Getty Images
پاکستان سمیت دنیا بھر میں اکثر لوگ ڈاکٹر کے مشورے کے بغیر داوئیاں لینا شروع کر دیتے ہیں۔ مثال کے طور پر اگر کسی کو سر درد، پیٹ یا جسم کے کسی حصے میں درد ہو تو وہ خود ہی فارمیسی سے دوائی خرید کر کھا لیتے ہیں۔
ان ادویات میں سرِفرست اینٹی بائیوٹکس شامل ہیں، جن کو خود سے استعمال کرتے ہوئے انسان کو یہ گمان نہیں ہوتا کہ اس کے کیا نقصانات ہیں۔
عظمیٰ شاہین بھی اُن ہی افراد میں شامل ہیں، جو ایک لمبے عرصے تک ڈاکٹر کے مشورے کے بغیر اینٹی بائیوٹک لیتی رہیں۔
وہ بتاتی ہیں کہ ’مجھے جب بھی پیٹ کا درد ہوتا تو اینٹی بائیوٹک لے لیتی اور آرام آ جاتا تھا، تو ایک لمبے عرصے تک میں اسی کا استمعال کرتی رہی۔‘
عظمیٰ نے بتایا کہ ایک دن جب اُن کو شدید تکلیف تھی تو اُنھوں نے اینٹی بائیوٹیک چار گھنٹے میں دو بار استعمال کر لی۔
’مجھے ایسے لگ رہا تھا کہ میرے جسم میں کوئی بھی چیز اثر نہیں کر رہی۔ میں نے وہ دن انتہائی تکلیف میں گزارا۔‘
مسلسل تکلیف میں رہنے کے بعد عظمیٰ جب ڈاکٹر کے پاس پہنچیں تو اُنھیں ڈاکٹر نے بتایا کہ مسلسل خود سے اینٹی بائیوٹیک لینے کی وجہ سے اُن کے جسم میں دوائی نے اثر کرنا بند کر دیا ہے۔
’میں یہ سن کر حیران رہ گئی کیونکہ مجھے اس قدر تکلیف تھی کہ مجھ سے بات بھی نہیں ہو رہی تھی۔ مجھے ڈاکٹر نے بتایا کہ اب وہ اُن کو جو اینٹی بائیوٹک دوائی دیں گے، وہ جلدی اثر نہیں کرے گی۔‘
عظمیٰ کی مشکل یہی ختم نہیں ہوئی بلکہ ہسپتال میں لگاتار چار دن رہنے کے بعد جب وہ گھر آئیں تو اُن کے جسم میں اینٹی بائیوٹک کے بے جا استعمال سے سائیڈ ایفیکٹس نمایاں ہونے لگے اور اُن کو متلی، قے کے ساتھ ساتھ بھوک کی کمی کا مسئلہ بھی ہو گیا۔
’میں جب گھر آئی تو مجھے چکر آ رہے تھے۔ دوائیوں کے اثر کی وجہ سے میری بھوک بالکل ختم ہو گئی تھی۔ اس کے علاوہ مجھے رات میں ٹھیک سے نیند بھی نہیں آتی تھی۔ آج چھ ماہ گزارنے کے باوجود میرا معدہ ان دوائیوں کے زیر اثر ہے۔‘
BBCعظمیٰ شاہین بھی اُن ہی افراد میں شامل ہیں، جو ایک لمبے عرصے تک ڈاکٹر کے مشورے کے بغیر اینٹی بائیوٹک لیتی رہیںعظمیٰ کے جسم میں اینٹی بائیوٹکس نے اثر کرنا کیوں چھوڑ دیا؟
عظمیٰ جیسے نہ جانے کتنے مریض ہیں جو یہ جانتے ہی نہیں کہ زیادہ اینٹی بائیوٹکس اُنھیں نقصان پہنچا سکتی ہیں؟
بی بی سی نے ایسے ہی چند افراد سے پوچھا کہ کیا وہ اینٹی بائیوٹک خود لیتے ہیں یا ڈاکڑ کے مشورے پر، تو اُن میں سے زیادہ تر لوگوں نے بتایا کہ وہ بخار، گلے میں درد یا دوسرے کسی وائرل انفیکشن کی صورت میں خود سے دوائی لے لیتے ہیں جبکہ ایسے افراد کی تعداد کم تھی جنھوں نے کہا کہ وہ خود سے کوئی دوا نہیں استعمال کرتے بلکہ ڈاکٹر جو بھی اُن کو بتاتے ہیں اُسی کی بنیاد پر دوائی لیتے ہیں۔
ویسے تو اینٹی بائیوٹک لوگوں کو تجویز کی جانے والی سب سے عام دوا ہے لیکن یہ سمجھنا ضروری ہے کہ اینٹی بائیوٹکس وائرل فلو یعنی نزلہ، زکام، عام کھانسی اور بخار میں بالکل کام نہیں کرتی۔
اگر کسی کو ایسے مسائل ہیں تو اس کی کوئی بھی وجہ ہو سکتی ہے جیسے کہ وائرل انفیکشن، فنگل انفیکشن، یا کوئیہارمونل وجہ بھی ہو سکتی ہے۔
تو ایسے میں جب مرض کے لیے بیکٹیریا ذمہ دار ہی نہیں تو اینٹی بائیوٹک کیسے کام کرے گی؟
ماہرین کہتے ہیں کہ آپ جتنی زیادہ اینٹی بائیوٹکس استعمال کریں گے اتنا زیادہ بیکٹیریاز میں ’اینٹی مائکروبیئل ریزسٹنس‘ پیدا ہونے کے امکان بڑھ جاتے ہیں۔ یعنی وقت کے ساتھ ساتھ وہ خود میں ایسی تبدیلیاںپیدا کر لیتے ہیں کہ ان پر ادویات کا اثر ہونا بند ہو جاتا ہے اور ان بیکٹیریاز کو ’ڈرگ ریزسٹنٹ بیکٹیریا‘ کہتے ہیں۔
پاکستان انسٹیٹیوٹ آف میڈیکل سائنسس کے (پمز) کے ڈاکٹر طارق نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ ’ہمارے جسم میں موجود بیکڑیا بدلتا رہتا ہے، اگر ہم کسی ایسی بیماری میں اینٹی بائیوٹک کھاتے ہیں جس میں اُس کو ضرورت ہی نہیں تو ایسے میں بیکڑیا خود میں تبدیلیاں لے کر آتا ہے، پھر جب کسی بیماری کے لیے اینٹی بائیوٹک ضرورت ہے تو ایسے میں وہ اُس پر اثر ہی نہیں کرتی۔‘
ڈاکٹر طارق نے بتایا کہ پاکستان میں ایسے بہت سے کیسز آ رہے ہیں جہاں مریضوں پر اینٹی بائیوٹک اثر ہی نہیں کر رہی ہوتی۔
اس کی مثال دیتے ہوئے اُنھوں نے بتایا کہ اگر کسی کو انفیکشن ہوا ہے اور اُس وجہ سے اُن کو شدید بخار ہے تو ایسے میں مہنگے سے مہنگے انجیکشن بھی اثر نہیں کرتے۔
اس کی وجہ یہ ہے کہ اُن مریضوں نے اتنی اینٹی بائیوٹک کھائی ہوتی ہیں کہ وہ مزاحمت بن جاتی ہیں۔
جیسے کہ اوپر ذکر کیا گیا کہ اینٹی بائیوٹک ڈاکٹر کی جانب سے دی جانے والی وہ دوائی ہے جو سب سے زیادہ دی جاتی ہے، تو اس بارے میں ماہرین کہتے ہیں کہ ڈاکٹرز پر کام کا اس قدر بوجھ ہوتا ہے کہ وہ بھی ہر مریض کی مکمل جانچ کیے بغیر ہی اینٹی بائیوٹکس دے دیتےہیں۔
ڈاکٹر طارق کا کہنا ہے کہ پاکستان میں ڈاکٹرز کو اب بہت سوچنے کے بعد مریضوں کو دوائی دینی چاہیے۔ ’جب مریض کو ایسا انفیکشن ہو کہ بجار ایک سو تین یا چار تک پہنچ جائے اور یہ بات لیب ٹیسٹ سے تصدیق شدہ ہو تو ایسی صورت میں اینٹی بائیوٹک دینا چاہیے۔‘
میڈیکل جرنل لینسیٹ کے مطابق صرف سنہ 2019 میں دنیا بھر میں 12 لاکھ ستر ہزار سے زیادہ لوگوں کی اموات ایسے انفیکشن سے ہوئی جس کی وجہ ’ڈرگ ریزسٹنٹ بیکٹیریا‘ تھے یعنی ایسے بیکٹیریا جن پر دواوٴں کا اثر نہیں ہوا۔
اینٹی بائیوٹک دریافت کب کی گئی؟
سنہ 1928 میں ڈاکٹر ایلگزینڈر فلیمنگ کی دریافت پنیسیلین نے بیکٹریل انفیکشن کے علاج میں انقلاب برپا کر دیا۔انھیں اتفاقاً پتا چلا کہ جن پیالوں میں وہ بیکٹریا کلچر کر رہے تھے ان میں سے ایک کو پھپوندی لگ گئی تھی اور اس میں موجود بیکٹریا مر گئے تھے۔
مزید ریسرچ کی تو معلوم ہوا کہ پھپوندی سے نکلنے والا ایک کمپاؤنڈ ان بیکٹریا کے لیے زہر ثابت ہوا۔
اس پھپوندی کے نام کی نسبت سے انھوں نے اس مادے کا نام پنیسیلین رکھا۔ بعد میں ایسی ادویات کی درجہ بندی اینٹی بائیوٹک کے نام سے ہوئی۔
یہ دریافت بیکٹریل انفیکشن، خاص طور سے جنگ کے دوران زخموں کو سڑنے سے روکنے میں ایک معجزاتی دوا ثابت ہوئی۔ اس کے بعد سے سینکڑوں قسم کی اینٹی بائیوٹکس تیار کی جا چکی ہیں۔
ڈاکٹر طارق مشورہ دیتے ہیں کہ ’آپ کے ڈاکٹر صرف اس وقت اینٹی بائیوٹکس تجویز کریں گے جب آپ کو ان کی ضرورت ہوگی۔ مثال کے طور پر گردے کے انفیکشن یا نمونیا کے لیے اگر آپ کو اینٹی بائیوٹکس دی گئی ہیں تو براہ کرم انھیں ہدایت کے مطابق استعمال کریں۔‘
’اس بات کو یقینی بنائیں کہ آپ کورس مکمل کریں، انھیں مستقبل کے استعمال کے لیے محفوظ نہ کریں۔ یہ ضروری ہے کہ ہم اینٹی بائیوٹکس کو صحیح طریقے سے، صحیح خوراک، صحیح مدت کے لیے صحیح وقت پر استعمال کریں۔‘