کوئلے کی کان کے نوعمر مزدور: ’پانی یا ریت گرنے کی آواز بھی آتی تو میری چیخیں نکل جاتی تھیں‘

بی بی سی اردو  |  Sep 08, 2023

BBCحاجی رحمان اور ان کا بھانجا سربتی خان ہرنائی کی ایک کان میں حادثے کے دوران مارے گئے

’پہلی مرتبہ کوئلے کی اندھیری کان میں اترنا انتہائی خوفناک ہوتا ہے، جہاں پانی کے قطرے یا ریت کے گرنے کی آواز سے بھی چیخیں نکل جاتی ہیں۔‘

یہ کہنا ہے نوجوان نعیم اللہ کا، جو شانگلہ کے کئی دوسرے کم عمر لڑکوں کی طرح کوئلے کی کانوں میں کام کے لیے گئے۔

پاکستان کے صوبہ خیبرپختونخوا کے ضلع شانگلہ میں غربت سے تنگ خاندان کم عمری میں ہی اپنے بچوں کو کوئلے کی کانوں میں کام کے لیے بھیج دیتے ہیں جہاں سے معاوضہ تو قدرے بہتر ملتا ہے لیکن کبھی کبھار وہ خود واپس نہیں آتے بلکہ ان کی لاشیں لائی جاتی ہیں۔

اس سال اگست کے مہینے میں صرف شانگلہ شہر میں کوئلے کی کانوں میں کام کرنے والے گیارہ مزدوروں کی لاشیں لائی گئی ہیں جن میں دو نوجوان لڑکے تھے۔ دونوں کی عمریں 19 سال اور 17 سال بتائی گئی ہیں۔

’ڈاکٹر بننے کے لیے کوئلے کی کان میں اترا‘

نعیم اللہ کو بچپن سے ڈاکٹر بننے کا شوق تھا۔ ان کے میٹرک کے پرچے بھی اچھے ہوئے تھے لیکن والد نے کہا کہ مزید تعلیم کے لیے ان کے پاس رقم نہیں۔

نعیم بتاتے ہیں کہ ’میرے والد ٹرک ڈرائیور ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ اس سے اتنی ہی آمدن ہوتی ہے کہ گھر کے خرچے مشکل سے پورے ہوتے ہیں تعلیمی اخراجات برداشت کرنا مشکل ہے۔‘

نعیم اللہ نے بتایا کہ میٹرک کے امتحان کے بعد وہ کوئلے کی کان میں مزدوری کرنے چلے گئے تھے۔

وہ بتاتے ہیں ’پہلا دن بہت خوفناک تھا۔ ٹھیلے پر بیٹھ کر نیچے جا رہے تھے تو اندھیرا پھیلتا گیا اور پھر اچانک ہی ٹھیلہ گہرائی میں چلا گیا جہاں مکمل اندھیرا تھا۔ سر پر لائٹباندھی ہوئی تھی جس سے کچھ روشنی ہوتی تھی لیکن عجیب سی گھٹن مجھے محسوس ہو رہی تھی، کام شروع کیا تو اگر کہیں پانی گرتا یا کہیں سے ریت گرنے کی آواز بھی آتی تو میری چیخیں نکل جاتی تھیں۔‘

نعیم اللہ نے بتایا کہ ’دل ہی دل میں یہ دعا کر رہا تھا کہ اللہ کرے آج کا یہ دن جلدی گزر جائے، شام کو اس کان سے تو باہر نکلوں گا۔ اس طرح کرتے کرتے ایک مہینہ کام کیا جس کی اجرت 35000 روپے ملی تھی اور اس رقم سے پھر ایف ایس سی میں داخلہ کیا۔ اسی طرح ٹیوشن کے لیے رقم چاہیے تھی تو پھر چھٹیوں میں کوئلے کی کان میں چلا گیا۔‘

نعیم اللہ نے بتایا کہ ’ڈاکٹر بننے کے لیے زیادہ پیسے چاہیے تھے میرے پاس اتنی رقم نہیں تھی اس لیے بی ایس ایم ایل ٹی میں داخلہ لے لیا تھا۔ ‘

انھوں نے بتایا کہ ’پہلے سمیسٹر میں کالج میں ٹاپ کیا لیکن دوسرے سمیسٹر کے پیسے نہیں تھے اس لیے امتحان نہیں دے سکا۔ اب ستمبر میں امتحان ہے اس کی تیاری کر رہا ہوں۔‘

BBCنعیم اللہ نے بتایا کہ میٹرک کے امتحان کے بعد وہ کوئلے کی کان میں مزدوری کرنے چلے گئے تھے تاکہ کالج کی فیس کے لیے پیسے جمع کر سکیںپرنسپل اور اساتذہ بھی پریشان

شانگلہ میں حالیہ کچھ عرصے کے دوران کم عمر لڑکوں کے کوئلے کی کانوں میں کام کرنے پر مقامی سکولوں میں بھی تشویش پائی جاتی ہے۔

الپوری کے قریب کوز کانا میں ایک سرکاری سکول کے پرنسپل عبدالرحمان نے بتایا کہ گذشتہ سال ایک ہونہار طالبعلم محمد شعیب میٹرک کا امتحان دے کر کوئلے کی کان میں کام کے لیے چلا گیا تھا۔

کچھ ماہ بعد معلوم ہوا کہ محمد شعیب کوئلے کی ایک کان میں پانی بھر جانے سے ہلاک ہو گیا اور اس کی لاش شانگلہ آئی تھی۔

انھوں نے کلاس روم میں ایک نشست کی طرف اشارہ کرتے ہوئے بتایا کہ ’وہ یہاں بیٹھا کرتا تھا۔ اکثر بریک میں وہ باہر نہیں جاتا تھا بلکہ کتابیں پڑھتا رہتا تھا ۔ میٹرک کا نتیجہ آیا تو محمد شعیب کے 967 نمر آئے تھے۔‘

ان کا کہنا تھا کہ محمد شعیب کی مارک شیٹ دیکھ پر ہم سب اساتذہ کے آنسو نکل آئے۔

انھوں نے بتایا کہ صرف محمد شعیب نہیں بلکہ متعدد بچے چھٹیوں میں اور امتحانات سے فارغ ہونے کے بعد کوئلے کی کانوں میں چلے جاتے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ بنیادی وجہ تو غربت ہے لیکن ان کے لیے اس میں کشش یہ ہے کہ شاید مزدوری زیادہ ملتی ہے اور دوسرا یہ کہ علاقے کے لوگ وہاں زیادہ ہوتے ہیں تو یہ ان کے لیے بھی وہاں چلے جاتے ہیں۔

BBCنسل در نسل مزدور

عبدلواحد کی عمر لگ بھگ 68 سال ہے اور وہ خود بھی اس عمر میں کوئلے کی کان میں کام کرتے ہیں۔

چند روز پہلے ان کے گھر دو لاشیں آئی ہیں، جن میں سے ایک لاش ان کے بیٹے اور ایک ان کے پوتے کی تھی۔ یہ دونوں چچا بھتیجا ایک ساتھ کام کے لیے گئے اور دونوں کی لاشیں ایک گاڑی کی چھت پر رکھ کر لائی گئیں۔

عبدالواحد نے بتایا کہ وہ خود کم عمری میں ہی کوئلے کی کان میں کام کے لیے چلے گئے تھے۔

’میرے نو بیٹے ہیں اور سب کے سب کوئلے کے کاروبار سے وابستہ ہیں۔ ان میں سب سے چھوٹا بیٹا رحمان چند روز پہلے بلوچستان میں کوئلے کی کان میں ایک حادثے میں ہلاک ہو گیا۔ اس کے ساتھ میرا پوتا سربتی خان بھی تھا جو اس حادثے میں مارا گیا۔‘

عبدلواحد اپنے دو بیٹوں اور دیگر مزدوروں کے ساتھ شانگلہ میں کوز کانا کے مقام پر چائے کے ایک ہوٹل میں بیٹھے تھے۔ اپنے بیٹے اور پوتے کی ہلاکت کے بعد پہلی مرتبہ وہ پہاڑ سے اتر کر یہاں شہر آئے تھے۔

ان مزدوروں کے مکان الپوری میں پہاڑ پر ہیں جہاں صرف جیپ جا سکتی ہے۔

عبدلواحد نے بتایا کہ ’یہاں غربت ہے اسی وجہ سے مجبور ہو کر اس کام پر جاتے ہیں اور مزدوری کرتے ہیں۔ کسی کے آگے ہاتھ نہیں پھیلا سکتے۔‘

ان سے جب پوچھا کہ یہاں اپنے شہر میں کوئی مزدوری کیوں نہیں کرتے تو ان کا کہنا تھا کہ ’یہاں مزدوری کے یومیہ 500 روپے ملتے ہیں لیکن کوئلے کی کان میں کام کرنے سے ہزار پندرہ سو روپے مل جاتے ہیں۔ آپ خود سوچیں ان پانچ سو روپے میں آٹے کا تھیلہ نہیں ملتا اس لیے اپنی جان خطرے میں ڈال کر کوئلے کی کان میں کام کرتے ہیں۔‘

عبدلواحد کے ساتھ ان کے بڑے بیٹے گل رحمان بھی بیٹھے تھے۔ گل رحمان کا بیٹا ہرنائی میں کوئلے کی کان میں ہلاک ہو گیا تھا۔

گل رحمان نے بتایا کہ ’جس وقت حادثہ ہوا وہ خود وہاں موجود تھے۔ میرا بیٹا اور چھوٹا بھائی اس وقت کان کے اندر تھے کہ مجھے اطلاع ملی کہ حادثہ ہو گیا ہے۔ ہم بھاگے اور کوششیں شروع کیں کہ انھیں نکالا جائے، سخت پریشانی تھی لیکن باہر سے کچھ نہیں کر سکتے تھے۔ تھوڑی دیر بعد معلوم ہوا کہ وہ دونوں جان کی بازی ہار چکے ہیں۔ ان دونوں کی لاشیں کسی ایمبولینس میں شانگلہ نہیں لائی گئیں بلکہ ایک کوچ کی چھت پر تابوت رکھے ہوئے تھے۔‘

شانگلہ میں مقامی لوگوں کا کہنا ہے کہ یہاں سے مزدور زیادہ معاوضے کی کشش میں کوئلے کی کانوں میں جا کر محنت کرتے ہیں اور ٹھیکے پر کام لے کر کم وقت میں زیادہ کوئلہ نکالنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اس کے علاوہ وہاں موجود پہلے سے کام کرنے والے مزدور بھی لوگوں کو پر کشش صورتحال بتاتے ہیں کیونکہ ہر نئے مزدور کے آنے پر وہ کوئلے کی کان کے مالک یا مینجر سے کمیشن بھی لیتے ہیں۔

خیبر پختونخوا کے پسماندہ شہر شانگلہ کی 70 فیصد آبادی کوئلے کے کاروبار سے منسلک ہیں اور ان میں بڑی تعداد میں کانوں میں کام کرنے والے مزدوروں کی ہے۔

BBC(فائل فوٹو)درجنوں ہلاک اور معذور

پاکستان میں کوئلے کی کانوں میں کام کرنے والے مزدوروں کے حالات اس حد تک مشکل ہیں کہ ان مزدوروں کی فلاح کے لیے کام کرنے والی تنظیمشانگلہ مائنز ویلفیئر آرگنائزیشن کے عہدیدار عابد یار نے بتایا کہ اوسطاً ہر سال پاکستان میں 200 سے 250 مزدور کوئلے کی کانوں میں کام کے دوران ہلاک ہو جاتے ہیں اور ان میں زیادہ تعداد شانگلہ سے تعلق رکھنے والے مزدوروں کی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ اس سال اب تک 112 مزدور ہلاک ہو چکے ہیں۔

وہ بتاتے ہیں کہ کانوں میں کام کرنے والے مزدوروں کی بڑی تعداد ایسی بھی ہے جو زندہ تو ہوتے ہیں لیکن معذور ہو جاتے ہیں یا سخت بیمار ہوتے جاتے ہیں اور انتہائی کسمپرسی کی زندگی گزارتے ہیں۔

تنظیم کے صدر علی باش کے مطابق شانگلہ میں برسوں سے اس صنعت سے وابستہ مزدوروں میں 70 ہزار کے قریب ایسے مزدور ہیں جو پھیپھڑوں اور گردوں کے مسائل کا شکار ہونے کے باعث شدید بیمار ہیں۔ اس کی وجہ کانوں کے اندر حفاظتی انتظامات کے بغیر زیادہ عرصے تک کام کرتے رہنے سے گیسوں اور آلودگی سے براہ راست رابطہ ہے۔

انھوں نے بتایا 270 مزدور ایسے ہیں جو حادثات کے باعث جسمانی معذوری کا شکار ہو چکے ہیں۔

انھوں نے کہا کہ ’کوئلے کی کانوں کے مالکان یا مینیجر اور ٹھیکیداروں کے درمیان ملی بھگت ہوتی ہے اور کان کے مالکان پر کوئی ہاتھ نہیں ڈال سکتا۔ حکومت اگر کان بند کر دیتی ہے تو مالکان خود کھول کر پھر سے کام شروع کر دیتے ہیں اور مزدوروں کو کان کے اندر اتار دیتے ہیں۔ حکومت ان کوئلہ کانوں کو بند نہیں کر سکتی۔‘

وہ کہتے ہیں کہ ’پاکستان میں اس حوالے سے اب تک سنہ 1852 کا قانون لاگو ہے اور اس میں کوئی بہتری نہیں لائی گئی۔ اگر ان مائن مالکان کے خلاف سخت کارروائی کی جائے تو حالات کچھ بہتر ہو سکتے ہیں۔‘

واضح رہے کہ پاکستان میں کوئلے کی کانوں میں کام کرنے والے مزدوروں کو کوئی تربیت نہیں دی جاتی اور نہ یہ بتایا جاتا ہے کہ کیا احتیاطی تدابیر اختیار کی جا سکتی ہیں۔

پاکستان میں زیادہ تر کوئلے کی کانیں بلوچستان میں ہیں اور وہاں سب سے زیادہ حادثات پیش آتے ہیں۔

پاکستان سینٹرل مائنر لیبر فیڈریشن کے ریکارڈ کے مطابق سال 2022 میں کل 280 حادثات پیش آئے، جن میں بلوچستان میں 136 جبکہ خیبر پختونخوا میں 80 ، پنجاب میں 46 اور صوبہ سندھ میں 18 حادثات پیش آئے۔

BBC اوسطاً ہر سال پاکستان میں 200 سے 250 مزدور کوئلے کی کانوں میں کام کے دوران ہلاک ہو جاتے ہیں مقامی انتظامیہ کیا کر رہی ہے؟

کوئلے کی کانوں میں کام کرنے والے مزدوروں کے بارے میں اب تک یہ بھی واضح نہیں کہ کیا ان کا تعلق لیبر ڈیپارٹمنٹ سے ہے یا محکمہ معدنیات کے ساتھ وابستہ ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ان مزدوروں کے لیے کوئی واضح پالیسی، ان کی رجسٹریشن یا ان کی فلاح کے لیے کوئی ٹھوس بنیادوں پر کام نہیں کیا جا سکا۔

ان مزدوروں کی تنظیم سے وابستہ علی باش خان کا کہنا تھا کہ ’اس ملک میں مزدور کے پسینے کی قدر نہیں۔ یہ مزدور کام کے لیے چلے جاتے ہیں وہاں سے ان کی لاشیں آتی ہیں لیکن حکومت اس بارے میں کوئی اقدامات نہیں کر رہی۔ وہ اپنے طور پر ان مزدوروں کے لیے آواز اٹھاتے ہیں اور ان مزدوروں کی آگہی کے لیے بھی کام کرتے ہیں لیکن عمل درآمد کہیں نہیں ہو رہا۔‘

شانگلہ کے ایڈیشنل ڈپٹی کمشنر عزیزاللہ جان نے بی بی سی کو بتایا کہ ان بڑھتے ہوئے واقعات کے بعد انھوں نے سکولوں میں آگہی مہم شروع کی تھی۔

ان کا کہنا تھا کہ ’یہ کوشش کی تھی کہ کم عمر نوجوان اس طرف نہ جائیں لیکن حکومت ان کو جانے سے روک نہیں سکتی خاص طور پر اگر اٹھارہ سال سے زیادہ کے ہیں تو حکومت یا انتظامیہ انھیں کیسے روک سکتی ہے۔‘

مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More