ایک زمانے میں انٹارکٹیکا کے بارے میں خیال کیا جاتا تھا کہ ’گلوبل وارمنگ‘ یا دنیا کا بڑھتا ہوا درجہ حرارت اس پر اثر انداز نہیں ہو گا۔ لیکن اب یہ تصور ناصرف بدل رہا ہے بلکہ انٹارکٹیکا میں ایک نیا خطرہ جنم لے رہا ہے۔
حال ہی میں سیٹلائیٹ کی مدد سے حاصل کردہ ڈیٹاکی مدد سے معلوم ہوا ہے کہ انٹارکٹیکا کے گرد موجود برف کی تہہ ماضی میں کسی بھی موسم سرما کی نسبت بہت کم ہے۔
والٹر میئر نیشنل سنو اینڈ آئس ڈیٹا سینٹر میں کام کرتے ہیں اور سمندری برف پر نظر رکھتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ’انٹارکٹیکا کے گرد موجود برف کی موجودہ کیفیت ہوش اڑانے والی ہے۔‘
ماہرین نے خبردار کیا ہے کہ غیر مستحکم انٹارکٹیکا کے دوررس اثرات ہو سکتے ہیں۔
واضح رہے کہ انٹارکٹیکا کی برفانی وسعت کرہ ارض کے درجہ حرارت کو ریگولیٹ کرتی ہے یعنی گرمی کی شدت کو معتدل کرتی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ انٹارکٹیکا کی سفید سطح سے ٹکرا کر سورج کی توانائی فضا میں واپس لوٹتی ہے جبکہ یہی سفید سطح زیرزمین اور قریبی سمندری پانیوں کو ٹھنڈا کرتی ہے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ زمین کو ٹھنڈا رکھنے والی انٹارکٹیکا کی برف کے بغیر یہ خطہ ’زمین کے ریفریجریٹر سے ریڈی ایٹر میں بدل سکتا ہے۔‘
انٹارکٹیک سمندر کی سطح پر تیرتی برف کی تہہ اب 17 ملین مربع کلومیٹر رہ گئی ہے جو ستمبر کے مہینے کی اوسط سے 15 لاکھ مربع کلومیٹر کم ہے اور ماضی میں موسم سرما میں ریکارڈ کیے جانے والے اعداد و شمار سے بہت کم ہے۔
اس کا مطلب ہے کہ انٹارکٹیکا کی برف میں سے تقریباً برطانیہ کے رقبے سے پانچ گنا زیادہ حصہ غائب ہو چکا ہے۔
ایسے میں پریشان کن بات یہ بھی ہے کہ والٹر میئر پرامید نہیں کہ سمندری برف کی یہ تہہ پرانی حالت میں بحال ہو سکے گی۔
سائنسدان ابھی ان تمام نکات کی شناخت کرنے کی کوشش کر رہے ہیں جن کی وجہ سے رواں سال برف میں کمی آئی ہے۔ انٹارکٹیکا کی جانچ کرنا تاریخی اعتبار سے ایک مشکل کام رہا ہے۔
لیکن رواں سال میں گرمی کی شدید لہر اور سمندری درجہ حرارت میں اضافے کے ریکارڈ کی وجہ سے چند سائنسدانوں کا ماننا ہے کہ سمندری برف میں کمی پر بھی دھیان دینا ہو گا۔
مینیبوٹا یونیورسٹی کے ڈاکٹر روبی میلٹ کا کہنا ہے کہ ’ہم دیکھ سکتے ہیں کہ یہ کتنی کمزور ہو چکی ہے۔‘
ان کی ٹیم تنہائی، شدید سردی اور طاقتور ہواؤں کا سامنے کرتے ہوئے انٹارکٹیکا میں کام کر رہی ہے اور ان کے مسائل میں برف کی تہہ اضافہ کر رہی ہے۔
’یہ خطرہ موجود رہتا ہے کہ برف کی تہہ ٹوٹ کر سمندر میں بہہ جائے گی اور ہمیں بھی ساتھ لے جائے گی۔‘
سمندری برف عموماً مارچ سے اکتوبر کے ماہ میں جمتی ہے جس کے بعد موسم سرما میں پگھلنا شروع ہو جاتی ہے۔ یہ ایک ایسے نظام کا حصہ ہوتی ہے جس میں برفانی تودے یا آئس برگ، زمین پر موجود برف اور ساحل سے کٹ کر سمندر میں تیرنے والے برفانی تودے شامل ہوتے ہیں۔
یہی برف سمندر کو گرم ہونے سے بچاتی ہے۔
برٹش انٹارکٹک سروے کی ڈاکٹر کیرولین ہولمز وضاحت کرتی ہیں کہ سمندری برف میں کمی کے اثرات موسم گرما کے ساتھ نظر آتے ہیں۔
جیسے جیسے سمندری برف غائب ہوتی ہے، سمندر کے تاریک علاقے سورج کی روشنی کو جذب کرتے ہیں اور حدت کی توانائی پانی میں شامل ہو جاتی ہے جس کی وجہ سے مذید برف پگھلتی ہے۔ سائنسدان اسے ’آئس البیڈو ایفیکٹ‘ کا نام دیتے ہیں۔
اس کی وجہ سے کرہ ارض میں حدت بڑھ سکتی ہے جو انٹارکٹیکا کے روایتی کردار کو متاثر کرے گی جس کے تحت یہ عالمی درجہ حرارت کو کم رکھتا ہے۔
پروفیسر مارٹن سیگرٹ ایکسٹر یونیورسٹی میں گلیشیالوجسٹ ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ’کیا ہم انٹارکٹیکا کے دیو کو جگا رہے ہیں؟ یہ دنیا کے لیے یقینی تباہی ہو گی۔‘
یونیورسٹی آف لیڈز کی سائنسدان پروفیسر اینا ہوگ بھی ایسے ہی خدشات کا اظہار کرتی ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ’انٹارکٹیکا میں برف کے ساتھ جو کچھ ہو رہا ہے وہ تمام اندازوں میں سے سب سے برا منظر نامہ ہے۔‘
1990 سے انٹارکٹیکا کی سطح سے برف کے ضائع ہونے کی وجہ سے سمندری سطح سات عشاریہ دو ایم ایم بڑھی ہے۔
سمندری کی سطح میں معمولی سا اضافہ بھی خطرناک طوفانوں کو جنم دے سکتا ہے جو ساحلی آبادیوں کو مٹا کر رکھ سکتے ہیں۔ اگر زیادہ بڑی تعداد میں برف پگھلنا شروع ہو گئی تو اس کے اثرات دنیا بھر کے لاکھوں کروڑوں افراد پر ہوں گے۔
’ہم نے کبھی نہیں سوچا تھا کہ یہاں پر بھی ایسا ہو سکتا ہے‘
انٹارکٹیکا چاروں طرف سے پانی میں گھرا ہوا ہے۔ اس کا اپنا موسم اور نظام ہوا کرتا تھا۔ 2016 تک انٹارکٹیکا کے گرد موسم سرما کے دوران سمندری برف میں اضافہ ہو رہا تھا۔
لیکن مارچ 2022 میں مشرقی انٹارکٹیکا گرمی کی ایک شدید لہر سے متاثر ہوا جس کی وجہ سے درجہ حرارت، جسے منفی 50 ڈگری کے قریب ہونا چاہیے تھا، منفی 10 ڈگری تک جا پہنچا۔
پروفیسر سیگرٹ کہتے ہیں کہ ’جب میں نے 30 سال پہلے انٹارکٹیکا کا مطالعہ شروع کیا تھا تو ہم نے کبھی نہیں سوچا تھا کہ یہاں پر بھی ایسا ہو سکتا ہے۔‘
گذشتہ سات سال کے دوران تین بار موسم گرما میں سمندری برف کم سطح کا ریکارڈ توڑ چکی ہے جس میں سے ایک موقع فروری 2023 میں آیا۔
چند سائنسدانوں کا خیال ہے کہ اس خطے میں ایک بنیادی تبدیلی آ رہی ہے یعنی یہاں کے حالات بدل رہے ہیں۔ انٹارکٹیکا کی دوری اور اس کے بارے میں تاریخی حقائق کی کمی کا مطلب ہے کہ ابھی بہت کچھ نامعلوم ہے۔
ڈاکٹر روبی میلٹ کے مطابق اس خطے کو سائنسی زبان میں ابھی تک ’وائلڈ ویسٹ‘ سمجھا جاتا ہے۔
سائنسدان یہ تو جانتے ہیں کہ سمندری برف کتنی چوڑائی رکھتی ہے لیکن اس کی موٹائی کے بارے میں وہ نہیں جانتے۔ اس پہیلی کا جواب تلاش کرنے سے ان کو خطے کے ماحولیاتی ماڈل کے بارے میں جاننے میں مدد ملے گی۔
ڈاکٹر میلٹ اپنی سائنسی بیس پر ریڈار آلات کے ذریعے سمندری برف کی موٹائی جانچنے کی کوشش میں مصروف ہیں۔ اس بین الاقوامی تحقیقی منصوبے کو ’ڈیفائنٹ‘ کا نام دیا گیا ہے۔
دیگر سائنسدانوں کے ساتھ مل کر وہ کم ہوتی برف کی گتھیاں سلجھانے کی کوشش میں مصروف ہیں۔
وہ کہتے ہیں کہ ’ایک امکان یہ بھی ہے کہ یہ قدرتی تبدیلیوں کا اظہار ہے۔ یعنی بہت سے قدرتی عناصر مل کر اس خطے پر اثرانداز ہو رہے ہیں۔‘
سائنسدانوں کا خیال ہے کہ ایک عنصر رواں سال کے دوران سمندروں کا بڑھتا ہوا درجہ حرارت بھی ہے جس کی وجہ سے گرم پانی منجمند نہیں ہوتا۔
اس کے علاوہ سمندری لہروں اور ہواؤں میں بھی ایسی تبدیلیاں ہو سکتی ہیں جن سے انٹارکٹک کا درجہ حرارت بڑھا ہو گا۔ ان میں ’ال نینو‘ نامی موسمیاتی معاملہ بھی شامل ہو سکتا ہے۔
ڈاکٹر میلٹ کا کہنا ہے کہ ’پریشان ہونے کی بہت سے وجوہات ہیں۔‘
’انٹارکٹیکا میں ماحولیاتی تبدیلی کا یہ پریشان کن اشارہ ہے جو 40 سال سے موجود نہیں تھا اور صرف اب ابھر کر سامنے آیا ہے۔‘