’سمندر، مخصوص کمپاؤنڈ اور گیسز‘: دور دراز سیارے کےٹو-18بی پر زندگی کے ممکنہ آثار کی نشاندہی

بی بی سی اردو  |  Sep 18, 2023

NASAکے 2 - 18 بی سیارے کا خاکہ

خلائی ایجنسی ناسا کی جیمز ویب سپیس ٹیلی سکوپ نے خلا میں دور دراز سیارے پر زندگی کے آثار کی ممکنہ موجودگی کے شواہد دریافت کر لیے ہیں۔

اس ٹیلی سکوپ نے ڈائمتھائل سلفائیڈ (ڈی ایم ایس) نامی مالیکیول کی ممکنہ نشان دہی کی ہے۔ کم از کم زمین پر یہ کمپاؤنڈ صرف زندہ چیزوں کی جانب سے پیدا ہوتا ہے۔

محققین نے زور دیا ہے کہ 120 نوری سال دور سیارے پر نشان دہی ’مضبوط نہیں‘ اور اس کی موجودگی کی تصدیق کے لیے مزید ڈیٹا اور معلومات درکار ہیں۔

محققین نے سیارے کی فضا میں میتھین اور کاربنڈائی آکسائڈ کا بھی پتہ لگایا ہے۔

ان گیسوں کی نشاندہی کا ممکنہ مطلب یہ ہے کہ سیارہ ’کے 2-18 بی‘ میں پانی کا سمندر ہے۔

تحقیق کی قیادت کرنے والے یونیورسٹی آف کیمبرج کے پروفیسر نکو مدھوسودھن نے بی بی سی نیوز کو بتایا کہ جب ان کی پوری ٹیم نے نتائج دیکھے تو وہ ’حیران‘ رہ گئے۔

انھوں نے کہا ’زمین پر، ڈی ایم ایس صرف زندگی سے پیدا ہوتا ہے۔ زمین کے ماحول میں اس کا بڑا حصہ سمندری ماحول میں فائٹوپلانکٹن سے خارج ہوتا ہے۔‘

نتائج کے متعلق احتیاط

لیکن پروفیسر مدھوسودھن نے ڈی ایم ایس کی نشاندہی کو عارضی قرار دیا اور کہا کہ اس کی موجودگی کی تصدیق کے لیے مزید ڈیٹا کی ضرورت ہوگی۔ یہ نتائج ایک سال میں متوقع ہیں۔

انھوں نے کہا ’اگر تصدیق ہوتی ہے تو یہ بڑی چیز ہو گی اور مجھے یہ ذمہ داری محسوس ہوتی ہے کہ اگر ہم اتنا بڑا دعویٰ کر رہے ہیں تو اسے صحیح طرح سے کریں۔‘

یہ پہلا موقع ہے جب ماہرین فلکیات نے دور ستارے کے گرد چکر لگانے والے سیارے میں ڈی ایم ایس کے امکان کی نشاندہی کی ہے۔

لیکن وہ نتائج کے بارے میں بہت محتاط ہیں کیونکہ سنہ 2020 میں ایسا ہی دعویٰ فاسفین گیس کی موجودگی کے متعلق کیا گیا تھا جو ممکنہ طور پر وینس کے بادلوں میں موجود جانداروں کے ذریعے پیدا ہوا تھا لیکن ایک سال بعد یہ دعویٰ متنازع ہو گیا تھا۔

اس کے باوجود لندن میں رائل ایسٹرونومیکل سوسائٹی کے ڈپٹی ڈائریکٹر ڈاکٹر رابرٹ میسی کا کہنا ہے کہ وہ ان نتائج سے پرجوش ہیں۔ وہ اس تحقیق میں شامل نہیں ہیں۔

انھوں نے کہا ’ہم آہستہ آہستہ اس مقام کی طرف بڑھ رہے ہیں جہاں ہم اس بڑے سوال کا جواب دے سکیں گے کہ آیا ہم کائنات میں اکیلے ہیں یا نہیں۔‘

انھوں نے مزید کہا ’میں پر امید ہوں کہ ہمیں ایک دن زندگی کے آثار مل جائیں گے۔ شاید یہ ہو گا کہ 10 یا 50 سالوں میں ہمارے پاس ایسے ثبوت ہوں گے جو بہت زبردست اور واضح ہوں۔‘

جیمز ویب سپیس ٹیلی سکوپ دور دراز سیاروں کے ماحول سے گزرنے والی روشنی کا تجزیہ کرتا ہے۔ اس روشنی میں ماحول میں موجود مولیکیولز کے کیمیائی آثار ہوتے ہیں۔

ان کی تفصیلات حاصل کرنے کے لیے اس روشنی کو اس کی اجزا کی فریکوئنسی میں تقسیم کیا جاتا ہے، یہ ایسا ہی ہے جیسے ایک پرزم سے روشنی کو گزاریں تو قوسِ و قزح کے رنگوں کی سلسلے بنتے ہیں۔

اگر تقسیم کے بعد کچھ سلسلے موجود نہ ہوں تو اس کا مطلب ہوتا ہے کہ سیارے کی فضا میں وہ کیمیکل جذب ہو جاتے ہیں اور اس طریقے سے محققین اس کی ساخت پتا لگا سکتے ہیں۔

یہ کارنامہ اس لیے بھی زیادہ قابل ذکر ہے کیونکہ وہ سیارہ 1.1 ملین بلین کلومیٹر سے زیادہ دور ہے، لہٰذا خلائی دوربین تک پہنچنے والی روشنی کی مقدار بہت کم ہے۔

ڈی ایم ایس کے ساتھ ساتھ، سپیکٹرل تجزیے نے کافی اعتماد کے ساتھ میتھین اور کاربن ڈائی آکسائیڈ گیسوں کی کثرت سے موجودگی کی نشاندہی کی ہے۔

کاربن ڈائی آکسائڈ اور میتھین کا تناسب ہائیڈروجن سے بھرپور ماحول کے نیچے آبی سمندر ہونے کے ساتھ مطابقت رکھتا ہے۔ ناسا کی ہبل ٹیلی سکوپ نے یہاں پہلے پانی کے بخارات کی موجودگی کا پتہ لگایا تھا۔

سیارہ کے 2- 18 بی جیمز ویب سپیس ٹیلی سکوپ کے ذریعے تحقیق کیے جانے والے سیاروں میں سے ایک ہے لیکن سمندر کے موجودگی کا امکان ہونا ایک بہت بڑی پیش رفت ہے۔

’کے ٹو-18 بی‘ اور سیارے پر زندگی کے آثار کی موجودگی کی شرائط

کسی بھی سیارے میں زندگی کے آثار کی موجودگی کا انحصار اس کے درجہ حرارت، اس پر کاربن اور لکویڈ واٹر کی موجودگی سے ہوتا ہے۔ جیمز ویب ٹیلی سکوپ کے تجزیے سے معلوم ہوتا ہے کہ ’کے ٹو-18 بی‘ ان تمام شرائط پر پورا اترتا ہے۔

تاہم کسی سیارے میں اگر زندگی کو سپورٹ کرنے کی استعداد ہے تو اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ یہاں زندگی موجود بھی ہے۔ اسی وجہ سے اس سیارے پر ڈی ایم کی موجوگی خاصی دلچسپ ہے۔

اس سیارے کو جو چیز مزید دلچسپ بناتی ہے وہ یہ کہ یہ زمین کی طرح کا سیارہ نہیں ہے۔ یعنی یہ پتھریلا نہیں ہے جیسے دیگر ایسے سیارے ہیں جہاں زندگی کی موجودگی کے امکانات موجود ہیں۔ کے 2-18 بی حجم میں زمین سے نو گنا بڑا ہے۔

ایگزوپلینٹس وہ سیارے ہوتے ہیں جو دیگر ستاروں کے گرد مدار میں گھوم رہے ہوتے ہیں۔ ان کے حجم زمین اور نیپچون سیارے کے درمیان ہے اور یہ نظام شمسی میں موجود دیگر سیاروں کے برعکس ہیں۔

کارڈف یونیورسٹی کے ڈاکٹر سبھاجیت سرکار جو اس حوالے سے جائزہ لینے والی ٹیم کے رکن ہیں کا کہنا ہے کہ اس کا مطلب یہ ہے کہ ان ’سب-نیپچونز‘ کے بارے میں ہمیں مکمل آگاہی نہیں ہے اور ان کے ماحول کے بارے میں بھی۔

ان کا کہنا تھا کہ ’اس قسم کا سیارہ ہمارے نظامِ شمسی میں موجود نہیں ہے لیکن سب-نیپچونز اب تک ہماری کہکشاں میں موجود سیاروں میں سب سے عام ہیں۔

’اب تک ہم نے کسی بھی ایسے سب-نیپچون کے حوالے سے سب سے زیادہ تفصیلات حاصل کی ہیں اور اس کی وجہ سے ہم اس پر موجود مالیکیولز کو جانچنے میں کامیاب ہوئے ہیں۔‘

مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More