BBC
انڈیا کی ریاست تمل ناڈو میں رہنے والے قبائل کے لوگ، جو سینکڑوں سالوں سے نیلگیرس میں آباد ہیں، اب گذشتہ کچھ برسوں سے اپنے گرد موجود تھوڈر بھینسوں کو لاحق معدومیت کے خطرے سے پریشان ہیں۔
انھیں فکر ہے کہ ان کا یہ مقدس سمجھا جانے والا جانور، جو اپنے لمبے اور بڑے سینگوں کی وجہ سے ایک خاص مقام رکھتا ہے، ناپید ہونے کے قریب ہے۔ بھوری رنگت والی نسل کی ان بھینسوں کی کم ہوتی تعداد نے یہاں کے لوگوں کو پریشان کر دیا ہے۔
تھوڈر بھینس بھی انڈیا میں خطرے سے دوچار جانوروں کی فہرست میں شامل ہو چُکی ہے۔ لہذا، مستقبل میں تھوڈر بھینسوں کی افزائش کی ضروریات کو مدنظر رکھتے ہوئے، تمل ناڈو حکومت ان بھینسوں کے بیضوں اور نطفوں کو منجمد کر رہی ہے۔
BBCشادی میں تحفے کے طور پر دی جانے والی بھینس
تھوڈر بھینسیں انڈیا کے دیگر حصوں میں نہیں پائی جاتیں۔ قابل ذکر بات یہ ہے کہ ریاست تمل ناڈو میں بھی اس نسل کی بھینسیں صرف نیلگیری کے پہاڑی علاقوں میں ہی پائی جاتی ہیں اور انڈیا کے کسی بھی اور حصے میں ان کی افزائش نسل ماحول کی وجہ سے نہیں ہو پاتی۔
شادی کے تحفے کے طور پر دلہنوں کو بھینس دینا تھوڈاس کا رواج ہے۔ خواتین شادی میں دی گئی بھینسوں کو سونے سے زیادہ قیمتی سمجھتی ہیں۔ لیکن جیسے جیسے بھینسوں کی آبادی کم ہوتی جا رہی ہے، انھیں خدشہ ہے کہ یہ رواج ختم ہو جائے گا۔
تھوڈر بھینس کے معدوم ہونے کی وجہ جاننے کے لیے بی بی سی نے وہاں کے مقامی افراد سے ملاقات کرنے اور وہاں جانے کا فیصلہ کیا۔
BBC’جس گھر میں بھینس نہ ہو اسے اچھا نہیں سمجھا جاتا‘
ہماری ملاقات 24 سالہ گریجویٹ سچترا سے ہوئی۔ ان کا گھر نیرکاسی مانت نامی علاقے میں واقع ہے۔ ان کے گھر کے قریب بھینسوں کا ایک باڑہ تھا۔ بھینسوں کو کوئی نہیں باندھتا۔ وہ خود ہی چرتی ہیں اور سورج کے غروب ہوتے ہی گھر لوٹ آتی ہیں۔
اُس علاقے میں ہر بھینس کا ایک نام ہوتا ہے۔ سچترا کے والد کے پاس اس وقت پانچ بھینسیں ہیں۔ سچترا نے کہا کہ ’تھوڈر کلچر میں پیدائش سے لے کر موت تک کئی رسومات میں بھینسوں کی ضرورت ہوتی ہے۔‘
وہ کہتی ہیں کہ ’بھینس ہمارے پیدا ہونے کے بعد سے ہمارے ساتھ رہتی ہیں۔ بچے کی پیدائش کے ساتھ ہی ماں اُسے بھینس تحفے میں دیتی ہیں۔ شادی کے وقت خاتون کو جہیز میں بھی بھینس بطور تحفہ دی جاتی ہے۔ انڈیا میں ہونے والا سالٹ فیسٹیول ہمارے لیے ایک اہم تہوار ہے۔ اس بھینس کو نمکین پانی پلانا بھی ہمارے رواج میں شامل ہے۔‘
سچترا نہ مزید کہا کہ ’ہم کسی کی وفات کے موقع پر بھینسوں کی پوجا کریں گے۔ ہم مندر میں بھینسوں کے بارے میں گیت گائیں گے۔ ہم اپنے مندر میں بھینس کے تیل سے ہی چراغ جلائیں گے۔ جس گھر میں بھینس نہ ہو اُسے اچھا نہیں سمجھا جاتا۔‘
BBCماں پر گھریلو تشدد
ہم نے یہ جاننے کی کوشش کی قبائل کی خواتین بھینس کو سب سے زیادہ قیمتی شے کیوں تصور کرتی ہیں؟ سچترا نے ہمیں بتایا کہ ’اُن کی دادی، والدہ اور ان کے اپنے خاندان میں بہت سے لوگوں نے بھینس کو ایک خوش قسمتی کی علامت کے طور پر دیکھا ہے۔‘
وہ بتاتی ہیں کہ ’میری دادی کو اُن کی شادی کے موقع پر 25 بھینسیں جہیز میں ملیں جس کے بعد اُنھوں نے میری والدہ کو 10 سے 15 بھینسیں دیں۔‘
سچترا نہ بی بی سی کو بتایا کہ ’میری دو بہنیں ہیں۔ لیکن ان کی شادی کے وقت میرے والد انھیں صرف دو دو بھینسیں ہی جہیز میں دے سکے۔ مجھے نہیں معلوم کہ وہ میری شادی پر مجھے بھینس دے پائیں گے یا نہیں۔‘
انھوں نے کہا کہ ’عقیدہ یہ ہے کہ ایک عورت جتنی بھینسیں شادی کے بعد اپنے ساتھ جتنی بھینسیں ساتھ لائے گی، گھر میں اُتنی ہی دولت آئے گی۔ یعنی کہ جیسے جیسے بھینسیں بڑھیں گی، خاندان خوشحال ہوتا چلا جائے گا۔‘
BBCبھینسوں کی تعداد میں کمی کیوں ہوتی جا رہی ہے؟
تمل ناڈو حکومت کی وزارت حیوانات کے اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ گذشتہ 20 سالوں میں بھینسوں کی آبادی میں تیزی سے کمی واقع ہوئی ہے۔
لائیو سٹاک کی جانب سے جاری ایک رپورٹ کے مطابق 1994 میں ان بھینسوں کی تعداد 3,531 تھی۔ یہ تعداد 2023 میں کم ہو کر صرف 1,600 رہ گئی ہے۔ یعنی بھینسوں کی تعداد نصف کم ہو گئی ہے۔
ایک مقامی شخص وساملی کا کہنا ہے کہ ’بھینسوں کی تعداد میں کمی کی بنیادی وجہ نیلگیری میں عوامی مقامات پر بہت سے ایسے میدانوں میں تعمیرات کا ہو جانا ہے جہاں یہ بھینسیں چرنے کے لیے آزادی سے گھوما کرتی تھیں۔‘
وہ کہتے ہیں کہ ’جب ہم چھوٹے تھے تو ہم بھینسیں چراتے تھے اور بہت سی جگہوں پر اسی دوران کھالا کرتے تھے۔ اب گھاس کے میدان بہت سکڑ چکے ہیں۔ کچھ بھینسیں جنگلی جانوروں کے حملوں میں اس وقت مر جاتی ہیں جب وہ چرنے کی غرض سے جنگل کا روخ کرتی ہیں۔
وساملی نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’جہاں ہم رہتے ہیں اس کے قریب تفریحی پارکس بن گئے ہیں۔ چرنے کے لیے گھاس نہ ہونے کی وجہ سے ہماری بھینسیں مناسب خوراک سے محروم ہو گئی ہیں۔ نیلگیری پہاڑیاں اب مکمل طور پر سیاحتی مقام بن چکی ہیں۔ یہ پُرسکون اور ان بھینسوں کی افزائش کی جگہ اب نا ہونے کے برابر ہو کر رہ گئی ہے۔‘
انھوں نے یہ بھی بتایا کہ ’برادری نے اس سال بھینسوں کے لیے خصوصی دعا کا اہتمام کیا ہے کیونکہ بھینسوں کی کم ہوتی آبادی کو برادری کی نظر میں ایک بُرا اشارہ سمجھا جاتا ہے۔‘
BBCذرخیز زمین کی کمی
محکمہ حیوانات کے حکام کا کہنا ہے کہ بڑی تعداد میں لوگوں نے ان گلہ بانی کو چھوڑ کر سیاحت سے وابستہ روز گار کو اپنا لیا ہے۔
اُن کا مزید کہنا ہے کہ ’اگر گھاس کے میدان کم ہو جائیں تو بھینسوں کو وہ غذائیت سے بھرپور خوراک نہیں ملے گی جس کی انھیں ضرورت ہے۔ افزائش نسل اسی صورت میں ممکن ہے جب صحت مند بھینسیں ہوں۔ ایک صحت مند بھینس ہی ایک صحت مند اور تندرست بچھڑے کو جنم دے سکتی ہے۔
سر سبز میدانوں کی کمی سے بھینسوں کی صحت پر بھی بُرے اثرات پڑے ہیں اور ان کی شرح میں زبردست کمی واقع ہوئی ہے۔ محکمہ حیوانات کے مطابق ’ہمارے پاس دستیاب اعداد و شمار کے مطابق بھینسوں کی تولیدی صحت کا تناسب تقریباً 50 فیصد تک کم ہو گیا ہے۔‘
ویٹرنرین پریما کا مزید کہنا ہے کہ ’فی الحال ہم نوجوانوں اور کاروباری افراد کو غذائیت سے بھرپور خوراک فراہم کرنے کے بارے میں تربیت دے رہے ہیں۔ ہم نے مقامی لوگوں کو بھینسوں کو ابتدائی طبی امداد دینے کی تربیت بھی دی ہے۔‘
منجمد انڈے، نطفے
نیل گیری کے ضلع کلکٹر امرت نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ سرسبز میدانوں کے حصول کے لیے اقدامات کیے جا رہے ہیں۔
انھوں نے بتایا کہ ’اِن بھینسوں کے تحفظ کے لیے خصوصی فنڈ مختص کیے گئے ہیں اور 30 بھینسوں کو افزائش کے پروگرام کے لیے خاص توجہ دی جا رہی ہے۔‘
کلکٹر امرت نے کہا کہ ’یہ افسوسناک خبر ہے کہ تھوڈر بھینسیں انڈیا میں معدومیت کے شکار مویشیوں کی فہرست میں شامل ہیں۔ فی الحال، ہم فارم میں 30 تھوڈر بھینسیں پال رہے ہیں۔‘
وہ مزید کہتے ہیں ’اس کے علاوہ ان بھینسوں کے نطفوں اور انڈوں کو بھی منجمد کر کے محفوظ کر لیا گیا ہے۔ اگر بھینسیں کم از کم اگلے 20 سالوں میں معدوم ہونے کے دہانے پر ہوئیں، تو ان منجمد انڈوں کو نسل کی افزائش کے لیے استعمال کیا جا سکے گا۔‘
BBCگھاس کی کاشت اور سر سبز میدانوں کی ضرورت
نیلگیری میں ایک ماحولیاتی کارکن ایک فارم بنانے اور گھاس کے پودے اگانے کے لیے مل کر کام کر رہے ہیں تاکہ بھینسوں کو درکار گھاس کے میدانوں کو بڑھایا جا سکے۔ ماحولیاتی کارکن ترون چاپرا نے اب تک تقریباً دس ایکڑ اراضی پر گھاس کے پودے اگائے ہیں۔
آپ پوری نیل گیری کو سبزہ دیکھ سکتے ہیں۔ تاہم، تمام گھاس کے میدان نیلگیروں کے لیے مقامی نہیں ہیں۔ ترون چاپرا کا کہنا ہے کہ ’غیر ملکی گھاس کا پھیلاؤ ماحول اور بھینسوں کے لیے اچھا نہیں ہے۔‘
ترون چاپرا کہتے ہیں کہ ’زیادہ تر ہری گھاس ککیو ہے۔ یہ ایک قسم کی گھاس ہے جو افریقہ سے آتی ہے۔ ایسی غیر ملکی گھاس کو ان علاقوں میں لگانے اور اُگانے کا کوئی فائدہ نہیں ہے۔‘
اُن کا مزید کہنا ہےکہ ’اسی طرح پیلے رنگ کے پھولوں والا پودا جو سیسٹرم کہلاتا ہے جو پورے نیل گری میں پایا جاتا ہے، یہ بھی ایک ناپسندیدہ، غیر محفوظ اور غیر ملکی پودا ہے۔‘
BBC
پہلے سے ہی، جیسا کہ بھینسوں کی تعداد کم ہوئی ہے، برادری میں مر جانے والے فرد کے لیے بھینسوں کی قربانی کا رواج بڑی حد تک ختم ہو گیا ہے۔ اس وقت لوگوں کا کہنا ہے کہ کم از کم اپنی شناخت دکھانے کے لیے بھینسوں کی حفاظت کی جائے۔
سچترا کے والد دیوراج نے کہا کہ ’اگر کسی خاندان کے پاس بھینس نہیں ہے تو بہت سے خاندان ایسے ہیں جنھیں اسے کسی سے خرید کر پالنا پڑتا ہے۔ اگر کسی کے گھر میں بھینس نہ ہو تو دوسرے اسے بہت 'غریب اور گنہگار آدمی' سمجھ کر تولتے ہیں۔ اگر ہمارے پاس بھینسیں نہیں ہیں، تو ہم توڈر کے طور پر اپنی شناخت کھو دیں گے۔'