مال بردار ٹرین کی چھت پر دردِ زہ میں مبتلا ہونے والی خاتون جو امریکہ میں بچے کو جنم دینا چاہتی تھیں

بی بی سی اردو  |  Oct 02, 2023

یوہاندری پچیکو جب ٹرین پر سوار ہوئیں تو وہ ساڑھے آٹھ ماہ کی حاملہ تھیں۔ ٹرین پر سوار ہوتے وقت اُن کے پیٹ میں ہلکا سا درد تھا۔

اور یہاں ٹرین پر سوار ہونے کا مطلب یہ نہیں کہ وہ مسافر ٹرین کی کسی بوگی کے دروازے سے اندر داخل ہو کر کسی آرام دہ سیٹ پر بیٹھیں تاکہ راستے میں آنے والے دلفریب نظاروں سے لطف اندوز ہو سکیں۔

درحقیت وہ ایک مال بردار ٹرین کی چھت پر بوگی کے ساتھ لگی سیٹرھیاں چڑھ کر پہنچی تھیں۔ یہ مال بردار ٹرین پرانے میکسیکن ریلوے نظام کی ٹرین تھی جسے ’لا بستیا‘ کہا جاتا تھا۔

ٹرین کی چھت پر سوار ہونے کے بعد وینزویلا سے تعلق رکھنے والی 23 سالہ یوہاندری تھک چکی تھیں۔ اس ٹرین پر سوار ہونے کے لیے انھوں نے اپنے پارٹنر جوز گریگوریو اور چار سالہ بیٹے گیل کے ساتھ ایک پُل پر پانچ دنوں کا انتظار کیا تھا۔

دوسرے مسافروں نے بتایا کہ اس ٹرین کو ’ایل بولیچیرو‘ بھی کہا جاتا ہے کیونکہ اس کی چھت پر چھوٹی دھاتی گیندیں نصب ہوتی ہیں جنھیں انھوں نے سفر کے دوران کارڈ بورڈ سے ڈھک دیا تھا تاکہ بیٹھنے میں آسانی ہو۔

یوہاندری اور ان کے پارٹنر نے مال بردار ٹرین کی چھت پر سوار ہونے سے قبل کافی تعداد میں گتے کے ڈبے جمع کیے تھے۔

یوہاندری، اپنے پارٹنر اور بیٹے گیل کے ساتھ ڈیڑھ ماہ تک درجن بھر ممالک کا سفر کرتی ہوئی یہاں تک پہنچی تھیں اور ان کی خواہش تھی کہ پیٹ میں موجود ان کے بچے کی پیدائش امریکہ کی سرحدی حدود میں ہو۔

یوہاندری نے کہا کہ ’ایک دوست نے مجھے بہت ڈرایا اور کہا کہ اگر میرے بچے کی پیدائش میکسیکو میں ہوئی تو انتظامیہ مجھے واپس گوئٹے مالا کی سرحد پر بھیج دے گی اور پھر میرے نوزائیدہ بچے کو گوئٹے مالا کے شہری کے طور پر رجسٹر کروایا جائے گا۔‘

یوہاندری نے وسطی میکسیکو میں سیاحوں کی ایک پناہ گاہ ’اگواسکالینٹس‘ میں ہم سے بات کرتے ہوئے یہ باتیں بتائیں۔

’میں بچے کی پیدائش کے لیے ہسپتال جانے اور وہاں سے امیگریشن حکام کے ذریعے واپس اپنے ملک بھیجے جانے سےڈر رہی تھی۔‘

وہ مال بردار ٹرین جمعہ 25 اگست کی آدھی رات کو ایرپواتو پہنچی۔ جس ڈاکٹر نے یوہاندری کا آخری معائنہ کیا تھا انھوں نے بتایا تھا کہ بچے کی پیدائش میں ابھی 12 دن باقی تھے۔

Getty Imagesمال بردار ٹرین کی چھت پر سفر’اپنے ملک جاؤ‘

یوہاندری لاس ایڈجنٹاس میں پلی بڑھی تھیں جو کراکس کے جنوب مغرب میں واقع ایک مشہور جگہ ہے۔ جب وہ 18 سال کی ہوئیں تو پہلے وہ پیرو نقل مقانی کر گئیں۔ اس دوران نہ تو انھوں نے اپنی تعلیم مکمل کی اور نہ ہی اُن کے پاس کسی کام کا کوئی تجربہ تھا۔

یوہاندری کہتی ہیں کہ ’میں دنیا کو اپنے انداز اور سوچ کے مطابق دیکھنا چاہتی تھی۔ میس سب کچھ اپنے بل بوتے پر حاصل کرنا چاہتی تھی۔‘

یوہاندری کو پیرو میں جوتوں کی دکان میں کلرک کے طور پر پہلی ملازمت ملی۔ یوہاندری کہتی ہیں کہ ’کچھ گاہک ان سے کہتے کہ ’تم اپنے ملک واپس چلی جاؤ۔ وینزویلا کے لوگ یہاں اچھا برتاؤ نہیں کرتے۔‘ یوہاندری کچھ نہ سننے کا بہانہ کرتیں اور لوگ وہاں سے چلے جاتے۔‘

جوتوں کی دکان پر ہونے والی تذلیل کو یاد کرتے ہوئے یوہاندری کہتی ہیں کہ ’اس طرح کے تبصروں کا مجھ پر کوئی اثر نہ ہوا۔ میں نے اپنے کام سے کام رکھا اور جدو جہد جاری رکھی۔‘

یوہاندری نے پیرو میں اپنے پہلے بچے گیل کو جنم دیا۔

لیکن پھر سنہ 2021 کے وسط میں حالات بدل گئے۔ مہنگائی کی شرح میں اضافہ ہوا اور ان کی تنخواہ گھر کا کرایہ ادا کرنے اور کھانے کے اخراجات پورے کرنے کے لیے ناکافی ہو گئی۔

یوہاندری کی جیب میں صرف 100 ڈالر رہ گئے تھے مگر وہاپنے خاندان کے پاس واپس نہیں جانا چاہتی تھیں۔

پیرو سے وہ سینٹیاگو آ گئیں۔ یوہاندری کو سینٹیاگو کے ایک چھوٹے سے ہسپتال میں صفائی کرنے کا کام ملا۔ وہ کپڑے بھی فروخت کرنے لگیں اور ساتھ شراب خانے میں بھی کام کرتیں۔ جب انھیں لگا کہ وہ مالی طور پر مستحکم ہو چُکیں ہیں تو انھوں نے ایک بڑا مکان کرائے پر حاصل کر لیا۔ یوہاندری کو خدشہ تھا کہ حالات انھیں لاس ایڈجنٹاس واپس جانے پر مجبور کر دیں گے۔

گزرے وقت کو یاد کرتے ہوئے یوہاندری کہتی ہیں کہ ’میں نے چلی چھوڑنے کا فیصلہ اس وقت کیا جب میں سات ماہ کی حاملہ تھی۔ میرے پیٹ میں بچہ تھا اور ایسی حالت میں دونوں ہاتھوں اور پیروں سے درخت کو پکڑ کر دریائے ڈیرین کوعبور کرنا پڑا تھا۔‘

’وہ وقت میرے سفر کے مُشکل ترین حصوں میں سے ایک تھا۔ اپنے پہلے بچے کو اپنی بانہوں میں لے کر دریا کو عبور کرنا ناممکن نظر آتا تھا۔‘

Getty Images’ہر کوئی آپ کا سامان چرانا چاہتا ہے‘

یوہاندریاور ان کے ساتھی کے پاس بیٹے گیل کے ہمراہ چلی سے پیرو، کولمبیا، پاناما، کوسٹا ریکا، نکاراگوا، ہونڈوراس، گوئٹے مالا اور میکسیکو ہوتے ہوئے امریکہ پہنچنے کے لیے صرف 700 ڈالر تھے۔

انھوں نے چلی سے پاناما اور ڈیرین گیپ کی سرحد پر واقع کولمبیا کے شہر کیپورگانا تک پہلے مرحلے کے دوران بس کے ذریعے سفر کیا۔ یہ ڈیرین گیپ کے مرکزی داخلی راستوں میں سے ایک ہے۔

ڈیرین گیپ ایک پیچیدہ جنگل ہے اور سنہ 2023 کے پہلے چھ مہینوں میں تقریباً 249,000 لوگ وہاں پہنچے تھے جو کہ پاناما کے حکام کی جانب سے ریکارڈ کیے گئے لوگوں کی سب سے زیادہ تعداد ہے۔

ڈیرین گیپ کے سفر کے دوران کئی بچوں کو بخار، قے اور جسم پر چھالے پڑ گئے۔ یہ سب دیکھ کر یوہاندری حمل کے ساتھ ہی سفر کرنے کے اپنے فیصلے سے مطمئن ہو گئیں۔ انھیں نے کبھی سوچا بھی نہیں تھا کہ انھیں میکسیکو میں سب سے بڑی مشکل کا سامنا کرنا پڑے گا۔

یہ بھی پڑھیے

کینیڈا جانے والے تارکین وطن: ’جو سلوک، سکیورٹی اور تحفظ یہاں ملا، وہ شاندار ہے‘

امریکہ اور میکسیکو کی سرحد پر تعینات وہ اہلکار، جسے اپنی ہی ملک بدری کے خلاف مقدمہ لڑنا پڑا

وہ کہتی ہیں کہ ’ڈیرین میں آپ دریا سے پانی پی سکتے ہیں اور درخت کے سائے میں پناہ لے سکتے ہیں، لیکن میکسیکو میں ہمیں دن میں پانچ سے چھ گھنٹے تیز دھوپ میں چلنا پڑتا تھا۔ ہر کوئی آپ کے پاس موجود اشیا چرانا چاہتا ہے، آپ کو دھوکہ دینا چاہتا ہے۔‘

’ہم نے بس سے آگے بڑھنے کی کوشش کی، لیکن پولیس نے ہر بار ہمیں پکڑ لیا، کیونکہ ہمارے پاس قانونی کاغذات نہیں تھے۔‘

تقریبا ڈیڑھ ماہ کے سفر کے بعد ایل بولیرو مال بردار ٹرین پر سوار ہونا اور امریکہ میں داخل ہونا سفر کا آخری مرحلہ تھا۔

کارڈ بورڈ پر وارننگ

یوہاندری اور جوز گریگوریو نے گتے کے ٹکڑوں کو ٹرین کے چھت پر رکھا اور اپنے بیٹے گیل کو اُن کے درمیان لٹا دیا۔

صبح دو بجے یوہاندری پیٹ میں درد کی وجہ سے بیدار ہوئیں، حالانکہ بچے کی ولادت میں ابھی 12 دن باقی تھے۔

جب یوہاندری اپنے پہلے بچے کو جنم دینے والی تھیں تو اُس وقت ہونے والی لیبر پینز کے ساتھ وہکمر کے درد میں بھی مبتلا ہوئی تھیں۔ اس بار صرف پیٹ میں درد تھا۔ تو انھوں نے سمجھا کہ یہ درد ٹرین کے طویل سفر کی تھکاوٹ کا نتیجہ ہے۔

تاہم، وقت کے ساتھ ساتھ پیٹ کے اندر دباؤ اور شدت میں اضافہ ہونے لگا۔ یوہاندری نے اپنے ساتھی سے مدد کے لیے فوراً فون کرنے کو کہا۔ اب ان کا بچہ ’میا‘ دنیا میں آنے والا تھا۔

جوز گریگوریو نے وہ گتے کا ٹُکڑا اُٹھایا جس میں وہ سوئے ہوئے تھے، یہ صبح پانچ بجے کا وقت تھا، انھوں نے اُس گتے کے ٹُکڑے پر لکھا کہ ’ایک بچہ پیدا ہونے والا ہے۔ اس کی اطلاع فوری طور پر ٹرین ڈرائیور کو دی جائے۔‘

اس نے گتے کو آگے والے مسافر کے حوالے کیا اور کہا کہ ایک سے دوسرے کے ہاتھوں اسے ٹرین ڈرائیور تک پہنچا دیں۔

’تیار ہو جاؤ میری جان‘

ابھی کچھ لوگ حملہ خاتون کی مدد کے لیے پکار رہے تھے کہ ایسے میں یوہاندری اور جوز گریگوریو نے ٹرین کے پہلے ڈبے کی چھت سے ایک فرد کو اپنی جانب آتے دیکھا۔

یہ شخص وینزویلا سے تعلق رکھنے والے طبی معاون تھے۔ وہ بھی امریکہ میں داخل ہونے کی کوشش میں اس ٹرین میں سوار تھے۔ انھوں نے اپنی بیوی سے، جو کہ ایک نرس تھیں، موبائل فون کے ذریعے رابطہ کیا تاکہ وہ اُن سے رہنمائی لے کر یوہاندری کی مدد کر سکیں۔

یوہاندری کو یاد ہے کہ نرس اپنے شوہر سے فون کے لاؤڈ سپیکر پر کہہ رہی تھیں کہ ’تیار ہو جاؤ، میری جان، الکحل تیار کرو۔‘

طبی معاون کے اندازے کے مطابق درد پہلے ہر تین منٹ کے بعد ہو رہا تھا تاہم بعد میں یہ وقت کم ہو کر تین سے دو منٹ پر آ گیا۔ یوہاندری اس درد پر قابو نا رکھ پائیں اور قے کرنا شروع ہو گئیں۔ وہ اپنی بیٹی میا کو ٹرین کی گندی، گرم چھت پر جنم نہیں دینا چاہتی تھی۔

انھیں الکحل، قینچی اور ایک کمبل مل گيا، تاکہ نومولود بچی کے جسم کو گندے گتے کے ٹکڑے کے ساتھ لگنے سے بچایا جا سکے۔ یہ جان کر کہ اب ان کی بیٹی میکسیکو میں ٹرین کی چھت پر پیدا ہو گی، یوہاندری نے ہار مان لی۔

ہوز نے گریگوریو کو بتایا کہ طبی معاون کو یوہاندری کو پیچھے سے پکڑنا چاہیے اور بچے کو نیچے لانے کے لیے پیٹ کو آہستگی اور نرمی سے دبانا چاہیے۔

Getty Imagesبوگی کی چھت پر جانے کے لیے ’وہ اس ٹرین میں نہیں آئیں‘

صبح سات بجے ’ایجنڈا مائگرانٹے ایسوسی ایشن‘ کی کارکن اور وکیل ’پاؤلا ندائن کورٹیس‘ نے ایک پوسٹر کی تصویر دیکھی جس میں جوز گریگوریو نے مدد کی التجا کی تھی۔

وکیل پاولا نے کہا کہ ’ہمارا خیال تھا کہ فوری مدد ملے اور یوہاندری کو بچایا جائے۔ کیونکہ وہ مجھے ویڈیوز بھیج رہے تھے اور یوہاندری کی حالت بہت خراب لگ رہی تھی۔‘

ٹرین کمپنی نے پاؤلا کا اُس ٹرین کے ڈرائیور سے رابطے کروایا۔

پاؤلا کہتی ہیں کہ ’میں نے انھیں ایک تصویر بھیجی، تاکہ وہ ٹرین کا نمبر دیکھ سکیں۔ پھر ڈرائیور نے مجھے بتایا کہ یوہاندری ہماری ٹرین میں نہیں، بلکہ ہم سے آگے والی ٹرین میں ہیں۔‘

ڈرائیور نے دوسری ٹرین کے ڈرائیور سے رابطہ کیا اور وہ اگواسکیلنٹس پر ٹرین کو دس منٹ کے لیے روکنے پر رضامند ہو گئے۔

وکیل پاؤلا نے کہا کہ ’ڈرائیور نے واضح کر دیا کہ ٹرین صرف 10 منٹ کے لیے ہی رکے گی۔ اگر 10 منٹ کے اندر یوہاندریکو ٹرین سے نہیں اتارا گیا تو ٹرین پھر سے چل پڑے گی۔‘

ٹرین کو اگواسکیلنٹس شہر سے تقریباً 108 کلومیٹر کے فاصلے پر لاس اریلانوس کی کمیونٹی میں روک دیا گیا، لیکن کسی وجہ سے ہنگامی ٹیم 10 منٹ میں اس تک نہیں پہنچ سکی۔

آدھے گھنٹے کے بعد یوہاندری کو لگا کہ وہ مزید درد برداشت نہیں کر سکتیں کہ اس وقت ٹرین رک گئی۔

پاؤلا نے فیرومیکس سے شہری تحفظ اور فائر فائٹرز کی مدد سے یوہاندری کو ٹرین سے اتارنے کی اجازت حاصل کی۔ انھوں نے کہا کہ ’ٹرین کی بوگیاں بہت اونچی ہیں۔ اس لیے آپ کو یوہاندری کو اتارنے کے لیے بہت احتیاط سے کام لینا ہو گا۔‘

’امریکہ جانے کا ارادہ ترک نہیں کیا ہے‘

بہرحال لائف گارڈز، فائر فائٹرز اور ریلوے کمپنی کے ایک ڈاکٹر وہاں پہنچے۔ وہ ٹرین کی چھت پر چڑھ گئے۔ انھوں نے یوہاندری کو سٹریچر پر باندھ دیا۔ کئی تارکین وطن نے یوہاندری کو سیڑھیوں سے نیچے لے جانے والے سٹریچر کو پکڑنے میں اُن کی مدد کی۔ یہ وہی سیڑھی تھی جس سے یوہاندری ٹرین کی چھت پر چڑھی تھیں۔

وکیل پاؤلا کے مطابق اراپواتو سے ٹرین تک کا حصہ جسے سنٹرل روٹ کہا جاتا ہے ان مہاجروں سے بھرا ہوا ہوتا ہے جو میکسیکو کو عبور کر کے امریکہ جانا چاہتے ہیں۔

انھوں نے کہا کہ ’رواں سال خلیجی روٹ کی وجہ سے اس میں بہت زیادہ اضافہ ہوا ہے۔ خلیجی روٹ ٹرین کا مختصر ترین راستہ ہے اور اسے غریب ترین لوگ استعمال کرتے ہیں۔ اس میں جرائم کی شرح بھی زیادہ ہے۔‘

ٹرین میں سفر کرنے والے مسافروں کی تعداد میں اضافے کے پیش نظر فیرو میکس کمپنی نے 19 ستمبر کو 60 ٹرینوں کو معطل کر دیا تھا تاکہ سفر کے دوران حادثات سے بچا جا سکے۔

یوہاندری کو ایمبولینس کے ذریعے اگواسکیلنٹس کے پابیلون ڈی آرٹیگا جنرل ہسپتال لے جایا گیا۔ ڈاکٹروں نے کہا کہ یوہاندری کا سروکس پانچ سینٹی میٹر تک پھیل گیا ہے۔ وہ ولادت کے آخری مراحل میں تھیں۔

میا کا جمعہ 25 اگست 2023 کی سہ پہر جنم ہوا۔

وکیل پاؤلا اور نیشنل امیگریشن انسٹیٹیوٹ آف میکسیکو کے حکام نے یوہاندری سے ملاقات کی اور یقین دلایا کہ ان کی بیٹی کو میکسیکو کی شہریت دی جائے گی اور یہ خاندان قانونی طور پر میکسیکو میں رہ سکے گا۔

یوہاندری کہتی ہیں کہ 'میں بہت خوش ہوں کہ میری بیٹی اور خاندان سب ایک ساتھ ہیں۔ ہم میکسیکو میں رہ سکتے ہیں، لیکن میں نے اب بھی امریکہ جانے کی خواہش ترک نہیں کی ہے۔‘

مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More