Getty Images
وینزویلا نے ملک کی ایک سب سے بڑی جیل پر دوبارہ قبضہ حاصل کرنے کے لیے 11 ہزار فوجیوں کو بھیجا ہے۔ اس جیل پر ملک کے ایک طاقتور جرائم پیشہ گینگ نے قبضہ کر رکھا تھا۔
ملک کے شمال میں کاراکاس کے جنوب مغرب میں تقریباً 140 کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ٹوکورون جیل کئی برسوں سے وینزویلا کے سب سے بڑے منظم اور لاطینی امریکہ میں سب سے طاقتور جرائم پیشہ گروہ ٹیرن ڈی آرگوا کی کارروائیوں کا مرکز رہی ہے۔
آپریشن شروع ہونے کے چند گھنٹوں بعد وینزویلا کے وزیر داخلہ ریمیگیو سیبالوس نے تصدیق کی کہ حکام نے جیل کا کنٹرول سنبھال لیا ہے۔
اے پی نیوز ایجنسی نے رپورٹ کیا ہے کہ وزیر داخلہ سیبالوس نے عندیہ دیتے ہوئے کہا کہ ٹوکورون ’تعمیر نو کے عمل سے گزرے گی اور اسے مکمل طور پر خالی کروایا جائے گا۔‘
اس کے علاوہ ان کا کہنا تھا کہجیل میں ’جرم کا راج تھا۔‘ انھوں نے بتایا کہ آپریشن کے دوران جیل سے باہر نکلنے والی سرنگیں دریافت کی گئیں اور قیدیوں کے فرار کو ناکام بنایا گیا۔
وزیر داخلہ کا مزید کہنا تھا کہ سکیورٹی فورسز اس گروہ میں ملوث مجرموں کو پکڑنے کی کوشش کر رہی ہیں جو جیل سے باہر ہیں اور انھوں نے قیدیوں کے فنگر پرنٹس لے کر ان کی شناخت کی ہے۔
وینزویلا کے صدر نکولس مادورو نے کامیاب کارروائی پر سکیورٹی فورسز کو مبارکباد دی۔ انھوں نے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس پر لکھا کہ ’اب ہم دوسرے مرحلے کی تیاری کر رہے ہیں۔ ہم جرائم پیشہ گروہوں سے پاک وینزویلا کی طرف جا رہے ہیں۔‘
وینزویلا کی وزارت داخلہ نے بھی سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس (سابقہ ٹوئٹر) پر پوسٹ کیے گئے ایک بیان میں جیل کا دوبارہ قبضہ حاصل کرنے اور ’سازش اور جرائم کے مرکز‘ کو ختم کرنے پر افسران کو مبارکباد دی۔
حکام نے اشارہ دیا ہے کہ مجرموں سے جیل کا قبضہ چھڑانے کے لیے 11,000 پولیس اور فوجی اہلکاروں نے چھاپے میں حصہ لیا۔
Getty Images
اس جیل میں منظم جرائم پیشہ گروہ ٹیرن ڈی آرگوا کے سرغنہ ہیکٹر گیریرو فلورس قتل اور منشیات کی سمگلنگ کے جرم میں 17 سال کی قید کاٹ رہے تھے۔
ایک تنظیم ونڈو ٹو فریڈم کے کوآرڈینیٹر کارلوس نیتو کے مطابق وہ اتنا طاقتور تھا کہ جیل سے آزادانہ طور پر اندر باہر آتا جاتا تھا۔
مقامی میڈیا نے رپورٹ کیا ہے کہ اس گینگ کے ارکان آزادانہ طور پر جیل کے گرد پھر سکتے ہیں اور اس جیل میں کسی بھی ہوٹل کی طرح کی پرتعیش سہولیات موجود ہیں جن میں سوئمنگ پول، نائٹ کلب اور ایک چھوٹا چڑیا گھر بھی شامل ہے۔
یہ بتایا گیا ہے کہ صحافیوں نے سکیورٹی گارڈز کو جیل سے موٹر سائیکل، ٹیلی ویژن اور مائیکروویو لے جاتے دیکھا ہے۔
جیل کا دوبارہ قبضہ حاصل کرنے کے بعد حکام کا کہنا ہے کہ اس جیل کے چھ ہزار قیدیوں کو دیگر جیلوں میں منتقل کیا جائے گا۔
حکام کی جانب سےقیدیوں کو منتقل کرنے کا اعلان کرنے کے بعد ان میں سے کچھ کے رشتہ دار جیل کے باہر رونے لگے کیونکہ انھیں یہ علم نہیں تھا کہ اب ان کے قید افراد کہاں جائیں گے۔
گلیڈیز ہرنینڈز نے خبر رساں ادارے اے ایف پی کو بتایا کہ ’میں یہ سننے کے لیے انتظار کر رہی ہوں کہ وہ میرے شوہر کو کہاں لے جا رہے ہیں۔۔۔ میں جیل میں رہ رہی تھی لیکن انھوں نے ہمیں باہر نکال دیا۔‘
وینزویلا کی صحافی، محقق اور ٹیرن آراگوا گینگ پر کتاب کی مصنفہ رونا رسق کہتی ہیں کہ یقیناً 11 برس سے عہدے پر رہتے ہوئے صدر مادورو کی جانب سے یہ سب سے بڑی سکیورٹی تعیناتی کا حکم دیا گیا ہے۔
تاہم رسق نے خبردار کیا ہے کہ جیل پر آپریشن کا مطلب یہ نہیں کہ ملک اور لاطینی امریکہ کے ایک طاقتور جرائم پیشہ گروہ کو ختم کر دیا گیا ہے۔
اب تک ہم اس آپریشن کے بارے میں کیا جانتے ہیں؟
گذشتہ چند گھنٹوں کے دوران اس آپریشن میں کیا ہوا، اس بارے میں اب تک کچھ واضح نہیں۔ صرف ایک چیز جو واضح نظر آتی ہے وہ یہ کہ وینزویلا کی ریاست کی سکیورٹی فورسز نے جیل پر قبضہ کر لیا ہے اور قیدیوں کو بے دخل کر دیا گیا ہے۔
سوشل میڈیا پر قیدیوں کی کچھ تصاویر دیکھی گئی ہیں جو پیلے رنگ کی وردیوں میں ملبوس ہیں، جو ان جیلوں میں استعمال کی جاتی ہے، جو حکومت کے زیر انتظام ہیں۔
اس آپریشن کے دوران ایک ہلاکت اور زخمیوں کی بھی اطلاعات ہیں تاہم اس کی تصدیق نہیں کی جا سکی۔
درحقیقت ایسا لگتا ہے کہ جیل کے رہنماؤں کے ساتھ کسی قسم کی بات چیت یا معاہدہ ہوا تھا جس کے نتیجے میں یہ آپریشن کیا گیا کیونکہ جیل میں ایک بہت طاقتور مجرمانہ تنظیم کی موجودگی تھی، جسے حکومت نے خود 11,000 اہلکاروں کو تعینات کر کے تسلیم کیا۔ لہذا یہ سوچنا مشکل ہے کہ اس کارروائی کے دوران ایک بھی گولی نہ چلی ہو اور کچھ گڑ بڑ نہ ہوئی ہو۔
خیال کیا جاتا ہے کہ آپریشن صبح سویرے شروع ہوا اور وزارت داخلہ کی طرف سے آخری بیان سات یا آٹھ گھنٹے بعد سامنے آیا۔ ایک ایسی جیل جو ملک کے سب سے طاقتور جرائم پیشہ گروہ کے قبضے میں ہوں اس کو خالی کروانے کی یہ کارروائی بہت جلد معلوم ہوتی ہے۔
کچھ ایسی ویڈیوز منظر عام پر آئی ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ جیل کے اندر پورے پورے خاندان، خواتین، بوڑھے اور بچے بھی موجود تھے۔
یہ واضح کرنا ضروری ہے کہ ٹوکورون صرف کوئی جیل نہیں بلکہ جیل کے اندر ایک طرح کا شہر تھا جہاں قیدیوں کے رشتہ دار بھی رہتے تھے۔
Getty Images
جیسا کہ جیل کے قیدیوں اور یہاں موجود ٹیرین اراگوا گینگ کے لیڈر اسے ایک ’بڑا گھر‘ قرار دیتے ہیں یعنی یہ وہ گڑھ یا بنکر ہے جہاں سے ایک مجرمانہ تنظیم کام کرتی ہے جو لاطینی امریکہ کے سات ممالک اور پانامہ اور کولمبیا کی سرحدوں تک پھیلی ہوئی ہے۔
یہ وہ جگہ ہے جہاں سے یہاں قید اس گینگ کے سرغنہ چلی، پیرو، ایکواڈور اور کولمبیا میں موجود لوگوں کو ہدایات دیتے تھے۔ پولیس نے ان ممالک میں اس تنظیم کے ارکان کو گرفتار کرتے وقت ان کے فون ضبط کیے اور انھوں نے ہمیشہ کہا کہ انھیں ہدایات ٹوکورون جیل سے ملتی تھیں۔
یہ آپریشن اب کیوں کیا گیا؟
اس کی بہت سی وجوہات ہو سکتی ہیں۔ اگر ہم صورتحال کے بارے میں بات کریں تو اس کی وجہ یہ ہو سکتی ہے کہ بدھ 20 ستمبر 2023 کو وینزویلا کے بارے میں حقائق کا تعین کرنے کے لیے آزاد بین الاقوامی مشن کی ایک رپورٹ منظر عام پر آئی، جس میں وینزویلا کے حکام کی طرف سے انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کو دستاویز کیا گیا ہے۔
گزشتہ روز وینزویلا میں ٹارچر سیلز کو بند کرنے کی درخواست کرنے اور حالیہ برسوں میں تشدد کی صورتحال کو ظاہر کرنے کے لیے ایک مہم بھی شروع کی گئی تھی۔
بنیادی وجوہات میں سے ایک یہ بھی ہو سکتی ہے کہ خطے کی کچھ حکومتوں، جیسے پیرو، چلی اور کولمبیا نے وینزویلا کی حکومت سے ٹوکورون کے معاملے پر کارروائی کرنے کو کہا۔
یہ یقینی طور پر ایسی چیز ہے جو وینزویلا کی حکومت کی بین الاقوامی شبیہ کو متاثر کر رہی ہے۔
یہ بہت آسان نہیں کیونکہ صدر نکولس مادورو اپنی حکومت کو جائز حیثیت قرار دینے کی کوشش کر رہے ہیں، وہ چاہتے ہیں کہ حالیہ برسوں میں وینزویلا سے دور ہونے والے ممالک انھیں تسلیم کریں اور امریکہ کی جانب سے عائد پابندیاں ہٹائی جائیں۔
Getty Imagesکیا اس آپریشن کے بعد وینزویلا کی سکیورٹی صورتحال میں بہتری آئے گی؟
اس بارے میں کچھ کہنا قبل از وقت ہے کیونکہ یہ ضروری نہیں کہ اس کا تعلق عوامی امن و عامہ سے ہو۔
اگرچہ ٹیرن آراگوا گینگ نے گذشتہ چند برسوں کے دوران بھتہ خوری اور اغوا برائے تاوان کے بہت سی خطرناک جرائم کا ارتکاب کیا لیکن اس کے اراکین کی توجہ بین الاقوامی منظم جرائم کی سرگرمیوں پر مرکوز رہی ہے۔
یہ آپریشن ملک کی امن و عامہ کی صورتحال پر تھوڑا سا اثر انداز ہوسکتا ہے،لیکن ضروری نہیں کہ معاشرے میں کوئی بڑی تبدیلی لائے لیکن یہ بات واضح ہے کہ ملک میں اس سے بڑا سکیورٹی آپریشن پہلے کبھی نہیں کیا گیا۔
یہ امر بھی یاد رہے کہ بہت سال تک وینزویلا کی سکیورٹی سے متعلق کوئی واضح پالیسی نہیں تھی۔
کیا ٹوکورون جیل پر دوبارہ قبضہ گینگ کو ختم کرنے کے لیے کافی ہے؟
صحافی و محقق رونا رسق کہتی ہیں کہ میرے خیال میں ٹوکورون جیل کا قبضہ حاصل کرنے کا مطلب ٹیرین آراگوا گینگ کا خاتمہ نہیں۔
ان کی کارروائیاں کچھ دیر کے لیے رک تو سکتیں ہیں لیکن یہ مکمل طور پر ٹوٹے گا نہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ ٹوکورون جیل کا قبضہ حاصل کرنے سے یہ کہا جا سکتا ہے کہ گینگ کا آپریشن سینٹر بند ہوا لیکن اس گینگ کے جو ارکان وینزویلا سے باہر ہیں وہ اپنی کارروائیاں کرتے رہیں گے۔
یہ تنظیم صرف وینزویلا تک محدود نہیں بلکہ یہ قتل، منشیات کی سمگلنگ، کولمیبا اور میکسیکو کے کارٹلز کے ساتھ روابط سمیت بیسیوں طرح کے جرائم میں ملوث ہے۔
یہ انسانی سمگلنگ اور کرائے کے قاتلوں کے ذریعے بھی پیسہ کما کر اپنا کام چلا سکتے ہیں۔