ترکی میں بحیرۂ روم کے ساحل کے ساتھ 540 کلومیٹر طویل ایک ٹریک آپ کو لیشیا کی ثقافت سے متعارف کرواتا ہے۔ یہ ایک قدیم ملک تھا جہاں دنیا میں پہلی بار جمہوری نظامِ حکومت کا آغاز کیا گیا تھا۔
’لیشیئنز؟ لیکن وہ کون تھے؟ سکندر نے مجھ سے سوال کیا۔
جب ہم ترک یہاں آئے تو ہم نے صرف کھنڈرات دیکھے، وہ کیا کہتے ہیں جہاں مردہ لوگ رہتے ہیں؟
میں نے کہا قبریں۔ اس نے اپنا سر ہلا کر تصدیق کی۔‘
یہ مئی کا مہینہ تھا لیکن بحیرۂ روم کے کنارے ترکی کے اس دور دراز گاؤں میں گرمی کی حدت محسوس ہو رہی تھی۔ اس علاقے کو تاریخی طور پر لیشیا کے نام سے جانا جاتا ہے۔ مجھے اس 540 کلومیٹر کے راستے پر سفر کرتے ہوئے دو ہفتے ہو چکے تھے جو انتالیہ اور فتحیہ کے شہروں کو جوڑتا ہے۔ یہیں میری ملاقات سکندر سے ہوئی تھی۔
سکندر نے سمینا قلعے کی دیواروں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ جو قبریں قلعے کے پاس ہیں۔۔۔ ان لوگوں نے ہزاروں سال پہلے اتنے بھاری بھرکم پتھر کیسے یہاں رکھے؟
سکندر نے اپنا سر ہلاتے ہوئے کہا کہ پانچ انسان مل کر بھی ان قبروں پر موجود ڈھکن نہیں ہٹا سکتے۔ میں نے یہ قبریں دیکھ رکھی تھیں جو درجنوں کے حساب سے اس علاقے میں موجود ہیں۔
ایلیاڈ نامی قدیم کتاب کے ذریعے قدیم لیشیا کا نام امر ہوا جس میں اسے زینتھوس دریا کی زمین کے نام سے متعارف کروایا گیا۔
یہ پہاڑی لوگوں کا گڑھ تھا جو بہت آزاد منش اور بحری سفر کرنے والی قوم تھی لیکن ان کے بارے میں زیادہ معلومات موجود نہیں ہیں۔
یونانی مؤرخ ہیروڈوٹس نے دعویٰ کیا تھا کہ لیشیئنز کے آباؤاجداد ٹرمیلی کریٹ سے آئے تھے جبکہ جدید محققین کے مطابق یہ اناطولیہ کے رہنے والے تھے جو اس وقت یونان کے زیر اثر آ گئے جب سکندراعظم نے اس خطے کو 333 قبل از مسیح میں فارس سے چھین لیا تھا۔
لیشیا بہت پہلے ہی تاریخ کی کتابوں میں کہیں کھو گیا تھا لیکن ان کی سیاسی میراث ایک عجیب سی تاریخی وجہ کی بنا پر زندہ ہے۔
تیس جون 1787 کا دن تھا جب مستقبل میں امریکہ کے صدر بننے والے جیمز میڈیسن نے فلاڈلفیا میں ایک تقریر کی۔ یہ تقریب امریکہ میں حکومت کے مؤثر نظام کی شناخت کے لیے منعقد کی گئی تھی۔
جیمز میڈیسن نے اپنے خطاب میں لیشیا کی مثال دی۔
دوسری صدی قبل از مسیح میں 23 شہروں پر مشتمل لیشیا کی ریاست پہلی جمہوری یونین تھی اور یہ مختلف شہروں کے آپس میں مضبوط اتحاد کا ماڈل تھا۔
چھ شہروں بشمول پاٹارا، جو دارالحکومت تھا، کو لیشیا کی کونسل میں تین ووٹ حاصل تھے جبکہ درمیانے درجے کے شہروں کو دو اور چھوٹے شہروں کو ایک ووٹ حاصل تھا۔
یہ لیگ کیسے بنی، یہ واضح نہیں۔ شاید یہ رہوڈز کے جبر کا جواب تھا جس کو 190 قبل از مسیح میں رومنے کچھ عرصہ کے لیے لیشیا کا کنٹرول دے دیا تھا۔
یہ لیگ خارجہ پالیسی مرتب نہیں کر سکتی تھی لیکن ایک گورننگ ایگزیکٹیو منتخب کرتی تھی۔ اس کے علاوہ مقامی جج تعینات کرنے اور ٹیکس اکٹھا کرنے کا اختیار بھی اسے حاصل تھا۔
اٹھارویں صدی کے فرانسیسی فلسفی مونٹیسقو نے اسے زمانہ قدیم کا سب سے بہتر آئین قرار دیا۔
نوٹرڈیم یونیورسٹی کے پروفیسر انتھونی کین لیشیا ثقافت کے ماہر ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ یہ نظام جمہوریت پر یونانی خیالات اور لیشیا کے ان تصورات کا امتزاج تھا جن کے مطابق شہری آبادیوں کی کمیونٹی مل کر کیسے کام کر سکتی ہے۔
میں جن راستوں پر چلا وہ کبھی سڑکیں ہوا کرتی تھیں جو لیشیا کے مختلف شہروں کے درمیان رابطے کا ذریعہ تھیں۔ روم کے بادشاہ کلاڈیئس نے جب ترتالیس قبل از مسیح میں اس خطے پر قبضہ کیا تو ان شہروں کی کہانی انجام کو پہنچی۔
تاہم ان راستوں میں دلچسپی کی وجہ سے برطانوی کیٹ کلو نے 1990 میں لیشیا وے تخلیق کیا اور کہا کہ مجھے پرانی سڑکیں دیکھنے اور ان کے بارے میں جاننے کا شوق ہے۔
لیشیا کے راستے پر راہ گیر بہت کم تھے، لیکن یہ راستہ زندگی سے بھرپور تھا۔ راستے میں خوشنما بالوں والی بکریاں اور بڑے بڑے کچھوے تھے۔ اس کے ساتھ کہیں کہیں کالے سانپ بھی رینگتے نظر آئے جو کہ تشویشناک بات تھی۔
وہاں کے پہاڑی دیہات پوست اور جنگلی پھولوں سے بھرے تھے جبکہ بیگی شلوار میں خواتین میرے لیے بکری کے دودھ سے بنا پنیر، تازہ شہد اور گوزلیم فلیٹ بریڈ لے کر آئیں۔
ہم نے انھیں چائے کے ساتھ کھایا۔جس کے بعد دن میں گرمی کی حدت بڑھنے کے بعد میں سمندر ڈوبکی لگانے کے لیے کود پڑا۔
شام ڈھلنے کے بعد ایک گھنی خاموشی نے زمین کو اپنے حصار میں لے لیا، اور میرا کیمپ فائر چیڑ کے درختوں کی سرگوشیوں میں ہل رہا تھا جیسے مجھے ان لوگوں کو یاد کرنے کے لیے کہہ رہا ہو جنھوں نے یہ سڑکیں بنائی تھیں۔
درحقیقت لیشیئن کے راستوں پر یادوں کی ایک ایسی بستی پھیلی ہے کہ آپ بھوت پریت کی صحبت میں چلتے ہیں، آرام کرتے ہیں اور سوتے ہیں۔
اپنی ڈرامائی خوبصورتی کے باوجود یہ بھوتوں کی سرزمین ہے۔ سنہ 1950 کی دہائی میں سمندر کے ذریعے جزیرہ نما کے ساتھ اپنے ایک سفر کا ذکر کرتے ہوئے سیاح فرییا سٹارک نے اسے ’دنیا کا سب سے زیادہ آسیب زدہ ساحل‘ قرار دیا تھا۔
ہر جھاڑی اور گھاٹی میں خالی قبریں پڑی ہیں اور ایسا لگتا ہے جیسے گمشدہ سفارت خانے سے بھیجے گئے یہ گونگے ایلچی ہیں۔
لیشیا کے شہری تانے بانے کا ایک ظاہری حصہ ان کے مقبرے تھے جو ان کے آباؤ اجداد کے پوجنے اور بعد کی زندگی کے مرکزی کردار کا اظہار تھے۔
ان سب میں سب سے عجیب وہ ٹاور نما ستون کے مقبرے تھے جو فارسیوں کے ماتحت لیشیا کے دارالحکومت زینتھوس کے کھنڈرات میں پائے گئے تھے۔
لیشین وے اس جگہ آ جر دو راستوں میں بٹ جاتا ہے اور اندرون ملک کی طرف جاتا ہے جہاں یہ ستون گرین ہاؤسز اور نارنجی کے باغات سے گھری ہوئی چٹان پرموجود ہیں۔ دو ستون مقبرے کے بالا حصار پر حاوی ہیں۔
ان میں ایک ہارپی مقبرہ ہے اور دوسرا ستون زینتھین اوبیلکس ہے اور اس پر لیشین رسم الخط میں کچھ لکھا ہوا ہے جسے ابھی تک مکمل طور پر پڑھا نہیں جا سکا ہے۔
زینتھوس کے سب سے بڑے ستون والا مقبرہ پیاوا کا مقبرہ ہے۔
چوتھی صدی قبل مسیح کے بعد سے لیشیئن نے چٹان سے تراشے ہوئے ’گھر‘ نما مقبرے بنائے، جس میں اکثر میت رکھنے کی جگہ چٹانوں میں تراشی گئی ہیں، اس گھر نما قبر کے مرکزی دروازے کے چاروں طرف چٹان کے سامنے والے حصے کو ابھارا گیا ہے اور اس پر لکڑی کا کام کیا گیا ہے۔
سب سے زیادہ عام سارکوفاگی یعنی لمبوتری قبریں ہیں جو چونے کے پتھروں سے تراشی ہوئی ہیں اور وہ نچلی قبر پر رکھی ہوئی ہیں۔
ڈرہم یونیورسٹی کی ماہر آثار قدیمہ ڈاکٹر کیتھرین ڈریکوٹ نے وضاحت کی کہ لیشین کے مقبروں میں میت کو اوپری سرکوفگس میں دفن کیا جاتا تھا جبکہ رشتہ داروں یا غلاموں کو نیچے چیمبر میں دفن کیا جاتا تھا۔
انھوں نے کہا کہ ’لیشیا میں یہ خیال ہے کہ اہم لوگوں کا مقام موت کے بعد بلند ہو جاتا ہے اور وہ اس میں دفن کیے جانے والے کو ہیرو بنا رہے ہیں۔‘
اگرچہ ہر جگہ موجود مقبروں نے ماہرین آثار قدیمہ کو لیشین کی تدفین کی وسیع رسومات کے بارے میں سمجھنے کا موقع فراہم کیا ہے، لیکن روزمرہ کی زندگی کی تصویر بہت کم ہے۔
وہاں ذاتی استعمال کی اشیاء یا زیورات کی تلاش ناقابل یقین حد تک نایاب ہے۔ ڈریکوٹ نے کہا ’مشکل یہ ہے کہ بہت سارے ٹھوس شواہد رومن ہیں اور اس کے پہلے کے ادوار سے بہت کم ہیں۔‘
زینتھوس سے نکلنے کے دو دن بعد پگڈنڈی مجھے لیشین لیگ کے دارالحکومت پٹارا کے کھنڈرات کے پاس واپس ساحل پر لے آئی۔
کبھی پٹارا ایک ترقی پذیر بندرگاہ تھی لیکن دریا کے گاد چھوڑنے کی وجہ سے یہ آہستہ آہستہ سنسان ہو گئی۔ ستون والی مرکزی شاہراہ اب ایک تالاب نظر آتی ہے اور دکانوں کی دیواریں جو کبھی ایک قطار میں کھڑی تھیں کافی عرصے پہلے منہدم ہو چکی ہیں۔ یہاں کی سب سے اہم عمارت کونسل چیمبر ہے۔
پتھر کے بنچوں کی 20 قطاروں کے ساتھ ایک نیم دائرہ والے آڈیٹوریم پر مشتمل اس چیمبر کو حال ہی میں بحال کیا گیا ہے جو کہ بظاہر لیشین لیگ کا سیاسی مرکز تھا۔
کونسل چیمبر میں اونچے چبوترے پر بیٹھ کر یہ تصور کرنا مشکل نہیں تھا کہ سینکڑوں لباس پہنے ہوئے مندوبین عوامی امور پر گفتگو کر رہے ہیں جب کہ لیشیارک کارروائی چلا رہے ہیں۔
یہ میڈیسن کی بدولت ہے کہ آج امریکی ایوان نمائندگان کی بنیاد لیشین اصولوں پر رکھی گئی ہے، جس میں 50 ریاستوں میں ان کی آبادی کے تناسب سے 435 نشستیں تقسیم کی گئی ہیں۔