’میں تو یہ سن کر حیران ہوں کہ ججز کو قرض دیے جا رہے ہیں، وہ بھی سود سے پاک۔ وہ تو پہلے ہی سرکاری گھروں میں رہ رہے ہیں اور انھیں مراعات بھی ملتی ہیں۔‘
لاہور ہائیکورٹ بار کونسل کی سیکریٹری صباحت رضوی نے یہ بات بی بی سی سے بات کرتے ہوئے پنجاب کی نگران حکومت کی جانب سے لاہور ہائی کورٹ کے 11 ججز کو گھروں کی تعمیر کے لیے منظور کیے گئے بلاسود قرضوں پر ردِ عمل دیتے ہوئے کہی۔
پنجاب کی نگران حکومت نے اس مد میں گیارہ ججز کو 36 کروڑ روپے سے زائد کے بلاسود قرضے دینے کی منظوری دی ہے جس کی تصدیق نگراں حکومت کے وزیرِ اطلاعات عامر میر نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کی ہے۔
پاکستان بار کونسل نے صوبائی کابینہ کی سٹینڈنگ کمیٹی برائے خزانہ کی جانب سے دی گئی اس منظوری پر تحفظات ظاہر کرتے ہوئے کہا ہے کہ ملک کی موجودہ معاشی صورتحال میں ایسے اقدامات سے سرکاری خزانے کو بہت نقصان پہنچتا ہے۔
تاہم نگران حکومت کے مطابق ماضی میں بھی ججز کو بلاسود قرضے دیے جا چکے ہیں جس کا ایک مقصد انھیں ’کرپشن سے دور رکھنا ہے۔‘
ججز کے لیے بلاسود قرضوں کا معاملہ کیا ہے؟
رواں ہفتے صوبائی کابینہ کی سٹینڈنگ کمیٹی برائے خزانہ کے اجلاس میں ایجنڈا نمبر 17، 18 اور 19 میں 11 ججز کو گھروں کی تعمیر کے لیے ’بلاسود قرض‘ منظور کیے گئے جو ہر جج کے لیے اوسطاً قریب ساڑھے تین کروڑ روپے کی رقم بنتی ہے۔
پنجاب کے نگران وزیر اطلاعات عامر میر نے بذریعہ واٹس ایپ ایک پیغام میں بی بی سی کو بتایا کہ یہ قرضے ججز کی تین برسوں کی (36 بنیادی) تنخواہوں کے برابر ہیں جو کہ 12 سال کی مدت میں ان کی تنخواہوں سے ہی منہا کر لیے جائیں گے۔
انھوں نے بتایا ہے کہ ’ججوں کی قرضوں کے لیے درخواستیں لاہور ہائی کورٹ کے رجسٹرار آفس کی جانب سے آئی تھیں جنھیں روٹین کے مطابق پنجاب کابینہ کی سٹینڈنگ کمیٹی برائے خزانہ نے منظور کر لیا۔‘
عامر میر کا کہنا ہے کہ ’ججز کے لیے گھروں کی تعمیر کے لیے سود سے پاک قرضوں کی منظوری کوئی نئی بات نہیں ہے۔ ایسا ماضی میں بھی ہوتا رہا ہے۔
’یہ وہ 11 جج حضرات ہیں جو قرضے لینے سے رہ گئے تھے۔ لاہور ہائی کورٹ کے باقی تمام ججز ماضی میں گھر بنانے کے لیے مختلف حکومتوں سے سود فری قرض حاصل کر چکے ہیں۔ ان 11 ججوں نے بھی یہی مؤقف اختیار کیا تھا۔‘
صوبائی نگران وزیر اطلاعات نے مزید کہا کہ ’ججوں کو سود فری قرضے دینے کا ایک بڑا مقصد انھیں کرپشن سے دور رکھنا بھی ہے تاکہ وہ اپنے وسائل سے ہی اپنی سروس کے دوران گھر بنانے کے قابل ہو جائیں۔‘
تاہم لاہور ہائیکورٹ میں دائر کردہ ایک درخواست میں ان قرضوں کو ’امتیازی‘ اور ’عدم مساوات پر مبنی‘ قرار دیتے ہوئے انھیں کالعدم قرار دینے کی استدعا کی گئی ہے۔
BBCلاہور بار کی سیکریٹری صباحت رضوی کے مطابق ایک طرف عوام کو مہنگائی کی وجہ سے مشکلات کا سامنا ہے تو دوسری طرف ججز سمیت اشرافیہ کو مالی طور پر مزید مضبوط کیا جا رہا ہے’یہ غیر آئینی و غیر اخلاقی ہے‘
پاکستان بار کونسل نے لاہور ہائیکورٹ کے ججز کے لیے بلاسود قرضوں پر ’شدید تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے مبینہ نوٹیفکیشن فوری طور پر واپس لینے کا مطالبہ کیا ہے۔‘
ایک بیان میں بار کونسل کے وائس چیئرمین ہارون الرشید اور ایگزیکٹو کمیٹی کے چیئرمین حسن رضا پاشا نے اسے ’غیر اخلاقی‘ اور ’غیر قانونی‘ قرار دیا اور کہا کہ ’ایسے اقدامات سے، خاص طور پر ملک کی موجودہ بدترین معاشی حالات میں، سرکاری خزانے کو بہت نقصان پہنچتا ہے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ججوں کے لیے عوامی وسائل سے قرضے کی منظوری کا یہ عمل نہ تو جائز ہے اور نہ ہی قابل قبول ہے جبکہ عوام الناس پہلے ہی افراط زر سے بری طرح متاثر ہیں اور ان کی معاشی حالت پہلے سے ہی ابتر ہے، انھیں مہنگائی کا سامنا ہے۔
https://twitter.com/NJLahori/status/1699653046299701346
وکلا کا مزید کہنا تھا کہ عوام اور یہاں تک کہ غریبوں سے بھی قرضوں پر 20 سے 25 فیصد سود وصول کیا جا رہا ہے جبکہ ایک جج جو پرکشش تنخواہوں کا پیکج لے رہا ہے اور دیگر مراعات سے بھی لطف اندوز ہو رہا ہے، اسے بلا سود قرضہ دینا بذات خود ججوں کے ضابطہ اخلاق کی خلاف ورزی، امتیازی سلوک اور عدم مساوات کے مترادف ہے۔
انھوں نے کہا کہ ’ہم لاہور ہائی کورٹ کے ججوں سے بھی توقع رکھتے ہیں کہ وہ اس غیر اخلاقی اور بلا جواز قرض کو قبول کرنے سے انکار کر دیں گے۔۔۔ ججوں سمیت تمام مراعات یافتہ طبقے کو پہلے سے موجود تمام مراعات فوری طور پر بند کی جائیں۔‘
https://twitter.com/adilshahzeb/status/1699767542204526776
لاہور ہائیکورٹ بار ایسوسی ایشن کی سیکریٹری صباحت رضوی کی رائے میں ججز پہلے ہی بڑی تنخواہیں اور مراعات وصول کر رہے ہیں تو ایسے میں یہ بلاسود قرض بھی ’بظاہر بدعنوانی کی ایک قسم ہے۔‘
انھوں نے کہا کہ یہ مراعات ایک ایسے وقت میں دی جا رہی ہیں جب عوام مہنگائی کے باعث دب چکے ہیں اور حکومت بجلی کی قیمتیں بڑھاتی چلی جا رہی ہے مگر دوسری طرف ’ہماری اشرافیہ کو مالی طور پر مزید مضبوط کیا جا رہا ہے۔‘
صباحت رضوی کے مطابق جہاں عدلیہ کی ذمہ داری ہے کہ وہ انصاف فراہم کریں وہاں حکومت کی جانب سے ایسے اقدامات ’رشوت دینے‘ اور عدلیہ پر ’دباؤ ڈالنے‘ جیسا ہے۔
وہ عدالتوں میں زیرِ التوا کیسز کی بڑی تعداد کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہتی ہیں کہ عدالتی نظام مفلوج ہو کر رہ گیا ہے جہاں صرف ان کیسز کو ترجیحی بنیادوں پر سنا جا رہا ہے جو سیاسی حلقوں یا سماج کے اشرافیہ سے متعلق ہیں۔ ’غریب اور متوسط طبقے کے کیسز 10، 10 سال تک عدالتوں میں سنے نہیں جاتے۔ یہ المیہ ہے کہ دنیا آگے جا رہی ہے اور ہم پیچھے جا رہے ہیں۔‘
14 ستمبر کو سپریم کورٹ بار نے ہڑتال کی کال دی ہے جس کی لاہور بار نے حمایت کا اعلان کر رکھا ہے۔
سیکریٹری لاہور بار کے مطابق اس ہڑتال میں قانون کی بالادستی کے علاوہ مہنگائی اور 90 روز کی آئینی مدت میں عام انتخابات جیسے مطالبوں کے ساتھ اس معاملے پر بھی آواز اٹھائی جائے گی۔
ججز کو بلاسود قرض دیے جانے کے خلاف نہ صرف وکلا تنظیموں بلکہ سوشل میڈیا پر بھی حیرت ظاہر کی گئی۔
https://twitter.com/FarhatullahB/status/1700496845183537241
صحافی عددل شاہزیب نے لکھا کہ ’انڈسٹریز اور کاروبار 25 فیصد سود کی وجہ سے دیوالیہ ہو کر بند ہو رہے ہیں لیکن پنجاب حکومت ججز کو بلا سود قرضہ دی گی واہ! جو غلط ہے اس کو ٹھیک کرنے کا پہلا اصول یہ ہے کہ نئی غلطیاں نہ کریں، اس ملک پر رحم کریں۔‘
اداکارہ نادیہ جمیل نے سوال کیا کہ ’کیا سینیٹیشن ورکر یا سکیورٹی گارڈ بھی 371 ملین روپے کا بلاسود قرض حاصل کر سکتا ہے؟‘
جبکہ سابق سینیٹر فرحت اللہ بابر پوچھتے ہیں کہ ’ججز کے لیے بلاسود قرض، طاقتور ادارے کے لیے ریٹائرمنٹ کے بعد 90 ایکڑ زمین، سینیٹ چیئرمین اور سابق چیئرمین کے لیے بڑی مراعات۔ یہ سب ایلیٹ کیپچر ظاہر کرتا ہے۔‘
خیال رہے کہ اقوامِ متحدہ کے ترقیاتی پروگرام اور نیشنل ہیومن ڈولپمنٹ کی جانب سے 2021 میں شائع ہونے والی ایک مشترکہ رپورٹ میں بیان کیا گیا تھا کہ کیسے پاکستان کے امرا، جاگیردار، سیاسی قائدین اور فوج کو ملنے والے معاشی مراعات پاکستان کی معیشت میں 17 ارب ڈالر سے زیادہ کا اضافی خرچے کا باعث بنتے ہیں۔
پاکستان انسٹیٹیوٹ آف ڈیویلپمنٹ اکنامکس (پائیڈ) کی رپورٹ کے مطابق عدلیہ کے ایک ہائی کورٹ کے جج کو اپنی ملازمت کے دوران مفت گھر ملتا ہے، جس کا کرایہ حکومت دیتی ہے جبکہ بجلی کا بل اور سرکاری گاڑی بھی حکومتی کھاتے میں آتے ہیں۔
پائیڈ کی رپورٹ کے مطابق اگر جج اپنے گھر میں رہتے ہیں تو ان کے گھر کا اضافی خرچہ، جو دستاویزات میں تقریباً 65 ہزار روپے ماہانہ رقم بتائی جاتی ہے، مختص کردی جاتی ہے۔