پابندی کے باوجود ٹک ٹاک افغان خواتین کے لیے اُمید کی کرن: ’مجھے جان سے مارنے کی دھمکیاں بھی دی گئیں‘

بی بی سی اردو  |  Sep 11, 2023

TikTokصغرا سلطانی صدمے کا شکار افغان خواتین کی ٹِک ٹاک پر رہنمائی کرتی ہیں

’میں ہر ہفتے ٹک ٹاک پر ایک گھنٹے کے لیے لائیو سٹریم کرتی ہوں تاکہ سینکڑوں افغان خواتین کو ان کے گھروں میں رہتے ہوئے بہتر محسوس کروا سکوں۔‘

صغرا سلطانی ٹک ٹاک پر اپنی ہفتہ وار سرگرمیوں کے بارے میں ناروے سے ہمیں آگاہ کر رہی تھیں۔ان کی ٹک ٹاک ویڈیوز افغانستان میں اپنے حقوق سے محروم نوجوان خواتین کے لیے ایک ’لائف لائن‘ کی حیثیت رکھتی ہیں۔

صغرا نے مزید بتایا کہ ’ان میں سے کچھ خواتین پر صدمے کے بہت گہرے اثرات ہیں۔ میں وہی طریقے استعمال کرتے ہوئے ان کی مدد کرتی ہوں جن طریقوں نے مجھے مشکلات سے نکلنے اور پُرسکون کرنے میں مدد فراہم کی۔‘

’میں خواتین کو بڑھتے ہوئے تشدد اور پابندیوں سے نمٹنے میں بھی مدد کرتی ہوں۔‘

صغرا سلطانی کی عمر اس وقت 32 سال ہے۔ انھوں نے اوسلو میٹروپولیٹن یونیورسٹی سے نفسیات میں ڈگری حاصل کی ہے۔ اس کے ساتھ انھوں نے ایک ایسا کورس بھی کر رکھا ہے کہ جس کی مدد سے وہ والدین کو خود آگاہ رہنے اور مسائل اور ذہنی تناؤ کو بچوں میں منتقل نہ کرنے کی تربیت دی جاتی ہے۔

صغرا سلطانی اپنی ویڈیوز میں بے چینی، ڈپریشن، غصے کا کنٹرول، تعلقات کے مسائل اور بچپن کے صدمے سمیت متعدد مسائل کا حل بتاتی ہیں۔

صغرا ویڈیوز میں اپنے فالوورز کو ایک نہایت پر جوش مسکراہٹ کے ساتھ خوش آمدید کہتی ہیں اور نرم اور ہمدردانہ آواز میں ان سے بات کرتیں ہیں۔ اس دوران وہ دیکھنے اور سننے والوں کو یہ سمجھاتی ہیں کہ ان کے خیالات اور عمل ان کی صحت پر کیسے اثر انداز ہوتے ہیں۔

اگست 2021 میں جب سے طالبان اقتدار میں آئے اس کے بعد سے وہاں لڑکیاں پرائمری سکول کے بعد تعلیم حاصل کرنے کا اپنا حق کھو چکی ہیں اور ان کو سماجی میل جول سے بھی روک دیا گیا ہے۔

طالبان نے اپریل 2022 میںٹک ٹاک پر پابندی عائد کر دی اور کہا کہ یہ نوجوانوں کو ’گمراہ‘ کر رہا ہے اور اس پر موجود مواد اسلامی قوانین سے مطابقت نہیں رکھتا۔‘

لیکنصغرا ان سب کو اس مشکل سے نکلنے کا راستہ بتانے کے لیے کوشاں ہیں۔وہ اپنے کمرے سے اس وقت لائیو سٹریم پر جاتی ہیں جب ان کا ننھا بچہ یا تو سو رہا ہوتا ہے یا ان کے سابق شوہر کے پاس ہوتا ہے۔

صغرا کہتی ہیں ’میں چاہتی ہوں کہ لوگ اپنے مفروضوں اور عقائد کو چیلنج کریں۔‘

تفریح کا موثر ذریعہ

افغانستان میں ٹی وی سے تفریحی شوز غائب ہو گئے ہیں۔ موسیقی اور رقص پر بھی پابندی ہے۔ ایسے میں افغان شہری اپنی توجہ بٹانے کے لیے کوشاں ہیں۔

وہ نوجوان جو ایسے شہروں میں رہتے ہیں جہاں انٹرنیٹکی سروس بہتر ہے، باقاعدگی سے ٹک ٹاک پر ویڈیوز پوسٹ کرتے ہیں ان میں موسیقی، کسی کی نقالی اور مزاحیہ خاکے شامل ہوتے ہیں تاہم وہ طالبان پر تنقید، معاشی یا انسانی حقوق کے مسائل کا ذکر کرنے سے گریز کرتے ہیں۔

Onka Ajaibzaiاونکا عجب زئی افغانستان کے اندر رہنے والی نوجوان خواتین تک رسائی حاصل کرنا چاہتی ہیں تاہم اب ٹک ٹاک پر سیاسی مباحثوں کی میزبانی نہیں کر سکتیں

اونکا عجب زئی کے ٹک ٹاک پر ایک لاکھ سے ذیادہفالوورز ہیں۔ ان کا تعلق قندھار سے ہے جو طالبان تحریک کا گڑھ سمجھا جاتا ہے تاہم وہ طالبان کے اقتدار سنبھالنے سے صرف ایک سال پہلے افغانستان چھوڑ کر وسطی ایشیامنتقل ہو گئی تھیں اور بعد میں وہ امریکہ چلی گئیں۔

اونکا کی عمر 21 برس ہے اور وہ صحافت کی طالبعلم ہیں۔

’میں ٹک ٹاک پر براہ راست سیاسی مباحثے کرتی ہیں تاہم مجھے جان سے مارنے کی دھمکیاں دی گئیں جس کے بعد میں نے طالبان پر تنقید کرنا یا سیاست پر بات کرنا چھوڑ دی۔‘

وہ مزید کہتی ہیں کہ ’اب میں ان نوجوان لڑکیوں کو پشتو زبان اور جنرل نالج سکھاتی ہوں جن پر طالبان کی طرف سے تعلیم پر پابندی ہے۔‘

اونکا اپنی ویڈیوز میں مغربی لباس پہن کر بھی آتی ہیں تاہم اکثر حجاب نہ پہننے کی وجہ سے انھیں ٹرول کیا جاتا ہے۔

اونکا کہتی ہیں کہ ’ٹک ٹاک بہت سی افغان لڑکیوں کی آواز بنا ہے۔ ایسی آواز جو ان سے طالبان نے چھین لی تھی۔‘

تمنا جاہش نے جرمنی جانے سے قبل 13 سال تک افغانستان میں سیاسی موضوعات کا احاطہ کرنے والی صحافی کے طور پر کام کیا۔ وہ اب ماسٹرز کی تعلیم حاصل کر رہی ہیں اور ساتھ ہی ٹک ٹاک پر سرگرم ہیں۔

تمنا کہتی ہیں کہ ’بہت سے لوگ اسپلیٹ فارم کو تفریح کے لیے استعمال کرتے ہیں تاہم افغان شہریوں نے ٹک ٹاک کو بہت سنجیدگی سے لیا اور ٹک ٹاکپر اثر انداز ہونے کے لیے بہت سوں نے اپنی روزمرہ کی نوکریوں اور کام کوترک کر دیا۔‘

تمنا بتاتی ہیں کہپچھلے دو سال میں اس پلیٹ فارم کی مقبولیت میں کئی گنا اضافہ ہوا۔

Tamana Jahishتمنا بتاتی ہیں کہ پچھلے دو سال میں اس پلیٹ فارم کی مقبولیت میں کئی گنا اضافہ ہوا’طالبان ٹک ٹاک پر فحش ویڈیوز دیکھتے تھے‘

بعض ماہرین طالبان کی لگائی گئی ان پابندیوں پر کڑی تنقید کرتے ہیں۔

جمال ناصر سروری طالبان کے اقتدار پر قبضے سے پہلے وزارت مواصلات میں انفارمیشن سکیورٹی کے سابق ڈائریکٹر رہے ہیں۔

ان کا کہنا ہے کہ ’طالبان نےٹک ٹاک پرپابندی اس لیے لگائی کیونکہ ان کے اپنے لوگ رات دن اس ایپ پر موجود رہتے تھے۔ وہ (طالبان) اس پر فحش ویڈیوز دیکھ رہے ہوتے تھے اور یہ ان کے لیے تشویش کا باعث تھا۔‘

’وہ لوگوں پر اسلامی قوانین کا اطلاق نہیں کر سکتے اگر ان کے اپنے نوجوان جنگجو ان کو اس پر عمل کرتے نہیں دیکھیں گے۔‘

Getty Imagesطالبان ٹک ٹاک پر مکمل پابندی لگانے سے قاصر ہیں کیونکہ ان کے بہت سے جنگجو خود سوشل میڈیا کے مداح بھی ہیں

جمال ناصر کا خیال ہے کہ افغانستان میں ہزاروں ٹک ٹاکر پانچ لاکھ سے زیادہ فالوورز والے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ پابندی عائد کرنا مشکل ہے کیونکہ ’کئی ٹک ٹاکر پراکسی ایپس اور وی پی این استعمال کرتے ہیں‘ تاکہ ٹک ٹاک تک رسائی حاصل کر سکیں۔

تاہم افغانستان میں انفلوئنسر ہونا کسی خطرے سے کم نہیں۔

افغان انفوئنسر شمس احمد (فرضی نام) بتاتے ہیں کہ ’میں ہجوم والی جگہوں پر نہیں جاتا اور کام ختم ہوتے ہی گھر لوٹ آتا ہوں۔‘

ان کی ویڈیوز پر ایک کروڑ سے زیادہ ویوز آ چکے ہیں اور ان کے قریب پانچ لاکھ فالوورز بھی ہیں۔

اپنی مزاحیہ ویڈیوز کے لیے وہ شاپنگ مالز جاتے ہیں۔ یہ ایسی جگہ ہے جہاں اکثر امیر نوجوان ملاقات کر پاتے ہیں۔ مغربی میڈیا نے افغانستان کی کوریج میں ان جگہوں کو بہت کم دکھایا۔

شمس طالبان دور کی حقیقت کے ساتھ خود کو ڈھال چکے ہیں۔ وہ ریڈار میں نہیں آتے مگر ویڈیوز پوسٹ کرتے رہتے ہیں۔

طالبان کے حامی بھی سوشل میڈیا پر موجود ہیں

ویسے تو طالبان کے سوشل میڈیا کے حوالے سے سخت نظریات ہیں مگر ان کے حامی بھی سوشل میڈیا پر کافی متحرک رہتے ہیں۔

جمیل قادری ایک افغان تارکین وطن ہیں جو سنہ 2010 سے بیلجیئم میں رہائش پذیر ہیں۔ انھیں دو سال قبل وہاں پناہ گزین کا درجہ ملا۔

وہ اپنی ویڈیوز میں طالبان کی سخت پالیسیوں اور شریعت نافذ کرنے کی کوششوں کی حمایت کرتے ہیں۔ اکثر ان کی ویڈیوز میں طالبان حکام نظر آتے ہیں جن کی ’کامیابیوں‘ کی تعریف کی جاتی ہے۔

Jamil Qaderi جمیل قادری نے اکثر طالبان عہدیداروں کو ٹک ٹاک پر اپنے شوز میں دکھایا ہے حالانکہ اس پلیٹ فارم پر ملک کے اندر سرکاری طور پر پابندی عائد ہے

اس کے علاوہ وہ طالبان کے مخالفین پر تنقید بھی کرتے ہیں اور کچھ افغان نسلی گروہوں اور خواتین کارکنوں کا مذاق اڑاتے ہیں۔ ان کے 60 ہزار فالوورز ہیں اور دس لاکھ لائیکس ہیں۔

اب ان کی ظاہری شناخت ان کے خیالات کی طرح ڈھل چکی ہے۔ اپنی لمبی داڑھی کے ساتھ وہ روایتی لباس پہنتے ہیں۔

ان کے خیالات نے بہت سے افغان شہریوں میں غم و غصے کو جنم دیا ہے۔ 8,000 سے زیادہ لوگوں نے ایک آن لائن پٹیشن پر دستخط کیے ہیں جس میں بیلجیئم سے انھیں ملک بدر کرنے کا مطالبہ کیا گیا۔

جون 2023 میں بیلجیئم کے نائب امیگریشن وزیر نے جمیل قادری کی پناہ گزین کی حیثیت پر نظرثانی کا مطالبہ کیا تھا۔

بڑھتے روابط

افغانستان میں آبادی کا دو تہائی حصہ یعنی 26 ملین لوگ، 25 سال سے کم عمر ہیں۔ وسیع پیمانے پر غربت کے باوجود افغانستان میں انٹرنیٹ تک رسائی بڑھ رہی ہے۔

ڈیٹا رپورٹل کے ایک اندازے کے مطابق جنوری 2023 میں افغانستان میں 7.67 ملین انٹرنیٹ کنکشن تھے۔ افغانستان کی ٹیلی کام ریگولیٹری اتھارٹی کے مطابق چار اہم ٹیلی کام کمپنیوں کے پاس 20.7 ملین موبائل صارفین ہیں۔

جمال ناصر سروری، جو اب لندن میں آئی ٹی کنسلٹنٹ کے طور پر کام کرتے ہیں، کہتے ہیں کہ ’فیس بک افغانستان کا سب سے مقبول سوشل نیٹ ورک ہے جس کے لاکھوں فعال صارفین ہیں۔‘

’لیکن پچھلے کچھ سال میں فیس بک کی ترقی سست رہی ہے جبکہ ٹک ٹاک کا استعمال بڑھ رہا ہے۔‘

تمام تر خطرات کے باوجود کئی خواتین ٹک ٹاک پر صغرا کو ڈھونڈ لیتی ہیں۔ ’میں نے دیکھا ہے کہ ان میں سے بہت سے لوگ مجھ سے آن لائن بات چیت کرنا آسان سمجھتے ہیں۔‘

’میں اپنے تجربے سے یہ بھی جانتی ہوں کہ مشکل بچپن والے والدین کی غلطیاں ان کے اپنے بچوں میں صدمے کا باعث بن سکتی ہیں۔ میں والدین اور بچوں کے رشتے کی تعمیر پر توجہ دیتی ہوں۔‘

مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More