آپریشن ’فائنل‘ سے ’رتھ آف گاڈ‘ تک: اسرائیلی خفیہ ایجنسی کی کارروائیاں جنھوں نے دنیا کو حیران کیا

بی بی سی اردو  |  Sep 29, 2023

Getty Imagesایلی کوہن

رواں سال 18 جون کو خالصتان کے حامی رہنما ہردیپ سنگھ نجر کو کینیڈا کے صوبے برٹش کولمبیا کے شہر سرے میں قتل کر دیا گیا تھا۔

اس کے بعد ملک کے وزیر اعظم جسٹن ٹروڈو نے پارلیمنٹ میں اس قتل کے پیچھے انڈین ایجنسیوں کے ہاتھ ہونے کا امکان ظاہر کیا تاہم انڈیا نے نہ صرف ایسے تمام الزامات کو بے بنیاد قرار دیا بلکہ اس قتل میں کسی بھی کردار سے انکار کیا ہے۔

یہ پہلا موقع نہیں جبکسی ملک نے دوسرے کسی ملک پر انٹیلیجنس آپریشنز کا الزام لگایا گیا ہو۔ ماضی میں انڈیا اور پاکستان کئی بار ایک دوسرے پر انٹیلیجنس مشن کے تحت مختلف سرگرمیاں کرنے کا الزام بھی لگا چکے ہیں۔

ایسے مشنز پر بات کی جائے اور اسرائیل کی خفیہ ایجنسی موساد کا ذکر نہ ہو ایسا ممکن ہی نہیں۔

تو آئیے موساد کے پانچ خطرناک مشنز کے بارے میں بات کرتے ہیں جو دنیا کے مختلف ممالک میں کیے گئے۔

1960: ’آپریشن فائنل‘Getty Imagesلیفٹیننٹ کرنل ایڈولف ایڈولف ایکمان ایک طویل عرصے تک ہٹلر کی بدنام زمانہ ریاستی خفیہ پولیس ’گسٹاپو‘ میں ’جیوئش ڈیپارٹمنٹ‘ کے سربراہ رہے

سنہ 1957 میں مغربی جرمنی کی ریاست ہیسے کے چیف پراسیکیوٹر فرٹز باؤر نے اسرائیل کی خفیہ ایجنسی موساد سے رابطہ کر کے اطلاع دی کہ ایڈولف ایکمان زندہ ہیں اور ارجنٹائن میں واقع ایک خفیہ اڈے میں مقیم ہیں۔

لیفٹیننٹ کرنل ایڈولف ایکمان ایک طویل عرصے تک ہٹلر کی بدنامِ زمانہ ریاستی خفیہ پولیس ’گسٹاپو‘ میں ’جیوئش ڈیپارٹمنٹ‘ کے سربراہ رہے۔ ان کے دور میں ’فائنل سلوشن‘ (یعنی آخری حل) کے نام سے یہودیوں پر ظلم پر مبنی ایک انتہائی خطرناک پروگرام شروع کیا گیا۔

اس پروگرام کے تحت جرمنی اور دیگر ہمسایہ ممالک میں مقیم ہزاروں یہودی شہریوں کو ان کے گھروں سے حراستی کیمپوں میں لے جا کر قتل کرنے کا سلسلہ شروع کیا گیا۔

سنہ 1933 اور سنہ 1945 کے درمیان نازی جرمن حکومت اور ان کے حامیوں کی طرف سے ہولوکاسٹ کے تحتتقریبا 40 لاکھ سے زائد یورپی یہودیوں پر ریاستی سرپرستی میں منظم طور پر ظلم و ستم کا سلسلہ شروع ہوا اور انھیں قتلکیا گیا۔

دوسری عالمی جنگ میں جرمنی کی شکست کے بعد ایڈولف ایکمان کو تین بار پکڑنے کی کوشش کی گئی تاہموہ ہر بار گرفتاری سے بال بال بچ نکلتے۔

فریٹز بوور کو ارجنٹینا میں ایڈولف ایکمان مین کے قیام کی خبر وہاں رہنے والے ایک مقامی یہودی سے ملی جن کی بیٹی اور ایڈولف کے بیٹے کے درمیانافیئر چل رہا تھا۔

ابتدا میں اسرائیلی خفیہ ایجنسی موساد نے ان معلومات کو زیادہ سنجیدگی سے نہیں لیا تھا لیکن بعد میں جب انھوں نے اس کی اپنے طریقے سے چھان بین کی تو انھیں اس کی حقیقت پر یقین آ گیا۔

چارلس ریورس اپنی کتاب ’دی کیپچر اینڈ ٹرائل آف ایڈولف ایکمن‘ میں لکھتے ہیں کہ ’ایڈولف ایکمان بھلے ہی لیفٹیننٹ کرنل کے عہدے کے افسر رہے ہوں تاہم نازی دور میں ان کا رتبہ کسی جنرل سے کم نہ تھا۔ اس عہدے پر رہتے ہوئے وہ ہٹلر کی سب سے قریبی ساتھیوں کو براہ راست رپورٹ کیا کرتے تھے۔‘

ارجنٹائن میں ایکمان کے روپوش ہونے کی خبر کی تصدیق ہونے کے بعد اسرائیل کے موساد کے سربراہ نے رفیع ایتان کو اس مشن کا کمانڈر مقرر کیا اور انھیں احکامات جاری کیے گئے کہ ایجنٹ انھیں زندہ پکڑ کر اسرائیل واپس لانے کی کوشش کریں گے۔

موساد کی ٹیم نے بیونس آئرس میں ایک گھر کرائے پر لیا، جسے خفیہ رکھنے کے لیے ’کیسل‘ کا نام دیا گیا۔

اسی دوران یہ بات سامنے آئی کہ ارجنٹائن 20 مئی کو اپنی آزادی کی 150 ویں سالگرہ منائے گا۔ اس خبر کے سامنے آنے پر یہ فیصلہ کیا گیا کہ اسرائیل بھی وزیر تعلیم عبا ابن کی قیادت میں ایک وفد ارجنٹینا بھیجے گا۔

انھیں وہاں لے جانے کے لیے اسرائیل کی ایئرلائن نے اپنے خصوصی طیارے ’وسپرنگ جائنٹ‘ کا انتظام کیا۔

اس حوالے سے ایک منصوبہ تیار کیا گیا جس میں طے پایا کہ اسرائیلی وزیر تعلیم کے علم میں لائے بغیر ایکمان کو اغوا کر کے اس طیارے میں واپس اسرائیل لایا جائے۔

ایکمان ہر شام تقریباً سات بج کر 40 منٹ پر بس نمبر 203 کے ذریعے گھر واپس آتے اور پھر اپنے گھر پہنچنے کے لیے تھوڑا فاصلہ پیدل طے کیا کرتے تھے۔

اس معمول کو مد نظر رکھتے ہوئے منصوبہ بنایا گیا کہ اس آپریشن میں دو کاریں حصہ لیں گی اور انھیں ایک کار میں اغوا کر لیا جائے گا۔ ایکمان کو بس سے اترتے ہی اغوا کر لیا گیا۔

20 مئی کی رات ایکمان کو اسرائیلی ایئرلائن کے کارکن کا لباس پہنایا گیا تھا۔ زیف ذکرونی کے نام سے ایک جعلی شناختی کارڈ ان کی جیب میں رکھا گیا اور اگلے دن ان کا طیارہ تل ابیب میں اُترا۔

یہ خبر ان کے اسرائیل پہنچنے کے دو دن بعد دنیا کے سامنے رکھی گئی۔ کئی ماہ تک چلنے والے مقدمے میں 15 کیسز میں قصوروار پائے جانے کے بعد انھیں بلآخر موت کی سزا سنائی گئی۔

آپریشن ’رتھ آف گاڈ‘Getty Images

سال 1972 کا تھا اور جرمنی میں میونخ اولمپکس کھیلوں کے مقابلے جاری تھے۔ پانچ ستمبر کی رات کو میونخ اولمپک ویلیج میں اسرائیلی کھلاڑی اپنے فلیٹ میں سو رہے تھے کہ اچانک پوری عمارت مشین گنوں کی آوازوں سے گونج اٹھی۔

’بلیک ستمبر لبریشن آرگنائزیشن‘ کے آٹھفلسطینی جنگجو کھلاڑیوں کے لباس پہن کر اپارٹمنٹ میں داخل ہوئے اور اندھا دھند فائرنگ کر دی جس کے نتیجے میں 11 اسرائیلی کھلاڑی اور ایک جرمن پولیس اہلکار ہلاک ہو گئے۔

اس واقعے کے صرف دو دن بعد اسرائیل نے شام اور لبنان میں پی ایل او کے 10 ٹھکانوں پر بمباری کر کے انھیں تباہ کر دیا۔

کئی سال بعد جاری ہونے والی اسرائیلی پارلیمانی کمیٹی کی رپورٹ میں اس بات کا ذکر ہے کہ اسرائیل نے اس وقتدراصل کیا کرنے کا منصوبہ بنایا تھا۔

رپورٹ کے مطابق اس وقت کی اسرائیل کی وزیر اعظم گولڈا میر نےجوابی کارروائی کے لیے ’کمیٹی‘ تشکیل دی تھی جس کے انچارج موساد کے اس وقت کے سربراہ تھے۔

سائمن ریو کی کتاب ’ون ڈے ان ستمبر‘ میں بتایا گیا ہے کہ کس طرح اسرائیل نے اس آپریشن کی تیاری میں ایک طویل وقت صرف کیا تھا تاکہ دنیا کے کسی بھی حصے میں چھپے میونخ کے حملہ آوروں کا پتہ چل سکے۔

اس وقت کے موساد کے سربراہ سائمن ریو لکھتے ہیں کہ ’16 اکتوبر 1972 کو ایجنٹس نے پی ایل او اٹلی کے نمائندے عبدل وائل زویتر کو روم میں ان کے گھر میں گولی مار کر ہلاک کر دیا جو ایک طویل عرصے سے جاری مبینہ اسرائیلی انتقامی کارروائی کا آغاز تھا۔‘

اس کے بعد 9 اپریل 1973 کو موساد نے بیروت میں ایک مشترکہ آپریشن شروع کیا جس میں اسرائیلی کمانڈوز میزائل کشتیوں اور گشت کرنے والی کشتیوں میں رات کو لبنان کے ایک سنسان ساحل پر پہنچے۔

اگلی دوپہر تک ’بلیک ستمبر لبریشن آرگنائزیشن‘ کے روح رواں اور الفتح کے انٹیلیجنس ونگ کے سربراہمحمد یوسف (یا ابو یوسف)، کمال عدوان اور پی ایل او کے ترجمان کمال ناصر ہلاک ہو چکے تھے۔

بعض ماہرین کا یہ بھی خیال ہے کہ اسرائیل نے یہ کارروائی اگلے پانچ سال تک جاری رکھی۔

شام پر موساد کی گرفت

شام اور اسرائیل کے تعلقات 1960 کی دہائی میں خاصے خراب تھے۔ اسرائیل کی شمالی سرحد پر رہنے والی آبادیوں کو گولان کی پہاڑیوں پر شامی فوج کی طرف سے بار بار دھمکیاں مل رہی تھیں جس سے اسرائیل میں بے چینی بڑھ رہی تھی۔

شام میں اسرائیل کے خلاف بنائے جانے والے خفیہ سیاسی اور فوجی منصوبوں کا پتہ لگانے اور صحیح خبریں نکالنے کے لیے شام کے اندر ایک ایجنٹ کی ضرورت تھی اور اس کے لیے بلاآخر ایک شخص کو تلاشکر لیا گیا۔

مصر میں پیدا ہونے والے ایلی کوہن شامی نژاد یہودیوں کے بیٹے تھے۔ ایلی کوہن نے اس سے قبل اسرائیلی خفیہ ایجنسی میں ملازمت حاصل کرنے کی کوشش کی تھی لیکن دونوں بار انھیں مسترد کر دیا گیا تھا۔

تاہم 1960 میں موساد نے ایلی کوہن کو بطور جاسوس بھرتی کرنے کا فیصلہ کیا اور انھیں جاسوسی کی تربیت دینا شروع کر دی۔

اس کے بعد ایلی کوہن کو شامی والدین کے ہاں پیدا ہونے والے ایک کامیاب بزنس مین کے طور پر اپنی نئی شناخت بنانے کے لیے ارجنٹائن بھیجا گیا۔

وہاں انھوں نے خود کو شامی تارکین وطن کی بہت سی تنظیموں اور گروپوں میں شامل کروا لیا۔

اس دوران ایلی کوہن نے جہاںسفارتکاروں، سیاست دانوں اور اعلیٰ فوجی افسران سے دوستی کی، وہیں ان کا دوست ایسا شخص بھی بنا جو بعد میں شام کا صدر کے عہدے پر فائز ہوا۔

سنہ 1962 میں شام کی سیاسی جماعت باتھ (Ba'ath) نے شام میں حکومت بنائی اور کوہن کو اسی موقع کی تلاشتھی۔

ارجنٹائن میں اپنے تعلقاتکا بہترین استعمال کرتے ہوئے وہ شام میں بہت سے اعلیٰ حکام کے معتمد بن گئے۔

مصنف مارک ای ورگو اپنی کتاب ’موساد: سکس لینڈ مارک مشنز‘ میں لکھتے ہیں کہ ’ایک وقت میں کوہن کو ڈپٹی سیکریٹری آف ڈیفنس کا امیدوار بھی سمجھا جاتا تھا اور وہ دمشق میں کسی بھی قسم کے تجارتی معاہدے یا ڈیل کر سکتے تھے۔ یہ وہ دور تھا جب انھوں نے شامی افسران کو مہنگے تحائف اور مہنگی شراب تحفے میں دیتے ہوئے ان سے تمام انٹیلیجنس معلومات جمع کیں اور انھیں موساد تک پہنچایا۔‘

ایلی کوہن نے سنہ 1964 میں اسرائیلی حکومت کو آگاہ کیا کہ شام دریائے اردن کے قریب ایک بڑی نہر بنا کر دراصل اسرائیل کی پانی کی سپلائی منقطع کرنے کا منصوبہ بنا رہا ہے۔

موساد نے یہ اطلاع حکومت تک پہنچائی اور فوری طور پر اسرائیلی طیاروں نے پانی کے موڑنے والے آلات اور کیمپوں پر شدید بمباری کرکے اس منصوبے کو ناکام بنا دیا۔

ایلی کوہن نے شامی حکومت میں ایسی مداخلت کی تھی کہ وہ ایک بار شام اسرائیل سرحد کا معائنہ کرنے گئے اور کئی دنوں تک اعلیٰ فوجی افسران کے پاس بیٹھک جمائی۔ سرحدی حفاظت کی مکمل تفصیلات اور فوج کی اصل تعداد اور طاقت پھر خفیہ طور پر موساد کے ہاتھوں ہوتی اسرائیل پہنچ گئیں۔

انٹیلیجنس کے افشا ہونے سے مایوس ہو کر شام کی انٹیلیجنس نے اتحادی سوویت یونین کے حکام سے مدد لی۔

سنہ 1965 میں، ایلی کوہن کو شامی اور سوویت حکام نے انتہائی حساس سراغ رساں آلات کا استعمال کرتے ہوئے اسرائیل کو انٹیلیجنس پیغام بھیجتے ہوئے پکڑ لیا۔

کوہن کو سزائے موت سنائی گئی اور دارالحکومت دمشق کے وسط میں پھانسی دی گئی۔ کوہن کو آج بھی اسرائیل میں ایک محب وطن ہیرو کے طور پر یاد کیا جاتا ہے۔

مشن ایرانGetty Images

اسرائیل اور ایران کے تعلقات ہمیشہ کشیدہ رہے ہیں۔ خاص طور پر ایران کے جوہری پروگرام کے حوالے سے تو یہ تعلقات بدترین ہی جانے جاتے ہیں۔

لیکن سنہ 2012 میں شائع ہونے والی کتاب ’موساد: اسرائیل کی خفیہ سروس کے عظیم مشن‘ میں نہ صرف ایران کے جوہری پروگرام کو ’کنٹرول‘ کرنے کے لیے اسرائیل کی انٹیلیجنس کوششوں کا ذکر کیا گیا ہے بلکہ یہ بھی دکھایا گیا ہے کہ اس ایجنسی نے کس طرح جیمز بانڈ کی فلموں کی طرح حقیقی زندگی میں خطرناک مشن انجام دیے۔

اس کتاب کے مصنفین مائیکل بار زوہر اور نسیم مشال کے مطابق ’ایران کو جوہری ہتھیار بنانے سے روکنے کے لیے اسرائیل نے ان کے سینٹری فیوجز کو سبوتاژ کرنے کی کوشش کی۔ اس مقصد کے لیے موساد نے مشرقی یورپی فرنٹ کمپنیاں قائم کیں، جنھوں نے مبینہ طور پر ایران کو ناقص ’انسولیشن‘ فروخت کی جس کے استعمال کی وجہ سے ایران کے سینٹری فیوج بیکار ہو گئے۔‘

’موساد: اسرائیلی خفیہ سروس کا عظیم ترین مشن‘ یہ بھی رپورٹ کرتا ہے کہ جنوری 2010 میں ایران کے جوہری پروگرام کے ایک مشیر کو ’ان کی کار کے قریب کھڑی ایک موٹر سائیکل میں چھپائے گئے ایک دھماکہ خیز آلے سے ہلاک کر دیا گیا تھا۔‘

نیویارک ٹائمز اخبار میں شائع ہونے والی ایک رپورٹ کے مطابق ’2011 میں ایرانی جوہری منصوبے کے سربراہ اپنی گاڑی میں کہیں جا رہے تھے کہ ان کے قریب سے گزرنے والے ایک موٹر سائیکل سوار نے گاڑی کی پچھلی ونڈ شیلڈ پر ایک چھوٹا سا آلہ چسپاں کر دیا۔ چند سیکنڈ بعد، آلہ پھٹ گیا، جس سے 45 سالہ ایٹمی سائنسدان ہلاک اور ان کی اہلیہ زخمی ہو گئیں۔‘

ابھی زیادہ عرصہ نہیں گزرا تھا کہ 2021 میں ایک ایرانی جوہری سائٹ پر یورینیم کی افزودگی کے پروگرام کو اس وقت بڑا دھچکا لگا جب ایک بڑے دھماکے سے اس جگہ کی بجلی مکمل طور پر منقطع ہو گئی۔

ماہرین کی رائے ہے کہ ’بجلی کی کٹوتی موساد کا کام تھا حالانکہ تنظیم نے کبھی اس کی سرکاری سطح پر ذمہ داری قبول نہیں کی تھی۔‘

حماس سے بدلہGetty Images

تقریباً ایک سال تک جاری رہنے والی تحقیقات کے بعد فلسطینی تنظیم 'حماس' نے اسرائیل کی موساد ایجنسی پر تیونس میں مقیم اپنے ایک کمانڈر محمد الزواری کو قتل کرنے کا الزام عائد کیا۔

درحقیقت 15 دسمبر 2016 کو محمد الزواری کو تیونس کے شہر سفیکس میں ان کی رہائش گاہ کے قریب چلتی کار سے چلائی جانے والی گولیوں کا نشانہ بنایا گیا۔

زواری ایک پیشہ ور ایروناٹیکل انجینئر تھے جنھوں نے حماس اور مبینہ طور پر حزب اللہ کے لیے مختلف قسم کے ڈرون ڈیزائن بھی کیے اور بنائے بھی۔

بعض غیر مصدقہ اطلاعات کے مطابق انھوں نے بغیر پائلٹ کے ایک بحری جہاز بھی ڈیزائن کیا تھا جو پانی کے اندر سے دوسرے جہازوں پر حملہ کرنے کی صلاحیت رکھتا تھا۔

قاتلوں کی شناخت کے لیے کوئی ٹھوس شواہد نہیں مل سکے اور جو کچھ ملا وہ ایک موبائل فون کی سم اور کرائے کی کار تھی جو کسی تیسرے شخص کے نام پر رجسٹرڈ تھی۔

حماس کے ہائی ٹیک ہتھیاروں کے ماہرین کی ہلاکت کو اس سے پہلے کی کارروائیوں سے مختلف کہا جاتا تھا کیونکہ موساد نے مبینہ طور پر نہ صرف حملہ آوروں کو بلکہ ان کے پیچھے موجود سپورٹ سسٹم کو بھی نشانہ بنانا شروع کر دیا تھا۔

مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More