ایف 35: امریکی فوج کو لاپتہ ہونے والے دنیا کے ’سب سے مہنگے طیارے‘ کا ملبہ جنوبی کیرولینا سے مل گیا

بی بی سی اردو  |  Sep 19, 2023

امریکی فوجی حکام کو لاپتہ ہونے والے ایف 35 لڑاکا طیارے کا ملبہ جنوبی کیرولینا کے علاقے سے مل گیا ہے۔ طیارے کے پائلٹ نے حادثے کا شکار ہونے سے پہلے اس سے ایجیکٹ کر لیا تھا۔

یہ طیارہ اتوار کی سہ پہر اس وقت لاپتہ ہوا تھا جب یہ ریاست جنوبی کیرولینا کے اوپر پرواز کر رہا تھا۔

حکام کا کہنا ہے کہ 100 ملین ڈالرز کی مالیت کے جہاز کا ملبہ دیہی ولیمزبرگ کاؤنٹی سے ملا ہے۔

امریکی حکام نے عوام سے طیارے کو تلاش کرنے میں مدد کرنے کی اپیل کی تھی۔

پیر کو ایک بیان میں فوجی حکام کا نے کہا ہے کہ طیارے کا ملبہ ’جوائنٹ بیس چارلسٹن سے دو گھنٹے کی مسافت پرشمال مشرقی علاقے‘ سے ملا ہے۔

حکام نے طیارے کے آخری معلوم مقام کی مدد سے چارلسٹن شہر کے شمال میں جھیل مولٹری اور جھیل ماریون کے ارد گرد اپنی تلاش پر توجہ مرکوز کی تھی۔

ایک فوجی ترجمان نے بی بی سی کو بتایا کہ ملنے والے ملبے کی لاپتہ طیارے کا ملبہ ہونے کی تصدیق کر دی گئی ہے۔

امریکہ کے میرین کور کے عسکری حکام نے پیر کو جہاز کے ملبے کی تلاش ختم ہونے کے بعد کہا کہ ’یہ حادثہ فی الحال زیر تفتیش ہے، اور ہم تفتیشی عمل کا احترام کرتے ہوئے اضافی تفصیلات فراہم کرنے سے قاصر ہیں۔‘

عوام سے کہا گیا ہے کہ وہ علاقے سے دور رہیں اور تفتیش کاروں کو اپنا کام کرنے دیں۔

یاد رہے اس طیارے کے ملبے کی تلاش کے لیے امریکی فوج نے عوام سے مدد مانگی تھی۔ پیر کو جوائنٹ بیس چارلسٹن نے ایکس (سابقہ ٹوئٹر) پر مدد کے لیے اپنی اپیل پوسٹ کرتے ہوئے کہا تھا کہ ’ایمرجنسی رسپانس ٹیمیں ابھی بھی ایف 35 کو تلاش کرنے کی کوشش کر رہی ہیں۔‘

انھوں نے کہا کہ ’عوام سے کہا جاتا ہے کہ وہ فوجی اور سویلین حکام کے ساتھ تعاون کریں۔‘ جن لوگوں کے پاس ایسی معلومات ہیں جس سے طیارے کو ڈھونڈنے میں مدد ہو اس پیغام میں ان کی حوصلہ افزائی کی کہ وہ حکام کے ساتھ رابطہ کریں۔

تاہم اس حادثے میں پائلٹ کا نام ظاہر نہیں کیا گیا، وہ طیارے سے ایجیکٹ کر کے باحفاظت پیراشوٹ کے ذریعے زمین پر آ گئے تھے اور انھیں طبی امداد کے لیے ہسپتال میں داخل کیا گیا ہے جہاں ان کی حالت بہتر ہے۔

Getty Images

جوائنٹ بیس چارلسٹن کے ایک ترجمان نے این بی سی نیوز کو بتایا کہ جب پائلٹ نے ایجکٹ کیا تو لڑاکا طیارہ آٹو پائلٹ موڈ میں تھا۔ انھوں نے مزید کہا کہ ہو سکتا ہے کہ یہ پائلٹ کے بار نکل جانے کے بعد کچھ دیر تک فضا میں رہا ہو۔

دفاعی کنسلٹینسی کمپنی ٹیل گروپ کے ایک سینئر تجزیہ کار جے جے گرٹلر نے طیارے کے ملبے کی تلاش کے دوران بی بی سی کو بتایا کہ ’واقعات کی ایک قابل فہم ترتیب یہ ہے کہ جب پائلٹ طیارے سے باہر نکلا تو ٹرانسپونڈر کے الیکٹرونکس خراب تھے اور فوج اس کی جگہ کا پتہ لگانے کے قابل نہیں رہی تھی۔‘

انھوں نے کہا کہ یہ ممکن ہے کہ پائلٹ کے نکلنے کے بعد بھی طیارہ فضا میں اڑتا رہا ہو، لیکن یہ کہ ’انجیکشن سیٹ سے طیارے کو پہنچنے والے نقصان‘ اور ’کینوپی ختم ہونے پر ایرو ڈائنامکس میں تبدیلی‘ کی وجہ سے اس کا ’زیادہ امکان نہیں‘ تھا۔

خیال رہے کہ اس طیارے کو اسلحہ بنانے والی کمپنی لاک ہیڈ مارٹن نے بنایا ہے اور کہا جاتا ہے کہ ہر ایک طیارے کی قیمت تقریباً آٹھ کروڑ ڈالر ہے اور یہ دنیا کے جدید ترین لڑاکا طیاروں میں سے ایک ہے۔

ایف 35 دنیا میں اپنی نوعیت کا سب سے بڑا اور مہنگا ہتھیاروں کا پروگرام ہے۔

امریکی میڈیا کی رپورٹ کے مطابق یہ طیارہ ایف بی 35 بی لائٹننگ ٹو میرین فائٹر اٹیک ٹریننگ سکواڈرن 501 کا حصہ تھا۔ امریکی فضائیہ کا یہ سکوارڈرن پائلٹوں کو تربیت دینے کا کام کرتا ہے۔

سنہ 2018 میں امریکی فوج نے جنوبی کیرولینا میں ایک حادثے کے بعد عارضی طور پر ایف 35 لڑاکا طیاروں کے اپنے پورے بیڑے کو گراؤنڈ کر دیا تھا۔

اس کے علاوہ سنہ 2022 میں ایف 35 سی طیارہ بحیرہ جنوبی چین میں ایک امریکی طیارہ بردار بحری بیڑے یو ایس ایس کارل ونسن سے اڑان بھرتے وقت ایک ’حادثے‘ کا شکار ہو گیا تھا۔

یہ طیارہ ایک جنگی مشق کے دوران امریکی طیارہ بردار بحری بیڑے کارل ونسن پر کریش لینڈنگ کے دوران تباہ ہوا تھا اور اس حادثے میں سات افراد زخمی ہوئے تھے۔

جس کے بعد چین اور امریکی نیوی کے درمیان سمندر میں اس طیارے تک پہلے پہنچنے کی دوڑ شروع ہو گئی تھی لیکن امریکی فوج ہی آخر اسے ڈھونڈنے میں کامیاب رہی تھی۔

ایف 35 بی اتنا خاص کیوں ہے؟اس طیارے میں نیٹ ورک سے چلنے والا مشن سسٹم ہے، جو دوران پرواز جمع کی جانے والی معلومات کو اسی وقت میں شیئر کرنے کی اجازت دیتا ہے۔میرین کور کا یہ طیارہ ہیلی کاپٹر کی طرح لینڈ کر سکتا ہے اور چھوٹے پٹی یا رن وے سے ارسکتا ہے۔اس طیارے میں دنیا کا سب سے طاقتور لڑاکا انجن ہے اور یہ 1,200 میل فی گھنٹہ کی رفتار سے نشانہ بنا سکتا ہے۔یہ جہاز اپنے پنکھوں پر دو جبکہ اپنے اندر چار میزائل رکھنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔
مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More