Getty Images
بلی کے خواب میں چھیچھڑے والا محاورہ تو سن رکھا تھا مگر کیا حقیقت میں بلی، کبوتر، مچھلی، کوے اور گائے، بھینس اور دیگر جانور بھی انسان کی طرح خواب دیکھتے ہیں؟
کبھی یہ خیال عام تھا کہ خواب دیکھنے کی صلاحیت خاص انسانی خصوصیت ہے۔ لیکن حیرت انگیز طور پر جانداروں کی وسیع اقسام بھی ایسا کرنے کے قابل ہو سکتی ہے۔
ایک لیب (تجربہ گاہ) میں چند کم عمر کودنے والی مکڑیاں رات بھر ایک ڈبے میں دھاگے سے لٹکتی رہتی ہیں۔ ہر تھوڑی دیر کے بعد ان کی ٹانگیں مڑتی ہیں اور ان کے اسپنرٹ یعنی تار کش عضو مروڑ کھاتے ہیں۔ ان کی آنکھوں کے ریٹینا آگے پیچھے ہو رہے ہوتے ہیں اور یہ عمل ان کے نیم شفاف ایگزوسکلیٹن سے نظر آتے ہیں۔
جرمنی کی کونسٹانز یونیورسٹی میں رویے سے متعلق ماحولیات کی ماہر ڈینیلا راسلر کہتی ہیں کہ یہ مکڑیاں جو کچھ کر رہی ہیں وہ ایسا لگتا ہے کہ آر ای ایم (ریپڈ آئی موومنٹ یعنی جلدی جلدی پتلیوں کا گھومنا) سے بہت مشابہ ہے۔ آر ای ایم یا ریم کے دوران (جس کا مطلب آنکھوں کی تیز حرکت ہے)، سوئے ہوئے جانور کی آنکھیں دیگر خصوصیات کے علاوہ غیر متوقع طور پر چمکتی ہیں۔
انسانوں میں آر ای ایم اس وقت ہوتا ہے جب انھیں خواب آتے ہیں، خاص طور پر جب سب سے زیادہ واصخ خواب آتے ہیں۔ یہ چیز ایک دلچسپ سوال کی طرف لے جاتی ہے کہ اگر مکڑیوں میں نیند کے دوران آراے ایم کا عمل ہوتا ہے تو کیا ان کے پوست کے بیج کے سائز کے دماغ میں بھی خواب آ سکتے ہیں؟
راسلر اور ان کی ساتھیوں نے سنہ 2022 میں ریٹینا گھومنے والی مکڑیوں کے بارے میں اطلاع دی تھی۔ انھوں نے 34 مکڑیوں پر کیمروں کی تربیت کے دوران پایا کہ یہ ہر 17 منٹ میں ریم کے دور میں جاتی ہیں۔
ایسے مختصر دورے میں ان کی آنکھوں کی چمک خاص تھی۔ ایسا ان میں اس وقت نہیں ہوتا تھا جب ان جمپنگ مکڑیوں میں ہلچل ہوتی، یہ اپنے پاؤں کھینچتیں، یا اپنے تاروں کو درست کرتیں یا پھر کسی ٹانگ سے خود کو صاف کرتیں۔
Getty Imagesجمپنگ سپائیڈر
بہرحال آر ای ایم کے دوروں کے باوجود یہ ٹیم ابھی تک یہ ثابت نہیں کر سکی ہے کہ اس دوران یہ مکڑیاں سو رہی ہوتی ہیں۔ لیکن اگر یہ پتہ چلتا ہے کہ وہ سو رہی ہیں اور اگر ایسا لگتا ہے کہ آر ای ایم واقعی آر ای ایم ہے تو راسلر کے مطابق خواب دیکھنا امکانات میں سے ایک ہو سکتا ہے۔
ان کے خیال میں یہ تصور کرنا آسان ہے کہ چھلانگ لگانے والی مکڑیاں چونکہ انتہائی بصری جانوروں میں آتی ہیں اس لیے وہ اپنے خوابوں سے فائدہ اٹھا سکتی ہیں۔
راسلر وہ واحد محقق نہیں ہیں جو جانوروں میں ایسے سوالات کے بارے میں سوچتی ہیں جو ہم سے دور ہیں۔ آج سائنسدانوں کو پہلے سے کہیں زیادہ وسیع پیمانے پر جانوروں میں نیند کے دوران آر ای ایم کے آثار مل رہے ہیں۔
انھوں نے مکڑیوں کے ساتھ چھپکلیوں، کیٹل فش، زیبرا فش وغیرہ میں یہ چیز دیکھی ہے۔ ان کی بڑھتی ہوئی تعداد سے کچھ محققین یہ سوچنے لگے ہیں کہ کیا خواب دیکھنا جو کبھی انسانوں کا ہی خاصہ سمجھا جاتا تھا وہ اس سے کہیں زیادہ وسیع ہے۔
آر ای ایم نیند عام طور پر آنکھوں کی تیز رفتار حرکت کے علاوہ کئی ديگر خصوصیات کی بھی حامل ہے۔ اس میں پٹھوں کے عارضی فالج، جسم کک وقفے وقفے سے مروڑ کھانا، اور دماغی سرگرمی، سانس لینے اور دل کی دھڑکن میں اضافہ وغیرہ بھی شامل ہیں۔
سنہ 1953 میں سوتے ہوئے شیر خوار بچوں میں اس کا مشاہدہ کیا گیا اور پھر آر ای ایم کی شناخت بلیوں، چوہوں، گھوڑوں، بھیڑوں، اپوسم اور آرماڈیلوز جیسے دودھ پلانے والے جانوروں میں بھی ہوئی۔
Getty Imagesکیٹل فش نیند میں اپنا رنگ بدلتی ہے
آر ای ایم کے دوران دماغ میں ہونے والے واقعات کم از کم انسانوں میں اچھی طرح سے دیکھے گئے ہیں۔ غیر آر ای ایم والے نیند کے ادوار کے دوران، جسے پرسکون نیند بھی کہا جاتا ہے، دماغ کی سرگرمی ہم آہنگ ہوتی ہے۔
نیوران بیک وقت فائر کرتے ہیں اور پھر خاموش ہو جاتے ہیں، خاص طور پر دماغ کے کورٹیکس میں اور اس عمل کی وجہ سے لہر جیسی کیفیت بنتی ہے جسے سست لہروں کے نام سے جانا جاتا ہے۔ اس کے برعکس آر ای ایم کے دوران دماغ برقی سرگرمیوں کو دکھاتا ہے جو جاگنے کی یاد دلاتا ہے۔
بہر حال تمام دودھ پلانے والے جانوروں میں بھی ریم نیند ایک جیسی نہیں ہوتی۔ ایکڈناس نامی مرسوپیئل ممالیہ ایک ہی وقت میں آر ای ایم اور غیر آر ای ایم نیند کی خصوصیات دکھاتے ہیں۔
وھیل اور ڈالفن کے بارے میں رپورٹس بتاتی ہیں کہ انھیں ریم کا تجربہ بالکل نہیں ہو سکتا۔ پرندوں کے پاس آر ای ایم نیند ہوتی ہے، جو چونچ اور پروں کے مروڑنے اور سر کو تھامنے والے پٹھوں میں نرمی آنے سے پیدا ہوتے ہیں۔
پھر بھی محققین مختلف خانوادے سے تعلق رکھنے والے جانوروں کی بہت سی شاخوں میں اسی طرح کی نیند کی حالتیں تلاش کرنا شروع کر رہے ہیں۔
مثال کے طور پر سنہ 2012 میں محققین نے کٹل فش میں نیند جیسی حالت کے ساتھ ساتھ ایک متجسس ریم نما رویے کی اطلاع دی کہ نیند کی اس حالت کے دوران یہ جانور وقتاً فوقتاً اپنی آنکھوں کو تیزی سے حرکت دیتے ہیں، اپنے بازو مروڑتے اور اپنے جسموں کے رنگ بدلتے ہیں۔
میساچوسٹس کے ووڈس ہول میں میرین بائیولوجیکل لیبارٹری میں ایک فیلوشپ کے دوران رویے کی ماہر حیاتیات ٹریسا ایگلیسیاس نے اس رجحان کی مزید تحقیقات کی جس میں نصف درجن کٹل فش کی ٹیرا بائٹس ویڈیوز جمع کیے گئے۔
تمام چھ کٹل مچھلیوں میں ریم کی سرگرمیوں کی جھلک ملیں جو تقریباً ہر 30 منٹ میں دہرائی جاتی ہیں۔
اس میں ان کے بازوؤں کی حرکت اور آنکھوں کی حرکات کے دوران ان کی جلد کامختلف رنگوں اور پیٹرن میں بدلنا دیکھا گیا۔
اس میں انھیں کیموفلاج کرتے اور توجہ مبذول کرنے والے اشارے کرتے دیکھا گیا اور یہ دونوں اشارے ان میں جاگتے ہوئے رویوں کے دوران بھی ظاہر ہوتے ہیں۔
ایگلیسیاس کا کہنا ہے کہ ’چونکہ سیفالوپڈ کا دماغ اس کی جلد کے پیٹرن کو براہ راست کنٹرول کرتا ہے اس لیے اس سے پتہ چلتا ہے کہ دماغ کی سرگرمی تھوڑی عجیب ہو رہی ہے۔‘
وہ اب جاپان کے اوکیناوا انسٹی ٹیوٹ آف سائنس اینڈ ٹیکنالوجی میں ہیں۔
Getty Imagesسیپافلوڈ
اس کے بعد محققین نے آکٹوپس میں بھی اسی قسم کی کیفیت کا مشاہدہ کیا ہے۔ اگلیسیاس کا کہنا ہے کہ اگر آکٹوپس اور کٹل فش خواب دیکھتے ہیں تو ’یہ اس خیال کو باطل قرار دیتا ہے جس کے تحت ہم انسانیت کو بہت خاص سمجھتے ہیں۔‘
محققین نے داڑھی والے ڈریگنوں کے دماغ میں الیکٹروڈ سے سگنل ریکارڈ کرکے آر ای ایم یا ریم جیسی کیفیت کا مشاہدہ کیا ہے۔ اور انھوں نے مچھلیوں کے دماغی سگنیچر کی بنیاد پر زیبرا فش میں نیند کی کم از کم دو کیفیتوں کی اطلاع دی ہے۔ ان میں سے ایک حالت میں اعصابی سرگرمی اس طرح ہوتی ہے جیسا کہ ممالیہ کے غیر ریم مرحلے میں ہوتی ہے یعنی پرسکون۔ ایک اور حالت میں مچھلی نے وہ اعصابی سرگرمی دکھائی جو بیدار ہونے کی حالت میں اس کے ذہن میں ہوتی ہے۔ (مچھلی کے معاملے میں آنکھوں کی تیز حرکت نہیں دکھائی دی۔)
یہ بھی پڑھیے
کیا جانوروں میں قدرتی طور پر ایسا نظام موجود ہے جو انھیں آنے والی قدرتی آفات سے آگاہ کرتا ہے؟
کم وقت میں اچھی اور گہری نیند کے نسخے
ذہنی اور جسمانی صحت کے لیے کتنی دیر سونا ضروری ہے؟
انسانوں اور اس کے ارتقائی طور پر دور کے رشتہ داروں میں نیند کے متعدد مراحل کا مشاہدہ کرتے ہوئے مصنفین نے تجویز کیا کہ نیند کی مختلف اقسام کروڑوں سال پہلے پیدا ہوئیں۔ اب یہ معلوم ہوا ہے کہ مکھیاں بھی دو یا دو سے زیادہ نیند کی حالتوں کے درمیان پھڑپھڑا سکتی ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ گول کیڑوں میں نیند کی صرف ایک حالت ہوتی ہے۔
محققین غیر انسانی جانوروں کے خواب دیکھنے کے امکان پر غور کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ریم جیسی نیند کے دوران ان مخلوقات میں جاگنے جیسی حالت اور اس قسم کا طرز عمل یہ بتاتا ہے کہ جیسے وہ خواب دیکھ رہے ہوں جیسا کہ سیفالوپڈز میں پیٹرن کا بدلنا چمکنا یا مکڑیوں کا اپنے تارکش عضو کو ہلانا۔میونخ میں میکس پلانک انسٹی ٹیوٹ فار بائیولوجیکل انٹیلی جنس اور یونیورسٹی میڈیسن گوٹنگن میں نیند کی سائنسدان جیانینا انگورین اور ان کے ساتھیوں کا کہنا ہے کہ کبوتروں میں نیند کے دوران ان کی پتلیاں اسی طرح تنگ ہوجاتی ہیں جیسے وہ صحبت کے دوران ہوتی ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ اس سے یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ آیا کبوتر خواب دیکھ رہے ہیں یا پھر اس چیز کا کسی طرح دوبارہ تجربہ کر رہے ہیں جو ان کے جاگتے ہوئے صحبت کے دوران ہوا تھا۔
Getty Imagesکبوتر کو ایم آر آئی مشین میں سونے کی تربیت دی گئی
ریم نیند کو کچھ جانوروں میں تجربات کے دوبارہ ہونے سے بھی جوڑا گیا ہے۔ مثال کے طور پر جب محققین نے سوتے ہوئے چوہوں کی دماغی برقی سرگرمی پر نظر ڈالی جو پہلے بھول بھولیوں سے گزرے تو انھوں نے ان کے دماغ میں نیوران کی فائرنگ دیکھی جو نیویگیشن میں مدد کرتے ہیں اور سر کی سمت سے جڑے ہوتے ہیں، حالانکہ نیند میں چوہوں کے سر حرکت نہیں کر رہے تھے تاہم انھوں نے آنکھوں کی نقل و حرکت سے وابستہ نیوران میں بھی سرگرمی دیکھی۔ انگورین کا کہنا ہے کہ اس امتزاج سے پتہ چلتا ہے کہ چوہوں کو خواب جیسا تجربہ ہوا ہو گا جس میں وہ ماحول کو سکین کر رہے تھے۔
انگرین کا کہنا ہے کہ ان تمام علامات کے ساتھ، یہ ثابت کرنا مناسب ہے کہ جانور خواب دیکھ رہے ہیں۔ ’تاہم اگر ہم ان وجوہات کو ایک ایک کرکے دیکھیں تو پتہ چلتا ہے کہ ان میں سے کوئی بھی اسے قطعی طور پر ثابت کرنے کے لیے کافی نہیں ہے۔‘
انگورین کا کہنا ہے کہ ری پلے سے وابستہ دماغی سرگرمی، جیسے بھول بھولیاں سے گزرنے والے چوہوں کی صرف ریم جیسی حررکت سونے کے دوران نہیں ہوتی بلکہ یہ منصوبہ بندی یا جاگتی آنکھوں سے خواب دیکھنے کے دوران بھی ہو سکتا ہے۔ اور ریم اور خواب دیکھنے کے درمیان تعلق قطعی نہیں ہے: انسان غیر ریم حالت میں بھی خواب دیکھتے ہیں، اور جب ریم نیند کو دبانے کے لیے دوائیں استعمال کی جاتی ہیں تو بھی انسانی مطالعہ کے شرکاء نے بتایا ہے کہ انھوں نے لمبے اور عجیب خواب دیکھے۔
انگورین کا کہنا ہے کہ سب سے بڑی بات یہ ہے کہ لوگ جانتے ہیں کہ وہ خواب دیکھ رہے ہیں کیونکہ وہ اس کی اطلاع دے سکتے ہیں۔ ’لیکن جانور اس کی اطلاع نہیں دے سکتے، اور یہ سب سے بڑا مسئلہ ہے جو ہمارے پاس خالصتاً سائنسی اور مضبوطی سے خواب دیکھنے کو ثابت کرنے کی راہ میں حائل ہے۔‘
یہاں تک کہ ریم کس کے لیے ہے اس پر ابھی بھی بحث جاری ہے۔ سینٹ لوئس میں واقع واشنگٹن یونیورسٹی کے نیورو سائنس دان پال شا کہتے ہیں کہ ’کوئی بھی نہیں جانتا کہ نیند کا کام کیا ہے – غیر ریم یا ریم۔ سب سے زیادہ مقبول خیالوں میں سے ایک خیال یہ ہے کہ ریم یادوں کو بنانے اور دوبارہ ترتیب دینے میں دماغ کی مدد کرتا ہے‘۔ دیگر نظریات یہ کہتے ہیں کہ ریم دماغ کی نشوونما میں معاونت کرتا ہے، جسم کے حرکت کے نظام کو تیار کرنے میں مدد کرتا ہے، جاگنے کی سرگرمیوں کے لیے درکار نظام یا سرکٹری کو برقرار رکھتا ہے تاکہ وہ نیند کے دوران کم نہ ہوں، یا دماغی درجہ حرارت کو بڑھاتا ہے۔
Getty Imagesزیبرا فش
اگلیسیاس کا کہنا ہے کہ اگر آر ای ایم کا جانوروں کی دنیا کے اندر دور دراز نسل اور اقساممیں موجود ہونے کا پتہ چلتا ہے تو اس سے پتہ چلتا ہے کہ اس کا کردار جو بھی ہو بہت اہم ہو سکتا ہے۔
بہر حال تمام سائنسدانوں کو یقین نہیں ہے کہ محققین آر ای ایم کو دیکھ بھی رہے ہیں۔ یو سی ایل اے میں نیند کا مطالعہ کرنے والے نیورو سائنس دان جیروم سیگل کہتے ہیں کہ وہ محض اس تصور کو پورا کر رہے ہیں کہ تمام جانوروں کی نیند کی دو حالتیں ہوتی ہیں اور ان میں سے ایک کو آر ای ایم سے تعبیر کرتے ہیں۔ ان میں سے مکڑیوں جیسے کچھ جانور ایسے ہیں جو شاید سو نہیں رہے ہوں۔ ان کا کہنا ہے کہ ’جانور ایسی چیزیں کر سکتے ہیں جو ایک جیسی نظر آتی ہیں، لیکن ضروری نہیں کہ ان کی فزیالوجی ایک جیسی ہو۔‘
محققین سراغ کی تلاش میں رہتے ہیں۔ راسلر کی ٹیم ایسے نشان تیار کرنے کی کوشش کر رہی ہے جس سے وہ مکڑی کے دماغوں کی تصویر کشی کر سکیں۔ ان سے ان علاقوں میں ایکٹیویشن کا پتہ چل سکتا ہے جو خواب میں استعمال ہونے والے کاموں سے مشابہت رکھتے ہیں۔
اگلیسیاس اور دوسروں نے سیفالوپڈس کے دماغوں میں الیکٹروڈ لگائے ہیں اور نیند کی دو حالتوں کے دوران ان کی برقی سرگرمی کو پکڑا ہے۔ ان میں سے ایک وہ ہے جو جاگنے کی طرح کی سرگرمی کو ظاہر کرتا ہے، اور دوسری جو کہ ایک پرسکون حالت ہے، جس میں ممالیہ جانوروں کی طرح کے اعصابی سگنیچر ہوتے ہیں۔
انگیورین نے کبوتروں کو کو ایم آر آئی مشین میں سونے کی تربیت دی ہے اور پتہ چلایا ہے کہ دماغ کے بہت سے حصے جو انسانی نیند میں روشن ہوتے ہیں وہ پرندوں میں بھی متحرک ہو جاتے ہیں۔
سان فرانسسکو سٹیٹ یونیورسٹی کے ایک فلسفی اور ’وھن اینیملز ڈریم: دی ہڈن ورلڈ اف اینیمل کنششنیس‘ نامی کتاب کے مصنف ڈیوڈ ایم پینا گزمین کہتے ہیں کہ اگر کٹل فش اور مکڑیاں اور دیگر پالتو جانوروں کی ایک وسیع اقسام خواب دیکھتے ہیں، تو یہ ان کے تجربہ کے بارے میں دلچسپ سوالات اٹھاتا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ چونکہ خواب، دیکھنے والے کے نقطہ نظر سے ظاہر ہوتے ہیں، اس لیے خواب دیکھنے والے جانوروں میں دنیا کو اپنے نقطہ نظر سے دیکھنے کی صلاحیت ہونی چاہیے۔
انھوں نے مزید کہا کہ خواب دیکھنا بھی اس بات کا اشارہ ہو گا کہ ان میں تخیلاتی صلاحیتیں ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ 'ہم یہ سوچنا چاہتے ہیں کہ صرف انسان ہی ہیں جو دنیا سے وقفے لے سکتے ہیں، ہمیں دوسرے جانوروں کے بارے میں تھوڑا زیادہ سوچنا پڑے گا۔'