انڈیا میں آزادئ صحافت پر بحث: حزب اختلاف کا 14 اینکروں کے پروگرامز کے بائیکاٹ کا فیصلہ کیوں؟

بی بی سی اردو  |  Sep 17, 2023

Getty Images

انڈیا میں حکمراں جماعت بی جے پی سے آنے والے انتخابات میں مقابلہ کرنے کے لیے بنے بڑے حزب اختلاف کے اتحاد ’انڈیا‘ نے غیر معمولی اعلان کرتے ہوئے 14 ٹی وی اینکرز کی فہرست جاری کی ہے اور کہا ہے کہ ان اینکروں کے پروگراموں میں ان کے نمائندے شرکت نہیں کریں گے۔

انڈیا اتحاد نے کہا ہے کہ انھوں نے ان ٹی وی اینکرز کے پروگراموں کا بائیکاٹ کرنے کا فیصلہ اس لیے کیا ہے کہ وہ ’نفرت سے بھری‘ خبروں کے مباحثے چلاتے ہیں۔

اس فیصلے کا اعلان کرتے ہوئے کانگریس کے ترجمان پون کھیڑا نے کہا کہ ’ہر شام پانچ بجے بعض چینلز پر نفرت کا بازار لگایا جاتا ہے۔ گذشتہ نو برسوں سے یہی جاری ہے۔ مختلف جماعتوں کے بعض ترجمان ان بازاروں میں شریک ہوتے ہیں۔ کچھ ماہرین جاتے ہیں، کچھ تجزیہ کار جاتے ہیں۔۔۔لیکن سچ یہ ہے کہ نفرت کے بازار میں ہم سب وہاں گاہک کے طور پر جاتے ہیں۔‘

انھوں نے مزید کہا کہ ’ہم نفرت سے بھرے بیانیے کی اجازت نہیں دے سکتے۔ یہ بیانیہ معاشرے کو کمزور کر رہا ہے۔ معاشرے میں نفرت پھیلاتے ہیں تو یہ تشدد کی شکل بھی اختیار کر لیتا ہے۔ ہم اس کا حصہ نہیں بنیں گے۔‘

اس فیصلے کے بعد انڈیا میں صحافت کی صورت حال اور آزادئ صحافت کے متعلق ایک نئی بحث چھڑ گئی ہے۔

نیوز براڈکاسٹرس اینڈ ڈیجیٹل ایسوسی ایشن (این بی ڈی اے)، کچھ نیوز اینکروں اور حکمراں جماعت بی جے پی نے 'انڈیا' اتحاد کے اس فیصلے پر سخت ردعمل کا اظہار کیا ہے۔

اے بی پی نیٹ ورک کے سی ای او اور این بی ڈی اے کے صدر اویناش پانڈے نے اس فیصلے پر کہا کہ ’یہ فیصلہ میڈیا کا گلا گھونٹنے کے مترادف ہے۔ جو اتحاد جمہوری اقدار اور آزادی اظہار کی بات کرتا ہے وہ اسے ختم کرتا نظر آ رہا ہے۔ لیکن ہم اپنے ہر شو میں سبھی کو مدعو کریں گے۔‘

Getty Images

این بی ڈی اے نے کہا ہے کہ ’اپوزیشن اتحاد کے نمائندوں کو انڈیا کے کچھ سرکردہ ٹی وی نیوز اینکرز کے پروگراموں میں شرکت سے روکنا جمہوری اقدار کے خلاف ہے۔ یہ عدم برداشت کی علامت ہے اور آزادئ صحافت کو خطرے میں ڈالتی ہے۔ اپوزیشن اتحاد خود کو تکثیریت اور آزاد صحافت کا حامی کہتا ہے لیکن اس کا فیصلہ جمہوریت کے بنیادی اصولوں پر حملہ ہے۔‘

'انڈیا' نامی اتحاد کے اس فیصلے کی بی جے پی صدر جے پی نڈا نے سخت تنقید کی ہے۔

انھوں نے کہا کہ ’نیوز اینکرز کی ایسی فہرست جاری کرنا نازیوں کے کام کرنے کا طریقہ ہے، جس میں یہ طے ہوتا ہے کہ کس کو نشانہ بنانا ہے۔ اس وقت بھی ان جماعتوں کے اندر ایمرجنسی کے وقت کی ذہنیت برقرار ہے۔‘

Getty Images

انھوں نے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس (ٹوئٹر) پر لکھا کہ ’پنڈت نہرو نے فری سپیچ کو کمزور کیا۔ اندرا جی ایسے کام کرنے کی گولڈ میڈلسٹ تھیں۔ راجیو جی نے میڈیا کو کنٹرول کرنے کی کوشش کی لیکن بری طرح ناکام رہے۔ سونیا جی کی قیادت والی یو پی اے اتحاد صرف اس لیے سوشل میڈیا ہینڈل پر پابندی لگا رہا تھا کیونکہ کانگریس کو ان کے خیالات پسند نہیں تھے۔‘

اس فہرست میں موجود ناموں کی فہرست کو شیئر کرتے ہوئے معروف وکیل اور ایکٹوسٹ پرشانت بھوشن نے ٹویٹ کیا کہ ’انڈیا اتحاد کی طرف سے معروف گوڈی میڈیا اینکرز کا نام لینے اور ان کا بائیکاٹ کرنے کا یہ فیصلہ طویل عرصے سے التواء کا شکار تھا۔

’میں نے بہت پہلے ایسے میڈیا چینلز پر جانے سے انکار کر دیا تھا جو نفرت اور جعلی خبریں پھیلانے کے بی جے پی کے ایجنڈے کا حصہ بن چکے تھے۔ آہستہ آہستہ اس فہرست میں این ڈی ٹی وی کے علاوہ تمام مین اسٹریم چینلز شامل ہو گئے۔ یہ اڈانی کے قبضے کے بعد گرنے والا آخری تھا، حالانکہ یہ اب بھی بہتر ہے۔ شکر ہے کہ کچھ چینلز سامنے آئے ہیں جو آزاد ہیں۔‘

'سب سے اہم بات یہ ہے کہ گوڈی میڈیا کو چھوڑنے والے بہت سے اچھے صحافیوں نے اپنے یوٹیوب چینل بنائے ہیں اور بہت اچھا کام کر رہے ہیں۔ امید ہے کہ اس سے ہماری جمہوریہ بچ جائے گی۔'

مقبول نیوز اینکر روبیکا لیاقت نے اپنا نام انڈیا اتحاد کی بائیکاٹ لسٹ میں شامل ہونے پر لکھا ہے کہ ’اسے پابندی نہیں، ڈرنا کہتے ہیں۔ اسے صحافیوں کا بائیکاٹ نہیں بلکہ سوالوں سے بھاگنا کہتے ہیں۔ آپ لوگوں کو ہاں میں ہاں ملانے والوں کی عادت ہے۔ میں نے نہ کل ایسا کیا اور نہ آئندہ کروں گی۔ ہمت ہے ان لیڈروں پر پابندی لگا دیں جو محبت کی دکان پر نفرت کی خدمت کر رہے ہیں۔ سوالات تھے، ہیں اور آئندہ بھی اٹھتے رہیں گے۔ جئے ہند۔‘

'انڈیا' اتحاد کے اس فیصلے کے خلاف این بی ڈی اے، کچھ میڈیا تنظیموں کے سربراہوں اور ممنوعہ اینکرز کے تبصروں کے بعد، کچھ لیڈروں اور سینیئر صحافیوں نے بی جے پی کو اس کے پرانے دن یاد دلائے ہیں۔

یہ بھی پڑھیے

’کوئی بھی خبر آپ کی آخری خبر ہو سکتی ہے‘

کیا انڈیا اور پاکستان میں صحافت آزاد ہے؟

انڈیا: پولیس سٹیشن میں صحافیوں کے کپڑے اتروانے اور تصویر وائرل ہونے کا معاملہ

Getty Imagesپرینکا چترویدی

شیو سینا (یو بی ٹی) کی رہنما پرینکا چترویدی نے لکھا کہ ’بی جے پی نے برسوں نہیں تو چند مہینوں تک (اڈانی دور سے پہلے) این ڈی ٹی وی کا بائیکاٹ کیا۔ اس وقت انھیں نے یہ درد نہیں سنائی پڑا۔ پچھلے کئی سالوں سے کچھ 'صحافی' تفرقہ انگیز، نفرت سے بھرے پروگرام چلا رہے ہیں۔ ان کے نتائج صاف نظر آ رہے تھے۔ کیا اس وقت کسی نے یہ ہدایت نہیں پڑھی تھیں؟‘

انھوں نے مزید لکھا کہ ’پچھلے کئی سالوں سے، ٹی وی نیوز انٹرٹینمنٹ میڈیا برابری کا میدان دینے سے انکار کر رہا ہے۔ اس وقت اس نے اپنے قدم کی مخالفت کی کوئی آواز نہیں سنی۔ لیکن 'انڈیا' نے اب اس طرح کے ٹاک شوز میں شرکت نہ کرنے کا فیصلہ کیا ہے کیونکہ پریس کی آزادی خطرے میں ہے۔‘

این ڈی ٹی وی کے سابق اینکر رویش کمار نے بھی ٹویٹ کرتے ہوئے اس فیصلے پر تبصرہ کیا کہ ’سات سال تک بائیکاٹ کا سامنا کرنا پڑا۔ سات گھنٹے بھی نہیں گزرے۔ لگتا ہے کل وزیراعظم پہلی بار پریس کانفرنس کر ہی دیں گے۔ آزادی صحافت کے تحفظ کے لیے۔ جہاں یہ تمام لوگ سوال کرتے نظر آئیں گے۔ اس کے بعد یہ تمام لوگ ثنا ارشاد مٹو کے پاس اس کے لیے معافی مانگنے جائيں گے۔‘

انھوں نے مزید لکھا: ’فوٹو جرنلسٹ دانش صدیقی کے قتل کے بعد دو لفظ نہیں کہے گئے۔ کس نے کہا نہیں، کیا آپ ان کا نام جانتے ہیں؟ مندیپ پونیا کے پیج کو بلاک کرنے کا نوٹس کس حکومت نے بھیجا تھا؟ کیا آپ نام جانتے ہیں؟ گوڈی میڈیا انڈیا کی جمہوریت کے لیے خطرہ ہے۔ اپوزیشن کو اپنے ہر جلسے میں عوام کو بتانا چاہیے۔ اگر وہ یہ کام نہیں کرتا تو جمہوریت کے مستقبل کے بارے میں وہ سنجیدہ نہیں ہے۔‘

سوشل میڈیا پر مباحثہ شدید ہے اور اظہار رائے کی آزادی اور پریس کی آزادی کی دہائی دی جا رہی ہے۔ اس کے متعلق ٹی وی پر بعض اینکروں نے ڈیبیٹ بھی کی ہے۔ جبکہ بعض صارفین کا کہنا ہے کہ جو لوگ اتنے دنوں تک صحافت کے اصولوں کی دھجیاں اڑاتے رہے انھیں اب صحافت کی آزادی کی بات یاد آ رہی ہے۔

توثیق حمید نامی ایک صارف نے محمد زبیر کے ٹویٹ کا جواب دیتے ہوئے لکھا کہ ’دلچسپ حقیقت: 'گودی میڈیا' کے بائیکاٹ کی اپیل نے بی جے پی کو غصہ دلا دیا ہے اور جب حزب اختلاف گودی میڈیا چینل پر پینل ڈسکشن میں بی جے پی سے سوال کرتا ہے تو ایسے ہی غصے کا اظہار اینکروں کی جانب سے ہوتا ہے۔ یہ آپ کو بی جے پی- گودی اتحاد کے بارے میں سوچنے پر مجبور کرتا ہے۔۔۔‘

بہر حال گذشتہ روز بہار کے وزیر اعلیٰ نتیش کمار جو اس 'انڈیا' اتحاد کا حصہ ہیں ان سے جب صحافیوں نے اس بابت سوال کیا تو انھوں نے کہا کہ وہ کسی کے خلاف نہیں ہیں اور جب اصلی آزادی مل جائے گی تو جس کو جی میں آئے لکھے گا۔ ہم نے کسی پر پابندی نہیں لگائی ہے۔

جبکہ کرناٹک کے وزیر اعلیٰ سدھا رمیا نے کہا کہ جب وزیر اعظم نریندر مودی نے تمام صحافیوں کا گذشتہ دس برسوں میں کوئی بھی پریس کانفرنس نہ کرکے بائیکاٹ کر رکھا ہے تو صرف 14 اینکروں کا بائیکاٹ کہاں غلط ہو گیا۔

دوسری جانب کانگریس کے ترجمان رندیپ سنگھ سورجے والا نے کہا ہے کہ انھوں نے بائیکاٹ نہیں کیا ہے بلکہ وہ ان کے ساتھ انگیج نہیں ہونا چاہتے ان کے ساتھ ان کے ایجنڈے میں تعاون نہیں کرنا چاہتے یہ ایک طرح سے عدم تعاون تحریک ہے۔

بہر حال کچھ لوگ سوشل میڈیا پر یہ بھی کہہ رہے ہیں کہ ایسے چینلوں کو اشتہار بھی دینا بند کر دینا چاہیے جو نفرت پھیلا رہے ہیں۔

انڈیا اتحاد نے 14 اینکرز کی فہرست جاری کی ہے جن کے پروگراموں میں ان کے اتحاد میں شامل کسی بھی پارٹی کے رہنماؤں نے شرکت نہ کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔

یہ اینکرز ادیتی تیاگی، امن چوپڑا، امیش دیوگن، آنند نرسمہن، ارنب گوسوامی، اشوک سریواستو، چترا ترپاٹھی، گورو ساونت، نویکا کمار، پراچی پراشر، روبیکا لیاقت، شیو ارور، سدھیر چودھری، اور سوشانت سنہا ہیں۔

مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More