Getty Images
کینیڈا کے وزیر اعظم جسٹن ٹروڈو جی 20 کے سربراہی اجلاس میں شرکت کرنے کے لیے گذشتہ جمعہ کو انڈیا کے دارالحکومت دہلی پہنچے تھے اور انھیں اتوار کو ہی اپنے ملک واپس جانا تھا لیکن اُن کے طیارے میں ’شرمناک‘ تکنیکی خرابی کی وجہ سے وہ دو دن بعد منگل کی دوپہر کو ہی کینیڈا کے لیے روانہ ہو سکے۔
کینیڈا میں ان کے مخالفین اور انڈین سوشل میڈیا صارفین نے اس تاخیر پر ان کا مذاق اڑانا شروع کر دیا اور یہ سب جسٹن ٹروڈو کی انڈین وزیر اعظم نریندر مودی کے ساتھ کشیدہ ملاقات کے بعد سامنے آیا۔
کینیڈا کی میڈیا نے ان کے اس دورے کو ’شرمناک‘ اور ’ناکام‘ قرار دیا ہے۔ میڈیا اس موقع پر اُن کے 2018 کے ’ناکام‘ دورہ انڈیا کی بھی یاد دلا رہا ہے جس میں انھوں نے 'سزا کے مستحق قرار دیے جانے والے ایک شدت پسند' کو اپنے ساتھ عشائیے پر مدعو کر لیا تھا۔
کینیڈا اور انڈیا کے تعلقات حالیہ مہینوں میں تیزی سے کشیدہ ہوئے ہیں۔
’انڈیا ٹوڈے‘ نے منگل کے روز رپورٹ کیا کہ جسٹن ٹروڈو کے دورے نے ’انڈیا کے ساتھ سرد مہری والے تعلقات کو بحال کرنے میں کچھ مدد نہیں کی۔‘
دہلی کے لیے روانہ ہونے سے چند دن پہلے جسٹن ٹروڈو نے غیر متوقع طور پر کہا کہ ان کا ملک انڈیا اور کینیڈا کے درمیان تجارتی معاہدے پر جاری بات چیت کو روک رہا ہے۔
اس کے علاوہ کینیڈا میں آباد بڑی سکھ آبادی کی طرف سے احتجاج بھی کشیدگی میں ایک اہم نکتہ رہا ہے۔ انڈیا کو سکھ علیحدگی پسندوں کی سرگرمیوں پر تشویش ہے لیکن وہ رواں برس جون میں برٹش کولمبیا میں سکھوں کی آزادی کے حامی ایک ممتاز وکیل کے قتل میں کسی قسم کے ہاتھ سے انکار کرتا ہے۔
انڈین وزیر اعظم کے دفتر نے کہا ہے کہ مسٹر ٹروڈو کے ساتھ اتوار کی ملاقات میں مسٹر مودی نے ’کینیڈا میں شدت پسند عناصر کی انڈیا مخالف سرگرمیوں‘ کے بارے میں تشویش کا اظہار کیا اور کہا کہ وہ علیحدگی پسندی کو فروغ دے رہے ہیں اور تشدد کو ہوا دے رہے ہیں۔
دریں اثنا، مسٹر ٹروڈو کی ٹیم نے کہا کہ کینیڈا کے وزیر اعظم نے ’قانون کی حکمرانی، جمہوری اصولوں اور قومی خودمختاری کے احترام کی اہمیت کی بات کی ہے۔‘
مسٹر ٹروڈو نے بعد میں ایک پریس کانفرنس میں بتایا کہ انھوں نے مسٹر مودی کے ساتھ کینیڈا کے معاملات میں غیر ملکی مداخلت پر بھی بات کی ہے۔ کینیڈا اپنے ہاں انتخابات میں ہونے والی مداخلت کے متعلق اپنی وسیع تحقیقات میں انڈیا سمیت چین اور روس کو شامل کر رہا ہے۔
یہ شبہات اس وقت سامنے آئے جب کینیڈا کے وزیر اعظمانڈین صدر دروپدی مرمو کی جانب سے عالمی رہنماؤں کو دیے جانے والے عشائیے میں شامل نہیں ہوئے۔ رپورٹس کے مطابق ان کے دفتر نے اس کی کوئی وجہ نہیں بتائی ہے۔ کچھ مبصرین کا یہ بھی خیال ہے کہ وہ مودی سے مصافحے کے دوران ہاتھ چھڑانے میں جلدی کر رہے تھے۔
یہ بھی پڑھیے
کینیڈا خالصتان کے معاملے پر انڈیا کے اعتراضات کو نظر انداز کیوں کر رہا ہے؟
کینیڈا میں سکھوں کے جلوس میں اندرا گاندھی کے قتل کی منظر کشی کرنے پر انڈیا برہم
جب ٹروڈو سے اس بارے میں سوال پوچھا گیا تو انھوں نے ہنستے ہوئے اسے ٹالنے کی کوشش کی۔ لیکن کینیڈین میڈیا میں کہا جا رہا ہے کہ ’بات صرف اتنی سی نہیں ہے۔‘
’ٹورنٹو سن‘ نے اپنی ایک رپورٹ میں کہا ہے کہ 'اگرچہ ہم نے انڈیا پیسفک خطے کے لیے نئی حکمت عملی کا اعلان کیا ہے، لیکن ہم خطے کی دو بڑی معیشتوں انڈیا اور چین سے مکمل طور پر الگ تھلگ ہیں۔‘
انڈیا کی سکھ آبادی کی ایک بڑی تعداد کینیڈا میں آباد ہے۔ سکھ آبادی کا کینیڈا کی مقامی سیاست پر خاصا اثر ہے اور خیال کیا جاتا ہے کہ ٹروڈو ملکی سیاست کی وجہ سے بھی انڈیا سے دور ہو رہے ہیں۔
ٹورنٹو سن نے اپنے مضمون میں لکھا ہے کہ 'انڈیا کی معیشت ہماری معیشت سے دوگنی بڑی ہے۔ ان کی 140 کروڑ کی آبادی ہماری آبادی سے بہت زیادہ ہے۔ اگر دیکھا جائے تو کینیڈا کو انڈیا کی زیادہ ضرورت ہے۔'
اس کے باوجود انھوں نے طیارہ خرابی کے باعث پچھلے دو دن انڈیا میں کیسے گزارے یہ واضح نہیں ہے۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق انھوں نے اپنے ہوٹل میں ہی اپنا سارا وقت گزارا کیونکہ انڈیا میں ان کی کوئی سفارتی مصروفیات نہیں تھیں۔
دہلی میں موجود جسٹن ٹروڈو کے ساتھ انڈین حکومت نے جو سرد رویہ دکھایا ہے وہ بھی شاید بے وجہ نہیں ہے۔
مسٹر ٹروڈو کے دور حکومت میں کینیڈا نے بغیر کسی وضاحت کے انڈیا کے ساتھ تجارتی معاہدے پر بات چیت روک دی ہے۔
ایسے میں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ٹروڈو یہ قدم کیوں اٹھا رہے ہیں؟ کینیڈین میڈیا رپورٹس کے مطابق ٹروڈو نظریاتی طور پر نریندر مودی کے مخالف ہیں۔
ٹورنٹو سن نے لکھا ہے کہ ’بدقسمتی سے ٹروڈو کو یہ لگتا ہے کہ مودی کی پالیسیاں ان کے اپنے سیاسی مستقبل پر اثر انداز ہوں گی، وہ نہ صرف مودی سے دوری رکھنا چاہتے ہیں، بلکہ ان کی آنکھوں میں آنکھ ڈال کر دیکھنا بھی چاہتے ہیں۔‘
بہر حال نہ ہی مسٹر ٹروڈو اور نہ ہی انڈین حکومت نے ان کی وطن واپسی میں تاخیر پر عوامی طور پر کوئی تبصرہ کیا ہے۔
لیکن ایک انڈین وزیر نے انھیں سرکاری طور پر رخصت کیا اور مسٹر مودی کی حکومت کی جانب سے انھیں اور ان کے ساتھیوں کو ’بحفاظت وطن واپس‘ پہنچنے کی خواہش کا اظہار کیا۔
سوموار کے روز کینیڈا کے محکمہ قومی دفاع نے بی بی سی کو بتایا کہ مسٹر ٹروڈو کا طیارہ رائل کینیڈین ایئر فورس (آر سی اے ایف) سی سی 150 پولارس کے دم ایک میں ’دیکھ بھال کے مسائل‘ آ گئے تھے اور ایک پرزے کو بدلنے کی ضرورت تھی۔
بیان میں مزید کہا گیا کہ ’تمام مسافروں کی حفاظت آر سی اے ایف کے لیے اہم ہے اور پرواز سے پہلے کی حفاظتی جانچ ہمارے تمام فلائٹ پروٹوکولز کا باقاعدہ حصہ ہیں۔‘
بیان میں مزید کہا گيا کہ ’اس مسئلے کی شناخت اس بات کا ثبوت ہے کہ یہ پروٹوکول ٹھیک ڈھنگ سے چل رہے ہیں۔‘
محکمہ دفاع نے کہا کہ مسٹر ٹروڈو کو وطن واپس لانے کے لیے ایک متبادل طیارہ انڈیا بھیجا جا رہا ہے۔
ٹورنٹو سٹار کے مطابق آر سی اے ایف نے ایک ٹیکنیشن کو انڈیا بھیجا جو طیارے کے مسئلے کو حل کرنے میں کامیاب رہا۔ اس میں مزید کہا گیا ہے کہ سی سی-150پولارس طیارہ ایک پرانے بیڑے کا حصہ ہے جسے اکثر رکاوٹوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور اسے جلد ہی تبدیل کیا جائے گا۔
یہ واقعہ پہلا نہیں ہے کہ مسٹر ٹروڈو کو طیارے سے متعلق سفری مسائل کا سامنا کرنا پڑا ہے۔
سنہ 2019 میں صحافیوں کو لے جانے والا ایک طیارہ انھیں انتخابی مہم پر لے جانے کے لیے چارٹر کیے گئے طیارے کے بازو سے ٹکرا گیا تھا۔ بہر حال وہ اس وقت طیارے میں سوار نہیں تھے۔