کمبھ میلہ: دنیا میں انسانوں کے سب سے بڑے اجتماع میں اینٹی بائیوٹکس کا بے دریغ استعمال مسئلہ کیوں؟

بی بی سی اردو  |  Sep 16, 2023

دنیا میں انسانوں کے سب سے بڑے اجتماع کا اینٹی بائیوٹکس سے کیا تعلق ہے؟ اس کا جواب ہے بہت زیادہ۔

امریکہ میں قائم تنظیموں کے محققین – جنھیں لکشمی متل، ہارورڈ یونیورسٹی میں فیملی ساؤتھ ایشیا انسٹیٹیوٹ اور یونیسیف کی حمایت حاصل ہے – کو معلوم ہوا ہے کہ انڈیا میں کمبھ کے میلے میں کلینک وہاں آنے والے لاکھوں افراد کو اینٹی بائیوٹکس کی بھاری مقدار لینے کی ہدایت کرتے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اکثر افراد سانس لینے کی نالی میں انفیکشن سے متاثرہ ہوتے ہیں۔

ڈاکٹروں کے مطابق اینٹی بائیوٹکس کے زیادہ استعمال کی صورت میں جسم میں اس کے خلاف مزاحمت کا خدشہ بڑھ جاتا ہے جسے ’اینٹی مائیکروبیل رزسٹنس‘ کہتے ہیں۔

یہ تب ہوتا ہے جب بیکٹیریا وقت کے ساتھ بدل جاتے ہیں اور انفیکیشن کے خلاف استعمال ہونے والی ادویات کے خلاف مزاحمت قائم کر لیتے ہیں۔ اس سے لوگوں میں اینٹی بائیوٹک رزسٹنس پر مبنی ’سپر بگ انفیکشنز‘ میں اضافہ ہوتا ہے۔

عالمی ادارۂ صحت (ڈبلیو ایچ او) نے کہا ہے کہ یہ دنیا بھر میں صحت عامہ کے لیے بڑا خطرہ ہے۔

طبی جریدے دی لینسٹ کے مطابق دنیا بھر میں اس مزاحمت سے 2019 میں اس سے 1.27 ملین اموات ہوئیں۔ ڈبلیو ایچ او کے مطابق 2050 تک یہ تعداد سالانہ ایک کروڑ تک پہنچ سکتی ہیں۔ اینٹی بائیوٹکس کو خطرناک انفیکیشنز کے خلاف فرسٹ لائن آف ڈیفنس سمجھا جاتا ہے، مگر جسم میں اس کے خلاف مزاحمت پیدا ہونے کی صورت میں یہ ادویات ان مریضوں کے لیے مؤثر نہیں رہتیں۔

عالمی سطح پر اینٹی بائیوٹکس کے استعمال کی سب سے بڑی شرح انڈیا میں ہے۔ ہر سال 60 ہزار نوزائیدہ بچوں کی موت صرف اینٹی بائیوٹک رزسٹنٹ نیو نیٹل انفیکشنز کی وجہ سے ہوتی ہے۔

محققین کے مطابق کووڈ 19 کی عالمی وبا کے دوران اینٹی بائیوٹکس کا استعمال بہت زیادہ بڑھ گیا تھا۔

Getty Images

ہفتوں طویل کمبھ میلہ چار انڈین شہروں میں ہوتا ہے۔ اس دوران یاتری ان شہروں کے ساحل پر دریا کے پانی میں مقدس ڈبکی لگاتے ہیں۔

امریکہ میں مقیم محققین نے تقریباً 70,000 مریضوں سے ڈیٹا اکٹھا کیا جو 2013 اور 2015 میں پریاگ راج – جسے الہ آباد بھی کہا جاتا ہے – اور ناسک کے شہروں میں منعقد ہونے والے دو سالانہ میلوں میں 40 سے زیادہ کلینکس میں آئے تھے۔

دونوں تہواروں میں 100 ملین سے زائد زائرین نے شرکت کی۔ 2013 میں پریاگ راج میں مریضوں کی اوسط عمر 46 سال تھی اور ان میں زیادہ تر مرد تھے۔ ان کی عام علامات میں بخار، کھانسی، ناک بہنا، پٹھوں میں درد اور اسہال شامل ہیں۔

محققین کو معلوم ہوا کہ کلینک میں ایک تہائی سے زیادہ مریضوں کو اینٹی بائیوٹکس تجویز کی گئی تھیں۔ پریاگ راج میں اوپری سانس کی نالی کے انفیکشن کی اطلاع دینے والے تقریباً 69 فیصد مریضوں کو سرکاری کلینک سے مفت اینٹی بائیوٹکس ملیں۔

محققین نے حال ہی میں شائع ہونے والے ایک مقالے میں کہا ہے کہ ’یہ ایک خطرناک حد تک بلند شرح ہے۔ اوپری سانس کی نالی کے انفیکشن اکثر وائرل ہوتے ہیں۔‘

Getty Imagesانڈیا کے ہسپتالوں میں تمام تجاویز میں اینٹی بائیوٹکس کی شرح 75 فیصد تک ہے

محققین کے مطابق کمبھ میلے میں چاہے آپ کسی بھی وجہ سے کلینک میں داخل ہوں، تین میں سے ایک امکان یہی ہے کہ آپ اینٹی بائیوٹکس کے نسخے کے ساتھ باہر نکلیں گے۔ اگر آپ کو ناک بہنے کی شکایت ہوئی تو امکان بڑھ کر تین میں سے دو بار ہوجاتا ہے۔

محققین کے مطابق اینٹی بائیوٹکس دینے کی کوئی بڑی وجہ بھی نہیں بتائی جاتی ہے۔

اس تحقیق سے انڈیا میں اینٹی بائیوٹکس کے استعمال کی سابقہ شرح کی تصدیق ہوتی ہے۔ انڈیا میں مریضوں (آؤٹ پیشنٹس) کے لیے یہ شرح 39 سے 66 فیصد ہے۔

محققین نے تسلیم کیا کہ کمبھ میلے کے پُرہجوم کلینکس کے ڈاکٹروں کو اہم چیلنجوں کا سامنا کرنا پڑا، بشمول مریضوں کی زیادہ تعداد، محدود وقت اور مریضوں کی جامع تشخیصی معلومات کی کمی کے۔

ہر کلینک ایک دن میں سینکڑوں مریضوں کو دیکھتا ہے۔ ڈاکٹر اور مریض کی ملاقات سرسری ہوتی ہے اور مریض توقع کرتے ہیں کہ ان کی غذا کے لیے دوائیں تجویز کی جائیں گی۔

ڈاکٹروں نے ہر مریض کے ساتھ اوسطاً تین منٹ سے بھی کم وقت گزارا۔ ’اکثر ڈاکٹر مریض کا معائنہ کیے بغیر اینٹی بائیوٹکس تجویز کرتے ہیں۔ جبکہ اینٹی بائیوٹکس کی قسم اور کتنی خوراک دینے ہے، یہ فیصلے بظاہر اپنی من مانی پر مبنی لگتے ہیں۔‘

سرکار کی جانب سے طے اصولوں میں فالو اپ وزٹ کی سفارش کے ساتھ اینٹی بائیوٹکس کی تین دن کی فراہمی کی اجازت دی گئی ہے۔ تاہم محققین کے مطابق اکثر لوگ میلے میں ایک دن کے لیے آتے ہیں اور پھر واپس گھر چلے جاتے ہیں۔

Getty Imagesدی لینسٹ کے مطابق سپر بگ انفیکشنز سے 2019 میں دنیا بھر میں براہ راست 1.27 ملین اموات ہوئیں

محققین نے آنے والے تہواروں میں اینٹی بائیوٹکس کے نسخے کو کم کرنے کے لیے متعدد اقدامات کی سفارش کی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ زیادہ تر لوگ جو کلینک میں آتے ہیں انھیں معالج کی توجہ کی ضرورت نہیں ہوتی۔

ان کی تجویز ہے کہ مڈ لیول ہیلتھ پرووائیڈر (درمیانے درجہ کا طبی عملہ) طلبہ اور کمیونٹی ہیلتھ ورکرز مریضوں کی شناخت کریں اور بعض ترجیحات قائم کریں۔ کم مریض ڈاکٹروں میں تھکاوٹ کو کم کریں گے۔

کلینکس کو مناسب تشخیص جیسے لیبارٹری یا ریڈیولوجی کی خدمات کے ساتھ تیار کیا جانا چاہیے۔ ان کا خیال ہے کہ تشخیص کی کمی اینٹی بائیوٹکس کے زیادہ نسخے کا باعث بن سکتی ہے۔ اس کے علاوہ ڈاکٹروں کو اینٹی بائیوٹک کے استعمال کے بارے میں مزید تعلیم دینے کی ضرورت ہے اور تین دن کی اینٹی بائیوٹک خوراک فراہم کرنے کی پالیسی کا دوبارہ جائزہ لیا جانا چاہیے۔

ہارورڈ میڈیکل اسکول میں ایک محقق اور ایمرجنسی میڈیسن کے اسسٹنٹ پروفیسر، سچیت بالساری نے کہا کہ ’عوامی صحت کی تیاری اور ردعمل کو گمشدہ مواقع کی ایک تار سے نشان زد کیا گیا ہے۔‘

پریاگ راج میں 2013 کا میلہ ان اولین اجتماعات میں سے ایک تھا جس میں کلاؤڈ بیسڈ ریئل ٹائم بیماری کی نگرانی کی گئی تھی۔ 2015 میں ناسک کے میلے نے کاغذ پر مبنی ریکارڈ کو ڈیجیٹل ٹیبلٹس سے بدل دیا جس سے وبائی امراض کی مسلسل نگرانی کی بنیاد رکھی گئی۔

پروفیسر بالساری نے مجھے بتایا کہ ’دونوں صورتوں میں بہت کم ادارہ جاتی یادداشت تھی جو یا تو تمام بنیادی کلینک تک مداخلت کو بڑھا سکتی تھی، یا [کورونا وائرس] وبائی مرض کے دوران بھی اس کا فائدہ اٹھا سکتی تھی۔‘

انھوں نے کہا کہ پریاگ راج میں 2025 کا میلہ فعال ڈیجیٹل ہیلتھ انفراسٹرکچر کی بنیاد رکھ سکتا ہے جو تین آسان کام کرتا ہے - کلینکل، لیبارٹری اور منشیات کے استعمال اور سیوریج ڈیٹا کی بنیاد پر شہر میں بیماریوں کی شناخت کرنا۔

ماہرین کا خیال ہے کہ انڈیا میں مریضوں کو اینٹی بائیوٹکس تجویز کرنے سے متعلق ضوابط کو مضبوط کرنے کی ضرورت ہے اور انسانیت کا دنیا کا سب سے بڑا اجتماع ایک اچھا نقطہ آغاز ہوگا۔

مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More