Getty Imagesگذشتہ 50 برسوں کے دوران مردوں کے سپرم کاؤنٹ میں 51 فیصد کمی واقع ہوئی ہے
دنیا میں مردوں کی آبادی کا سات فیصد حصہ بانجھ پن سے متاثر ہوتا ہے۔ لیکن اب مصنوعی ذہانت شاید اس مسئلے کا حل نکال سکے گی۔
ڈاکٹر سٹیون وسیلیکو کا کہنا ہے کہ ان کی ٹیم نے مصنوعی ذہانت کا ایک ایسا سافٹ ویئر تیار کیا ہے جو تربیت یافتہ ماہرین کی نظر کے مقابلے میں ہزار گنا تیزی سے مردانہ بانجھ پن کے شدید متاثرہ مردوں سے حاصل شدہ نمونوں کے سپرم کاؤنٹ کا جائزہ لے سکے گا۔
’یہ اتنی تیزی سے سپرم کی تعداد بتا دے گا کہ اتنی دیر میں کوئی انسان یہ سمجھ بھی نہیں سکتا کہ وہ کیا دیکھ رہا ہے۔‘
ڈاکٹر سٹیون آسٹریلیا کی یونیورسٹی آف ٹیکنالوجی سڈنی میں بائیومیڈیکل انجینیئر ہیں اور نیو جینکس بائیو سائنسز نامی طبی کمپنی کے بانی بھی۔
انھوں نے جو سافٹ ویئر تیار کیا ہے اس کا نام ’سپرم سرچ‘ رکھا گیا ہے۔ یہ سافٹ ویئر ایسے مردوں کی مدد کرنے کے لیے تیار کیا گیا ہے جن کے انزال میں سپرم بلکل نہیں ہوتے۔
مردانہ بانجھ پن سے متاثر 10 فیصد افراد میں یہ کیفیت موجود ہوتی ہے جسے ’نان ابسٹرکٹیو ایزو سپرمیا‘ یا ’این او اے‘ کہا جاتا ہے۔
ایسے افراد میں عام طور پر خصیوں کا ایک چھوٹا سا حصہ آپریشن سے نکال کر لیبارٹری میں لے جایا جاتا ہے جہاں مائیکرو سکوپ کی مدد سے صحت مند سپرم تلاش کرنے کی کوشش کی جاتی ہے اور کامیابی کی صورت میں ان سپرم کو طبی طریقوں کی مدد سے تولید کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے۔
ڈاکٹر سٹیون کا کہنا ہے کہ ’یہ عمل چھ سے سات گھنٹے تک کا وقت لیتا ہے جس میں تھکاوٹ کی وجہ سے غلطی کا احتمال رہتا ہے۔‘
’جب ایک ایمبریالوجسٹ مائکروسکوپ میں دیکھتا ہے تو اسے صرف خلیوں کا ایک مجموعہ دکھائی دیتا ہے۔‘
’اس میں خون اور ٹشو بھی ہوتا ہے۔ عین ممکن ہے کہ اس پورے حصے میں صرف دس سپرم ہوں اور باقی لاکھوں دیگر خلیے۔ یعنی یہ کام بھوسے میں سے ایک سوئی تلاش کرنے کے مترادف ہوتا ہے۔‘
ڈاکٹر سٹیون کا کہنا ہے کہ اس کے برعکس سپرم سرچ چند سیکنڈ میں صحتمند سپرم تلاش کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔
یہ رفتار حاصل کرنے کے لیے ڈاکٹر سٹیون اور ان کی ٹیم نے مصنوعی ذہانت کے نظام کو سپرم کے ہزاروں نمونے دکھا کر تربیت دی ہے۔
ایک سائنسی مقالے میں ڈاکٹر سٹیون کی ٹیم نے دعوی کیا ہے کہ کسی تجربہ کار ایمبریالوجسٹ کے مقابلے میں ان کا سافٹ ویئر ہزار گنا تیزرفتار ہے۔
واضح رہے کہ یہ نظام ماہرین کا متبادل نہیں بلکہ ان کی مدد کرنے کے لیے تیار کیا گیا ہے۔
ڈاکٹر سارہ مارٹنز کا کہنا ہے کہ یہ’ تیزرفتاری بہت اہم ہے کیوں کہ وقت کافی اہمیت رکھتا ہے۔‘ وہ ڈنڈی یونیورسٹی میں تولیدی طب کی ماہر ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ ’اگر ہم نے مصنبوعی طریقے سے تولید کرنی ہے اور کوئی خاتون انتظار کر رہی ہے تو ایسے میں ہمارے پاس انڈوں کے استعمال کے لیے بہت کم وقت ہوتا ہے اور اس عمل کو تیز رفتار بنانا بہت فائدہ مند ثابت ہو گا۔‘
رپورٹس کے مطابق گزشتہ چار دہائیوں کے دوران مردانہ سپرم کاؤنٹ آدھا رہ گیا ہے جس کی وجہ سے مردانہ بانجھ ایک بڑا مسئلہ بن چکا ہے۔
اس مسئلے کی وجہ ماحولیاتی آلودگی اور سگریٹ نوشی سے لیکر خوارک، ورزش کی کمی اور پریشانی بتائی جاتی ہیں۔
ڈاکٹر میورگ گیلاغر بھی مردانہ بانجھ پن کا حل تلاش کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔
وہ برمنگھم یونیورسٹی کے سینٹر فار سسٹمز ماڈلنگ اینڈ کوانٹیٹیٹیو بائیو میڈیسن میں اسسٹنٹ پروفیسر ہیں اور ایک نئی تکنیک کی مدد سے امیجنگ سافٹ ویئر کے ذریعے سپرم کی دم کی رفتار اور ایکشن پر نظر رکھ رہے ہیں۔
وہ بتاتے ہیں کہ ’سپرم کی دم پر نظر رکھنے سے نمونے کی صحت کے بارے میں علم ہوتا ہے کیوں کہ چھوٹی چھوٹی تبدیلیاں ہمیں بتاتی ہیں کہ سپریم پر ماحولیاتی دباؤ کتنا ہے، کیا وہ مرنے والا ہے یا پھر کسی بیرونی حرکت کا جواب دے رہا ہے۔‘
بیلفاسٹ کی کمپنی ایگزامین بھی ایک تکنیک کا استعمال کر رہی ہے جسے ’سنگل سیل جیل الیکٹروفوریسس‘ کہتے ہیں جس کی مدد سے کسی سپرم میں ڈی این اے کو پہنچنے والے نقصان کی شناخت کی جا سکتی ہے۔
پروفیسر شینا لیوس اور ان کی ٹیم 20 سال سے ایک تکنیک تیار کرنے پر کام کر رہی ہے۔
کوینز یونیورسٹی کی ایمریٹس پروفیسر جو ایگزامین کی چیف ایگزیکٹیو بھی ہیں کا کہنا ہے کہ مصنوعی ذہانت بہت حوصلہ افزا ہے لیکن ’طب کا شعبہ سست رفتاری سے آگے بڑھتا ہے۔‘
’مثال کے طور پر سپرم سرچ اس وقت پروف آف کنسیپٹ کے مرحلے میں ہیں جس سے قبل صرف سات مریضوں پر تجربہ کیا گیا۔‘
پروفیسر لیوس کا کہنا ہے کہ ’یہ کافی نہیں۔ پروف آف کنسیپٹ سے مارکیٹ تک پہنچنے میں دو سے پانچ سال لگ سکتے ہیں۔‘
’ابھی بہت وقت لگے گا۔ دوسرا یہ مردوں کے ایک محدود حصے کے لیے ہے۔ آپ جو بھی کریں وہ اچھا ہو گا لیکن سب کے لیے نہیں ہو گا۔‘
سڈنی میں ڈاکٹڑ سٹیون کہتے ہیں کہ ان کا ’دریافت کردہ علاج آخری سٹاپ ہے۔‘
’اگر ہم ایمبریالوجسٹ کو زیادہ بہتر، زیادہ درست کام کرنے میں مدد کر سکتے ہیں تو وہ ایسے سپرم ڈھونڈ نکالیں گے جو وہ پہلے نہیں تلاش کر پاتے۔ اس کی مدد سے کسی مرد کو یہ موقع مل سکے گا کہ وہ اپنے بچوں کا باپ بن سکے۔‘
ان کی ٹیم اب اپنے سافٹ ویئر کو کلینیکل ٹرائل میں لے جا رہی ہے۔ ڈاکٹر سٹیون کا کہنا ہے کہ ’ایک اصلی اور حقیقی حمل اگلا قدم ہے۔‘