Getty Images
اگرچہ جنگ اور جارحیت کا کوئی قاعدہ نہیں ہوتا مگر جب تک پاسبانی کو کچھ عقل میسر نہ ہو، ہر دلیری کا بے سود رہنا مقدر بن جاتا ہے۔ سری لنکن جارحیت کو بھی یہاں عقل سے کوئی سروکار نہ تھا۔
ٹاس کے لمحے بھلے روہت شرما قدرے ملول رہے ہوں کہ بارش کے خدشات میں گِھرے اس قدر اہم میچ میں پہلے بیٹنگ اور سکور کارڈ پہ ایک خاطر خواہ مجموعہ ہی ہمیشہ محفوظ انتخاب ہوا کرتا ہے مگر انڈین پیس اٹیک نے پہلے ہی اوور سے کھیل کی جو سمت طے کی، وہ شرما کے لئے بھی خوش نصیبی سے بڑھ کر تھا۔
ماضی قریب میں سری لنکن بیٹنگ اپنی کم مائیگی کو جارحیت کے لبادے میں چھپانے کی کوشش کرتی آئی ہے اور کئی ایک بار یہ حکمت عملی نفع بخش بھی ثابت ہوئی کہ حریف پیسرز دباؤ کا شکار ہو کر اپنی مبادیات ہی بھول بیٹھے اور بازی سر کر لی گئی۔
پاکستان کے خلاف بھی سری لنکن ٹاپ آرڈر یہی سٹریٹیجی لے کر چلا تھا اور شاہین آفریدی اپنے پہلے سپیل میں بھٹکتے پائے گئے۔ یہاں انڈیا کے خلاف بھی یہی محفوظ سبیل تصور کی گئی کہ انڈین بولنگ بھی دباؤ میں آ جائے گی اور منزل سہل ہو پائے گی۔
مگر بمرا اپنی لینتھ میں اس قدر سائنسی درستی دکھاتے ہیں کہ شاذ ہی کسی اوپنر کو ہاتھ کھولنے کا موقع ملتا ہے۔
بظاہر بمرا کی لینتھ ہمیشہ بلے باز کو ڈرائیو پہ مدعو کرتی ہے مگر تیر کمان سے نکلنے کے بعد ہی اپنی کم مائیگی بلے باز پہ آشکار ہو پاتی ہے، جب گیند اڑ کر کورز میں جانے کی بجائے وکٹوں کے پیچھے کسی ہاتھ میں محفوظ ہو چکی ہوتی ہے۔
محمد سراج مگر وہ چکا چوند نہیں دیکھ پاتے جو بمرا کو نصیب ہوتی ہے۔ بطور میڈیم پیس سیمر، ان کا کردار عموماً اپنی نپی تلی لینتھ سے، دوسرے کنارے سے حملہ آور بمرا کی تائید کرنا ہوتا ہے۔
مگر یہاں سراج نے بمرا پر سبقت حاصل کی اور سری لنکن بلے باز سر پیٹتے رہ گئے۔
Getty Images
مطلع ابر آلود ہو تو حالات ہمیشہ ہی سیم بولنگ کے لیے سازگار رہا کرتے ہیں۔ یہاں کھیل کے آغاز سے چند لمحے پہلے سری لنکن مون سون نے ایشیا کپ کو جو حتمی جھلک دکھلائی، اس کے بعد سیمرز کی موافقت مزید بڑھ چکی تھی۔
سری لنکن بلے بازوں کے پاس کوئی پلان بی نہیں تھا۔ نہ ہی کہیں انہیں یہ متوقع تھا کہ سراج کی میڈیم پیس سیم بھی اس قدر مہلک گزرے گی کہ پانی کے وقفے سے پہلے ہی ساری بساط سمٹ جائے گی۔
جو لینتھ ٹی ٹونٹی کرکٹ میں بولرز کے لئے موت کا ساماں تصور کی جاتی ہے، اسی لینتھ نے سری لنکن بلے بازوں کے لئے وہ دامِ تزویر بچھایا کہ صورتحال سے ہم آہنگ ہونے کی مہلت ہی میسر نہ ہو پائی۔
قدم کریز میں منجمد رہ گئے، جسم حرکت سے معذور ٹھہرے اور انہیں یہ سمجھنا بھی دشوار ہو رہا کہ سوئنگ اور سیم کے اس تال میل میں بلے کا اندرونی کنارہ کہاں کو جا رہا ہے اور باہری کنارہ کدھر کو؟
یہ ناممکن نہیں تھا کہ جب پچ میں اس قدر وافر حرکت موجود تھی اور بادل بھی اپنا کردار نبھا رہے تھے تو سری لنکن بلے باز ابتدائی نقصان سے سمجھوتہ کر کے خود کے لئے کوئی نیا کردار وضع کرتے اور دھیرے دھیرے اننگز بُننے کی کوشش کرتے۔
بھلے اپنی چال میں یہ اننگز ازمنۂ قدیم کی یادگار ہوتی مگر بہرطور پچاس اوورز کے اختتام تک سری لنکن بولنگ کو کوئی ایسا مجموعہ تو فراہم کر جاتی جہاں لڑائی لڑنے کو بھی کوئی وجہ مل پاتی مگر یہ ہدف تو چار اوورز کی ہی مار تھا۔
اپنے بہاؤ میں یہ ایشیا کپ جس قدر ڈانواں ڈول رہا ہے، فائنل اس ڈگمگاہٹ کا نقطۂ تکمیل ثابت ہوا جہاں موسم تو اگرچہ یوں نہ ڈگمگایا مگر سبھی توقعات کو شکست دے کر فائنل تک رسائی پانے والے سری لنکن قدم یوں ڈگمگائے کہ براڈکاسٹرز کی توقعات بھی منہ کے بل گر پڑیں۔
کہنے کو یہ ایک روزہ میچ تھا مگر اپنی تفصیل میں یہ سری لنکن ِکٹ پہ دمکتے سپانسر 'ٹی ٹین گلوبل' کا اشتہار ہی ثابت ہوا جہاں ایشیا کے آئندہ چیمپئین کا فیصلہ کرنے کو پورا دن نہیں، فقط دو ہی گھنٹے بہت ٹھہرے۔