Getty Images
امریکہ کے سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے دھوکہ دہی کے مقدمے کی سماعت کے دوران کمرہ عدالت میں اس کیس کی سماعت کرنے والے جج اور پراسیکیوٹر کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔
یاد رہے کہ اگر دھوکہ دہی کا یہ مقدمہ ثابت ہو گیا تو سابق صدر کی بڑی کاروباری سلطنت کو خطرہ لاحق ہو سکتا ہے۔
امریکہ میں سوموار کو ہونے والی اس سماعت میں صدر ٹرمپ رضاکارانہ طور پر شامل ہوئے تھے۔ وہ نیلے رنگ کے سوٹ میں ملبوس تھے اور کمرہ عدالت میں داخل ہوتے ہی انھوں نے اپنے خلاف مقدمہ دائر کرنے والے پراسیکیوٹر کو مکمل طور پر نظر انداز کیا اور اس کے سامنے سے گزر گئے۔
سماعت کے آغاز پر دونوں فریقین کی جانب سے اپنا اپنا مؤقف پیش کرنے کے دوران دوبارہ وہ دونوں آمنے سامنے نہیں ہوئے۔
اس دیوانی مقدمے میں سابق صدر، ٹرمپ آرگنائزیشن، ٹرمپ کی کمپنیوں کے متعدد ایگزیکٹیوز اور صدر ٹرمپ کے کے دو بچے، ڈونلڈ جونیئر اور ایرک، ملزمان ہیں۔ ان افراد اور اداروں پر دھوکہ دہی، کاروباری ریکارڈ میں جعل سازی، جھوٹے مالیاتی گوشوارے جاری کرنے اور سازش کا الزام ہے۔
سماعت کے دوران جب جج آرتھر اینگورون ریمارکس دیتے تو سابق صدر کبھی کبھار ان کی طرف دیکھ لیتے تھے۔
اس سے چند لمحے پہلے کمرۂ عدالت کے باہر ڈونلڈ ٹرمپ بلند آواز میں میڈیا کے نمائندوں سے بات کر رہے تھے تو ان کی آواز کمرہ عدالت میں گونچ رہی تھی اور اسی دوران انھوں نے اس کیس کی سماعت کرنے والے جج کو ’بدمعاش جج‘ کہہ کر بھی پکارا۔
نامہ نگاروں کو کورٹ روم کے باہر سیڑھیوں پر دیے گئے اس بیان میں مز جیمز کو بھی نہیں بخشا گیا۔
Getty Imagesسابق صدر ٹرمپ اپنی ٹیم کے ساتھ کورٹ روم میں
ٹرمپ نے اپنے خلاف کیس کے حوالے سے مزید کہا کہ ’یہ ایک دھوکہ ہے، یہ ایک فراڈ ہے۔ آپ جانتے ہی ہیں کہ میرے مالی گوشوارے شفاف اور غیر معمولی ہیں۔ یہ کوئی جرم نہیں تھا۔۔۔‘
میڈیا نمائندوں کے سامنے ٹرمپ کی جانب سے کیے گئے ذاتی حملوں کے بعد مبصرین کو کمرۂ عدالت میں کشیدگی کی توقع تھی لیکن اس کیس سے منسلک تینوں بڑی شخصیات، صدر ٹرمپ، کیس کی سماعت کرنے والے جج اور پراسیکیوٹر، کا ایک دوسرے سے براہ راست کم ہی سامنا ہوا۔
جب استغاثہ نے اپنا مقدمہ پیش کیا تو صدر ٹرمپ زیادہ تر خاموش رہے، البتہ سماعت کے دوران وہ کبھی کبھار اپنی قانونی ٹیم سے سرگوشی کرتے رہے۔
مز جیمز نے اپنی نظریں اس وکیل کی جانب رکھیں جو ایک ویژوئل پریزنٹیشن دے رہے تھے، اس کے ساتھ ہی ان کی ٹیم کے ابتدائی بیانات بھی تھے۔
ان کی ٹیم نے صدر ٹرمپ اور دیگر ملزمان پر جان بوجھ کر اور مسلسل دھوکہ دہی کا الزام لگاتے ہوئے کارروائی شروع کی اور کہا کہ یہ سب کرنے سے صدر ٹرمپ کو 100 ملین ڈالر کا فائدہ ہوا۔
گذشتہ ہفتے جج اینگورون نے مقدمے کے مرکزی دعوے میں مسٹر ٹرمپ کے خلاف فیصلہ سنایا تھا، جس میں کہا گیا کہ انھوں نے بینکوں سے قرضے حاصل کرنے کے لیے اپنی جائیدادوں کی مالیت کو بڑھا چڑھا کر پیش کیا۔
یہ بھی پڑھیے
’ٹرمپ نے گرفتاری کا جھوٹا دعوی کیا‘
ٹرمپ نے اپنے خلاف مقدمے کو صدارتی انتخاب میں مداخلت قرار دے دیا
ڈونلڈ ٹرمپ کو ریپ کے الزام میں مقدمے کا سامنا
مسٹر ٹرمپ کے وکلا نے اس کے فورا بعد اپنا موقف پیش کیا جس میں انھوں نے نیویارک کے اٹارنی جنرل کے دلائل کو تنقید کا نشانہ بنایا۔ ٹرمپ کی وکیل علینہ حبہ نے کہا کہ اٹارنی جنرل کے طور پر مز جیمز کا مقصد ’کام پر آنا، ٹرمپ کو زیر کرنا اور گھر جانا‘ تھا۔
انھوں نے دعویٰ کیا کہ مسٹر ٹرمپ نے فلوریڈا میں اپنے ریزورٹ سمیت کسی بھی اثاثے کی قیمت بڑھا چڑھا کر پیش نہیں کی۔
انھوں نے کہا کہ ریل سٹیٹ ایک فلیکسیبل شعبہ ہے اور اُن کی جائیدادیں ’مونا لیزا‘ کی طرح نادر تھیں (یعنی بہت قیمتی تھیں) اور انھیں ریزورٹ کی فروخت سے کم از کم ایک ارب ڈالر مل سکتے ہیں۔
لیکن دوپہر کے کھانے سے پہلے کارروائی تیزی کے ساتھ ترش ہونے لگی۔
Reuters
مسٹر ٹرمپ کے وکیل کرس کائس نے جج اینگورون کے ساتھ ان مسائل کے بارے میں بحث کی کہ آيا ماہرین کی رائے کو گواہی کے طور پر شمار کیا جا سکتا ہے۔
اور مز جیمز پر حبہ کے حملوں نے جج اینگورون کا غصہ دلا دیا۔ جج نے کہا کہ وہ پہلے ہی ان دعوؤں کو مسترد کر چکے ہیں کہ مقدمہ سیاست سے متاثر تھا۔
عدالت میں دوپہر کے بعد کے حالات پرسکون ثابت ہوئے۔ ٹرمپ کے سابق اکاؤنٹنٹ ڈونلڈ بینڈر نے اٹارنی جنرل کے دفتر سے بلائے جانے والے پہلے گواہ کے طور پر گواہی دی۔
مسٹر بینڈر نے کہا کہ انھوں نے ٹرمپ کے ٹیکس کے گوشواروں پر کام کیا ہے اور مسٹر ٹرمپ کے کارپوریٹ اداروں کے لیے اکاؤنٹنگ کا کام مکمل کیا ہے۔
انھوں نے گذشتہ سال مین ہٹن میں ٹرمپ آرگنائزیشن کے خلاف ایک مجرمانہ مقدمے میں گواہی دی تھی اور یہ دعویٰ کیا کہ کمپنی نے بونس اور دیگر لگژری فوائد کے ذریعے ٹیکس سے بچنے کی کوشش کی۔
سوموار کو ان کی دو گھنٹے کی گواہی زیادہ تر ٹرمپ آرگنائزیشن کے لیے ان کے کام کے بارے میں تکنیکی سوالات پر مرکوز تھی اور تین ماہ کے طویل مقدمے کا پہلا دن ان کی گواہی پر ہی ختم ہوا۔
کیس کا فیصلہ جج اینگورون کریں گے نہ کہ جیوری۔
مجرم ثابت ہونے پر کسی بھی ملزم کو جیل کا سامنا نہیں کرنا پڑے گا کیونکہ یہ فواجداری کے بجائے ایک دیوانی مقدمہ ہے۔
مز جیمز ہرجانے کے طور پر 250 ملین امریکی ڈالر کے ساتھ ٹرمپ پر نیویارک ریاست میں کاروبار کرنے پر پابندی چاہتی ہیں۔
اس بات کا بھی امکان ہے کہ مسٹر ٹرمپ کچھ ایسی جائیدادیں کھو سکتے ہیں جو ان کے برانڈ کا چہرہ ہے۔
اور داؤ پر اس سے زیادہ کیا ہو سکتا ہے۔