منی پور کے مردہ خانوں کی ’لاوارث‘ میتیں: وہ خوف جو لواحقین کو اپنے پیاروں کی شناخت سے روک رہا ہے

بی بی سی اردو  |  Sep 26, 2023

Getty Images

انڈیا کی شمال مشرقی ریاست منی پور میں رواں برس مئی کے اوائل سے شروع ہونے نسلی فسادات کے بعد ریاست کے تین بڑے ہسپتالوں کے مردہ خانوں میں تقر یباً 96 ایسی میتیں پڑی ہیں جن کی شناخت کے لیے ابھی تک حکام سے کسی نے رابطہ نہیں کیا۔

مقامی افراد کے مطابق لوگ خوف کے باعث اپنے رشتے داروں کی لاشیں ہسپتالوں سے نہیں لے جا رہے ہیں جبکہ ہسپتال انتظامیہ کے مطابق یہ لاشیں کئی مہینوں سے مردہ خانوں میں موجود ہیں۔

اس صورتحال کو دیکھتے ہوئے اب سپریم کورٹ کی تشکیل کردہ سابق ججوں کی ایک کمیٹی نے ریاستی حکومت کو مشورہ دیا ہے کہ وہ مرنے والوں کی ایک فہرست عوامی سطح پر جاری کرے تاکہ میتوں کے لواحقین کی شناخت کر کے لاشیں ان کے حوالے کر دی جائیں اور جن لاشوں کے دعویدار پھر بھی سامنے نہ آئیں اُن کی آخری رسومات پورے احترام کے ساتھ ادا کر دی جائیں۔

حکومتی اعداد و شمار کے مطابق منی پور کے نسلی فسادات میں اب تک175 افراد مارے جا چکے ہیں جبکہ کم از کم 32 افراد لاپتہ ہیں۔ منی پور کی ریاست میں نسلی فسادات اکثریتی میتئی اور کوکیقبائل کے درمیان ہوا تھا۔ یہ نسلی گروہ ریاست کے الگ الگ جغرافیائی خطوں میں آباد ہیں۔ فسادات کے بعد اب صورتحال یہ ہے کہ ایک نسلی گروہ کے لوگ دوسرے گروپ کے خطے میں نہیں جا سکتے۔

پوری ریاست نسلی بنیادوں پر منقسم ہے اور تشدد کے واقعات اب بھی رونما ہو رہے ہیں۔ حکام کی جانب سے ریاست کی صورتحال انتہائی نازک بتائی جا رہی ہے۔

اس رپورٹ کے فائل کیے جانے کے وقت دو نوعمر طالبعلموں کے مارے جانے کی خبریں موصول ہو رہی تھیں، یہ طلبا جولائی کے اوائل سے لاپتہ تھے۔

پیر کی شام انڈین سوشل میڈیا پر دو تصویریں وائرل ہوئی ہیں جن میں ایک تصویر میں دونوں طلبا کو ایک ساتھ بیٹھے ہوئے دکھایا گیا جبکہ ان کے پاس مسلح لوگ کھڑے ہیں۔ دوسری تصویر میں ان کی لاشیں دکھائی گئی ہیں۔

بی بی سی آزادانہ طور پر ان تصاویر کی تصدیق کرنے سے قاصر ہے تاہم یہ معاملہ سوشل میڈیا پر سامنے آنے کے بعدریاستی حکومت نے عوام سے ضبط وتحمل سے کام لینے کی اپیل کی ہے۔

Getty Images96 افراد کی لاشیں ’امپھال‘ کے دو ہسپتالوں کے مردہ خانوں میں رکھی گئی ہیں

ریاستی دارالحکومت امپھال کے ایک سینیئر صحافی واہینگبم ٹیکیندر سنگھ نے بی بی سی کو بتایا کہ نسلی تشدد میں مرنے والے 96 افراد کی لاشیں امپھال کے دو ہسپتالوں ’ریجنل انسٹیٹیوٹ آف میڈیکل سائنسز ‘ اور ’جواہر لال نہرو انسٹیٹیوٹ آف میڈیکل سائنسز‘ اور چورا چاند پور کے ریجنل میڈیکل کالج میں رکھی ہوئی ہیں۔

امپھال وادی میں میتیئی نسلی گروپ کی آبادی کا غلبہ ہے اور یہاں کے دو ہسپتالوں میں جو لاشیں رکھی ہوئی ہیں وہ کوکی نسلی گروپ کے لوگوں کی ہیں۔ چوڑا چاندپور کے ضلع میڈیکل میں جو لاشیں رکھی ہیں ان میں کوکی اورمیتیئی دونوں گروپوں کےلوگ شامل ہیں۔ چوراچاندپور میں موجود میتوں میں کوکیوں کی اکثریت ہے۔

واہینگبم نے بتایاکہ مسئلہ یہ ہے کہ فسادات کے بعد کوکی میتیئی کے علاقوں میں نہیں جا سکتے اور میتیئی کوکی علاقے میں داخل نہیں ہو سکتے اور قانون کے مطابق چونکہ لاشوں کی شناخت کے لیے ذاتی طور لواحقین کا ہسپتال کے مردہ خانے جانا ضروری ہے اور چونکہ لوگ جا نہیں سکتے اسی وجہ سے یہ لاشیں مہینوں سے بغیر شناخت کے ّپڑی ہوئی ہیں۔

انھوں نے مزید بتایا کہ حالات کی حساس نوعیت کے سبب ہسپتالوں نے ان لاشوں کی تصویریں اور تفصیلات وغیرہ بھی ابھی تک جاری نہیں کی ہیں۔ حکام اور سکیورٹی فورسز کوشش کر رہی ہیں کہ حالات کم از کم اس حد تک ہی نارمل ہو جائیں کہ لواحقین یہاں آ کر اپنے پیاروں کی لاشوں کی شناخت کر سکیں تاکہ ان کی آخری رسوم ادا کی جا سکیں، لیکن بظاہر یہ بھی ممکن نہیں ہو پا رہاہے۔

واہیینگبم نے بتایا کہ گذشتہ کچھ دنوں سے فائرنگ کے واقعات بالخصوص ہلاکتوں کے واقعات میں کچھ کمی آئی ہے۔

’لیکن مسئلہ یہ ہے کہ دونوں نسلی گروپوں میں بے اعتباری اور نفرتیں اتنی گہری ہو چکی ہیں کہ انھیں دور کرنے میں بہت وقت لگے گا۔ یہ مسئلہ اس لیے اور پیچیدہ ہو رہا ہے کہ دونوں ہی گروپوں میں سکیورٹی فورسز کے تئیں اعتماد ٹوٹ گیا ہے۔‘

ان کے مطابق ’میتیئی گروپ کے لوگ فوج اور آسام رائفلز کے آنے جانے میں رکاوٹیں کھڑی کرتے ہیں کیوں کہ وہ الزام لگاتے ہیں یہ کوکی قبائل کی مدد کرتی ہیں جبکہ کوکی گروپ ریاستی پولیس اور ریاستی سکیورٹی فورسز کو اپنے علاقے میں داخل نہیں ہونے دیتیں کیونکہ ان کا ماننا ہے کہ یہ میتیئیوں کی ہمدرد ہیں۔ باہمی اعتماد کا ٹوٹنا اس وقت سب سے بڑا مسئلہ ہے۔‘

کوکی تنظیم انڈیجینس ٹرائبل لیڈرس فورم کے سیکریٹری موان تیومبینگ نے بی بی سی بات کرتے ہوئے کہا کہ ’لاشوں کی شناخت کے لیےامپھال وادی جانا ناممکن ہے کیونکہ وہ موت کی وادی کی طرح ہے۔ مرنے والوں کے لواحقین بھی وہاں نہیں جا سکتے۔ یہاں کہ ہمارے رکن اسمبلی کو بھی وہاں بُری طرح مارا گیا تھا۔‘

اُن کا کہنا ہے کہ فوٹو اور فون کالز کے ذریعے بیشتر لاشوں کی شناخت ہو چکی ہے لیکن حکام قانونی تقاضے پورے نہ ہونے کے باعث یہ لاشیں لواحقین کے حوالے نہیں کر رہے ہیں۔

انھوں نے مزید کہا کہ ان لاشوں کے علاوہ 41 کوکی لاپتہ بھی ہیں اور کئی لاشیں جلی ہوئی ہیں جن کی شناخت مشکل ہے۔ انھوں نے بی بی سی کو مرنے والوں کی ایک فہرست بھیجی ہے جس میں ان کے نام عمر اور دیگر تفصیلات دی گئی ہیں۔

انھوں نے مزید کہا کہ ’حالات میں بہتری تبھی آ سکتی ہے جب اکثریتی میتیئی گروپ مثبت قدم اٹھائے اور مرکزی حکومت ہماری شکایات کو دور کرے۔41 ہزار کوکی اب بھی عارضی کیمپوں میں رہ رہے ہیں۔ حالات ایسے ہیں جو چند دنوں میں صحیح نہیں ہو سکتے۔ صورتحال کا دارومدار حکومت کی منشا پر ہے، اس مرحلے پر تو کچھ نہیں ہو رہا ہے۔‘

حکومت اس سلسلے میں کیا کر رہی ہے؟

انڈیا کی سپریم کورٹ نے گذشتہ مہینے جموں و کشیمر کی سابق چیف جسٹس گیتا متل کی سربراہی میں ہائی کورٹ کے تین سبکدوش ججوں کی ایک کمیٹی تشکیل دی تھی۔ اس کمیٹی کا کام منی پور کے نسلی تشدد کے انسانی پہلوؤں میں مدد کرنیہے۔

اس کمیٹی نے ایک رپورٹ میں سفارش کی ہےکہ ریاستی حکومت ان افراد کی ایک فہرست شائع اور مشتہر کرے جو پانچ مہینے سے جاری تشدد میں مارے گئے ہیں اور ان کے لواحقین کی شناخت کرے تاکہ انھیں مقررہ معاوضہ ادا کیا کیا جا سکے۔ اگر اس میں کامیابی نہیں ملتی تو اس کمیٹی نے مشورہ دیا ہے کہ ضلع کلکٹر مناسب جگہ کا تعین کر کے پورے احترام کے ساتھ ان لاشوں کی آحری رسوم ادا کر دیں ۔

صحافی واہینگبم ٹیکیندر سنگھکہتے ہیں کہ ’لاشوں کی آخری رسوم کی ادائیگی ایک بہت حساس معاملہ ہے۔ اس مرحلے پر ہمیں نہیں معلوم کہ اگر حکومت کچھ ایسا اعلان کرتی ہے کہ حکام ایسی لاشوں کی آخری رسومات ادا کر دیں جن کا کوئی دعویدار نہیں تو لوگوں کا کیا ردعمل ہو گا۔‘

منی پور کشیدگی اور تشدد کے خوف میں ڈوبا ہوا ہے۔ ہزاروں لوگ عارضی پناہ گاہوں میں انتہائی مشکل حالات میں رہ رہے ہیں جبکہ معمول کی زندگی مکمل طور پر مفلوج ہے۔

مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More