیڈرز اور کشتیوں کا استعمال کرتے ہوئے غزہ کی پٹی کے علاقے سے اسرائیلی حدود میں داخل ہوئے جبکہ اس موقع پر اسرائیلی علاقوں پر ہزاروں راکٹ داغے گئے جن میں سے کچھ مقبوضہ بیت المقدس اور تل ابیب میں بھی گرے۔

تاحال یہ واضح نہیں کہ اتنی بڑی تعداد میں مسلح افراد دنیا کے سخت ترین حفاظتی انتظامات والی سرحد عبور کرنے میں کیسے کامیاب رہے۔

اسرائیلی میڈیا کے مطابق حماس کے جنگجوؤں کے اسرائیل میں داخل ہونے کے بعد ملک کے جنوبی علاقوں میں ان کی اسرائیلی فوجیوں سے مسلح جھڑپیں ہوئیں۔

اسرائیلی فوج کے مطابق اس کے جواب 22 مقامات پر حماس کے حملہ آوروں کا مقابلہ کر رہے ہیں

غزہ کے قریب واقع اسرائیلی آبادیوں میں مقیم افراد نے اسرائیل کے مختلف نیوز چینلز کو فون پر بتایا کہ عسکریت پسند ان کے قصبوں اور دیہات میں گھس آئے اور وہ اپنے مکانات میں محصور ہو کر رہ گئے۔

انٹرنیٹ پر موجود غزہ سے ایک میل کے فاصلے پر واقع سدیروت نامی قصبے کی ایک ویڈیو میں مسلح فلسطینی نوجوانوں کو اسرائیلی فوجیوں سے فائرنگ کا تبادلہ کرتے دیکھا جا سکتا ہے۔

بی بی سی کے نامہ نگار جیرمی بیکر کے مطابق فلسطینی عسکریت پسندوں نے متعدد فوجی چوکیوں پر حملہ کیا۔

سوشل میڈیا پر شیئر ہونے والی ویڈیوز میں عسکریت پسندوں کو ایک نامعلوم اڈے کے اندر دکھایا گیا ہے، جس میں مرکاوا ٹینک (اسرائیل کی بری فوج میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھنے والا ٹینک) سمیت اسرائیلی گاڑیوں کو نذر آتش کیا گیا ہے۔

اس کے علاوہ غزہ کی کچھ ویڈیوز میں بھی فلسطینیوں کو اسرائیلی فوج کی گاڑیاں چلاتے دیکھا جا سکتا ہے۔

مصنف اور صحافی گیڈون لیوی نے بی بی سی کو بتایا کہ ’جب پہلا راکٹ گرا تو میں پارک میں جاگنگ کر رہا تھا، ااس وقت شور شرابہ دہلا دینے والا تھا۔‘

انھوں نے کہا کہ حملوں کے بعد جب وہ گھر سے باہر نکلے تو ’سڑکیں ویران تھیں۔ ریستوراں، کیفے سب کچھ بند پڑے ہیں اور فضا خوف سے بھری ہوئی ہے۔‘

Getty Imagesاسرائیلی فوجی اور شہری یرغمال بنا لیے گئے

بی بی سی کو معلوم ہوا ہے کہ فلسطینی عسکریت پسند گروہ حماس نے درجنوں اسرائیلی باشندوں کو یرغمال بھی بنا لیا ہے جن میں عام شہری اور فوجی دونوں شامل ہیں۔

اسرائیلی ڈیفینس فورس کے ایک ترجمان نے جھڑپوں میں کچھ فوجیوں کی ہلاکت اور فوجیوں کے علاوہ شہریوں کو یرغمال بنائے جانے کے تصدیق کی ہے تاہم ان کا کہنا تھا کہ اسرائیلی فوج کے کسی جرنیل کے اغوا کی خبر درست نہیں۔

خود کو عسکریت پسند گروہ القدس بریگیڈ کا ترجمان ظاہر کرنے والے ابو حمزہ کی جانب سے ٹیلی گرام پر جاری ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ ’اُن کے جنگجوؤں نے ’متعدد‘ اسرائیلی فوجیوں کو یرغمال بنا لیا ہے۔‘

حماس کا دعویٰ ہے کہ اس کے پاس 53 ’جنگی قیدی‘ ہیں جن میں اسرائیلی فوج کے سینیئر افسر بھی شامل ہیں اور ان میں سے بہت سوں کو ان سرنگوں میں رکھا گیا ہے جنھیں ماضی میں اسرائیل نشانہ بناتا رہا ہے۔

خیال کیا جاتا ہے کہ ان میں سے کچھ یرغمالیوں کو غزہ کی پٹی کے قریب کچھ چھوٹے قصبوں میں رکھا گیا ہے جبکہکچھ لوگوں کو غزہ لے جایا گیا ہے جو کہ ایک غیر معمولی صورتحال ہے۔

یروشلم میں بی بی سی کے مشرق وسطی کے بیورو کے سربراہ جو فلوٹو کا کہنا ہے ’ہم سمجھتے ہیں کہ حماس نے فوجی اور سویلین دونوں طرح کے درجنوں افراد کو یرغمال بنایا ہے اور یہ بہت سے اسرائیلیوں کے لیے ایک ڈراؤنا منظر نامہ ہے۔‘

فلسطینی عسکریت پسند گروہ ماضی میں یرغمالیوں کو اسرائیل کے زیر قبضہ عسکریت پسندوں کی رہائی کے لیے سودے بازی کے طور پر استعمال کرتا رہا ہے۔

اسرائیل نے سنہ 2011 میں ایک ہزار سے زائد فلسطینی قیدیوں کو رہا کر کے اپنے فوجی ’گلاد شیلت‘ کی رہائی کو یقینی بنایا تھا ان میں سے تقریبا 200 افراد کو اسرائیل کے اندر حملوں کی منصوبہ بندی یا حملے کرنے کے جرم میں عمر قید کی سزا سنائی گئی تھی۔

اسرائیل میں انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والے گروپ ’بی سیلیم‘ کی تازہ ترین رپورٹ کے مطابق جون میں 4499 فلسطینی اسرائیلی جیلوں میں قید تھے۔ ان میں غزہ کی پٹی سے تعلق رکھنے والے 183 افراد بھی شامل تھے۔

Reutersآگ بجھانے والا عملہ صبح سے اپنے کام پر لگا ہےاسرائیل نے کیا جوابی کارروائی کی؟

اسرائیل کی فوج کا کہنا ہے کہ اس نے حماس کے راکٹ حملوں کے جواب میں غزہ میں حماس کے اہداف پر فضائی حملے کیے ہیں جن میں درجنوں طیارے حصہ لے رہے ہیں۔

فوجی حکام کا کہنا ہے کہ ان حملوں میں حماس کے 17 عسکری کمپاؤنڈز کو نشانہ بنایا گیا ہے۔

اسرائیلی طیاروں نے غزہ شہر کے مرکز میں واقع ایک 11 منزلہ عمارت کو بھی بمباری کر کے تباہ کر دیا ہے۔ اس عمارت میں حماس کے ریڈیو سٹیشن قائم تھے۔

طبی امداد فراہم کرنے والے عالمی ادارے ڈاکٹرز ود آؤٹ بارڈرز کا کہنا ہے کہ غزہ میں دو ہسپتالوں پر اسرائیلی حملوں میں ایک نرس اور ایک ایمبیولینس ڈرائیور بھی مارا گیا ہے۔

خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق اسرائیل کے وزیرِ توانائی کا کہنا ہے کہ ان کا ملک غزہ کو بجلی کی فراہمی بھی معطل کر سکتا ہے۔

اس سے قبل اسرائیلی وزیر اعظم بنیامن نیتن یاہو نے ایک ویڈیو بیان جاری کرتے ہوئے کہا ہے کہ ’ہم حالتِ جنگ میں ہیں‘ اسرائیل کے وزیر دفاع یواو گیلنٹ نے کہا ہے کہ حماس نے ’ایک سنگین غلطی‘ کی ہے اور یہ کہ ’اسرائیل کی ریاست یہ جنگ جیت جائے گی‘۔

دوسری جانب فلسطینی صدر محمود عباس کا کہنا ہے کہ ان کے عوام کو ’آبادکاروں اور قابض فوجیوں کی دہشت‘ کے خلاف اپنا دفاع کرنے کا حق حاصل ہے۔

فلسیطینی صدر رام اللہ میں فلسطینی اتھارٹی کے اعلیٰ حکام کے ساتھ ایک ہنگامی اجلاس کی صدارت کر رہے تھے۔

ان کا کہنا تھا ’ہمارے لوگوں کو تحفظ فراہم کرنے کی ضرورت‘ ہے۔انھوں نے فلسطینی عوام کے اس حق پر زور دیا کہ وہ آبادکاروں کی ’دہشت گردی اور قابض افواج‘ کے خلاف اپنا دفاع کریں۔

Getty Imagesاسرائیلی انٹیلی جنس کی ’ناکامی‘

حماس کی جانب سے اسرائیل پر حملے کو اسرائیلی انٹیلیجنس ایجنسی کی ناکامی بھی قرار دیا جا رہا ہے۔

بی بی سی کے نامہ نگار فرینک گارڈنر کے مطابق اسرائیل کے پاس مشرق وسطیٰ میں سب سے زیادہ بڑی انٹیلی جنس سروسز موجود ہیں لیکن شین بیت، اسرائیلی انٹیلی جنس موساد، اس کی بیرونی خفیہ ایجنسی اور اسرائیلی دفاعی افواج حتیٰ کہ کوئی بھی حماس کی جانب سے داغے جانے والے ان میزائلوں اور حملے کے بارے میں جاننے میں ناکام رہا اوریہ امر انتہائی حیران کُن قرار دیا جا رہا ہے۔

نامہ نگار کے مطابق ان اداروں کے مخبر اور ایجنٹ فلسطینی عسکریت پسند گروہوں کے ساتھ ساتھ لبنان، شام اور دیگر جگہوں پر بھی موجود ہیں۔ انھوں نے ماضی میں عسکریت پسند رہنماؤں کا قتل عام کیا ہے اور وہ ان کی تمام نقل و حرکت کو قریب سے جانتے ہیں۔

اس کے علاوہ غزہ اور اسرائیل کے درمیان سرحدی باڑ کے ساتھ ساتھ کیمرے، گراؤنڈ موشن سینسر اور فوج کا باقاعدگی سے گشت بھی ہوتا ہے۔ خاردار تاروں کی باڑ کو اس حملے میں ہونے والی دراندازی کو روکنے کے لیے ایک ’سمارٹ بیریئر‘ سمجھا جاتا رہا ہے۔

اسرائیلی حکام نے بی بی سی کو بتایا کہ ’ایک بڑی تحقیقات شروع ہو چکی ہیں اور ان کا کہنا ہے کہ اس میں ہونے والے سوالات برسوں تک جاری رہیں گے۔‘

عالمی ردِ عمل Getty Images

فلسطین کے عسکریت پسند گروہ کی جانب سے اسرئیل پر ہونے والے حملے پر عالمی دُنیا کی جانب سے بھی رد عمل کا اظہار کیا گیا ہے۔

امریکی وزیر دفاع لائیڈ آسٹن نے فلسطینی عسکریت پسند گروہ حماس کی جانب سے اسرائیل پر کیے جانے والے حملوں کے بارے میں کہا ہے کہ امریکی محکمہ دفاع اس بات کو یقینی بنانے کے لیے کام کرے گا کہ اسرائیل کو اپنے دفاع اور شہریوں کو تشدد اور دہشت گردی سے بچانے کے لیے جس بھی قسم کی امداد کی ضرورت ہے وہ فراہم کی جائے گی۔

انھوں نے کہا کہ ’میں اسرائیل میں ہونے والی پیش رفت پر گہری نظر رکھے ہوئے ہوں۔ اسرائیل اپنے دفاع کا حق محفوظ رکھتا ہے اور اُس کے لیے ہماری حمایت اٹل ہے، اور میں گھناؤنے حملے میں اپنی جانیں گنوانے والوں کے اہل خانہ کے ساتھ تعزیت کا اظہار کرتا ہوں۔‘

فرانس کے صدر ایمنول میکرون نے اسرائیل پر ان حملوں کی شدید الفاظ میں مذمت کی اُنھوں نے ’ان حملوں میں نشانہ بننے والے لوگوں اُن کے اہل خانہ اور متاثرین کے ساتھ اظہار یکجہتی کیا۔‘

جرمنی کے وزیر خارجہ نے کہا کہ ’عام شہریوں کے خلاف راکٹ اور مزائل داغنے کے اس سلسلے کو فوری طور پر بند ہونا چاہیے۔‘

یورپی کمیشن کی چیئرمین نے اسرائیل پر ہونے والے اس حملے کو ’دہشت گردی کی ایک انتہائی گھناؤنی شکل قرار دیا۔‘

روسی نائب وزیر خارجہ کے مطابق ’یہ کہنے کی ضرورت نہیں ہے کہ ہم ہمیشہ تحمل کا مطالبہ کرتے ہیں۔‘

بین الاقوامی امدادی ادارے ریڈ کراس (آئی سی آر سی) نے تنازع میں شامل فریقین پر زور دیا ہے کہ وہ ’بین الاقوامی انسانی قوانین کے تحت اپنی قانونی ذمہ داریوں کا احترام کریں‘ اور اس بات کو یقینی بنائیں کہ شہریوں اور طبی عملے کا تحفظ کیا جائے۔

یورپی ڈپلومیسی کے سربراہ جوزف بوریل نے شہریوں کو یرغمال بنائے جانے کی خبروں کی مذمت کی ہے اور کہا ہے کہ ’یہ بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی ہے اور یرغمال بنائے جانے والوں کو فوری طور پر رہا کیا جانا چاہیے۔‘

حماس ٹی وی کا کہنا ہے کہ 5000 کے علاوہ مزید 2000 راکٹ فائر کیے گئے جن کا حماس کے چیف کمانڈر نے اس آپریشن کے آغاز میں اعلان کیا تھا۔

’ہم ڈھائی گھنٹے سے نان سٹاپ فائرنگ دیکھ رہے ہیں۔‘

آئی ڈی ایف کے ترجمان ڈینیئل ہیگاری نے کہا ہے کہ حماس کو جنگ کے اعلان کے بعد واقعات کے نتائج بھگتنا ہوں گے اور ان پر اس کی ذمہ داری عائد ہوگی۔

ان کے ایک ٹویٹ میں کہا گيا ہے کہ ’آئی ڈی ایف نے حالت جنگ میں الرٹ کا اعلان کیا ہے۔ غزہ سے اسرائیلی علاقے میں راکٹوں سے شدید فائرنگ شروع ہوئی اور دہشت گرد متعدد مختلف مقامات سے اسرائیلی حدود میں گھس آئے ہیں۔‘

’جنوب اور مرکز کے رہائشیوں کے لیے ضروری ہے کہ وہ محفوظ علاقوں کے قریب اور غزہ کی پٹی میں محفوظ علاقے میں ہوں۔ اس وقت، چیف آف سٹاف صورتحال کا جائزہ لے رہے ہیں اور انھوں نے آئی ڈی ایف کی سرگرمیوں کو جاری رکھنے کے منصوبوں کی منظوری دی ہے۔‘

https://twitter.com/IDFSpokesperson/status/1710521872964620365

انڈیا میں اسرائیل کے سفیر نور گیلن نے ٹویٹ کیا کہ ’اسرائیل یہودیوں کی تعطیل کے دوران غزہ کی جانب سے مشترکہ حملے کی زد میں ہے۔ حماس کے دہشت گردوں کی راکٹ اور زمینی دراندازی دونوں طرف سے حملہ ہے۔ صورت حال سادہ نہیں ہے لیکن اسرائیل غالب آئے گا۔‘

https://twitter.com/ANI/status/1710543182432452993

دی گارڈین کے مطابق غزہ میں حماس کے فوجی کمانڈر محمد ضیف نے ایک بیان میں مسجد اقصیٰ کو آزاد کرانے کے لیے ایک نئے آپریشن کے آغاز کا اعلان کیا ہے جہاں گذشتہ چند ہفتوں کے دوران یہودی زائرین کی تعداد میں اضافہ دیکھا گیا ہے۔ انھوں نے مزید کہا کہ اسرائیل کے خلاف حماس کی نئی کوششوں کا 'یہ صرف پہلا مرحلہ ہے۔‘

انھوں نے کہا: ’ہم نے دشمن کو متنبہ کیا کہ وہ مسجد اقصیٰ کے خلاف اپنی جارحیت کو ختم کرے۔۔۔ بغیر کسی جواب کے دشمن کی جارحیت کا دور اب ختم ہو گیا ہے۔ میں مغربی کنارے اور گرین لائن کے اندر ہر جگہ فلسطینیوں سے بلا روک ٹوک حملہ کرنے کی اپیل کرتا ہوں۔ میں ہر جگہ مسلمانوں سے حملہ کرنے کا مطالبہ کرتا ہوں۔‘

واضح رہے کہ سنہ 2007 میں جب سے اسلام پسند گروپ نے 42 مربع کلومیٹر کی پٹی پر قبضہ کیا ہے اس علاقے کے حکمرانوں اور اس کے دیگر فعال دھڑوں کے خلاف چار جنگیں اور کئی چھوٹی چھوٹی جھڑپیں ہو چکی ہیں اور اس چیز نے غزہ کے 23 لاکھ رہائشیوں کو تباہ کن نقصان پہنچایا ہے۔

اسرائیل کی ناکہ بندی کے بعد سے غزہ میں لوگوں کو نقل و حرکت کی آزادی بھی نہیں ہے، اور صحت کی دیکھ بھال، بجلی، صفائی اور دیگر اہم بنیادی ڈھانچے تباہ ہو چکے ہیں۔

مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More