پاکستان میں احمدی برادری: ’روز یہ سوچ کر گھر سے نکلتا ہوں کہ شاید آج میری زندگی کا آخری دن ہو‘

بی بی سی اردو  |  Sep 07, 2023

Getty Images’جو منظر میرے سامنے تھا وہ آج بھی دل و دماغ سے نکلنے کا نام نہیں لیتا اور اس کا سوچ کر ہی جسم پر ایک کپکپی سی طاری ہو جاتی ہے‘

سنہ 2004 کی ایک سرد شام، جب میں اپنے دوست کے ہمراہ ٹیوشن اکیڈمی سے فارغ ہو کر نکلا تو میرے لیے تو اکیڈمی سے سوزوکی سٹینڈ تک تقریباً دس منٹ کا پیدل راستہ تھا مگر میرے دوست کا گھر قریب ہی تھا۔

چند منٹ میرے ساتھ پیدل چلنے کے بعد میرے دوست نے اپنے گھر کی راہ لی اور میں اکیلا اُس سوزوکی سٹینڈ کی جانب چل پڑا جہاں سے میں نے اپنے گھر کے لیے سوزوکی پر سوار ہونا تھا۔

کچھ دیر پیدل چلنے کے بعد یوں گمان ہوا کہ شاید کوئی قدرے تیز قدموں کے ساتھ میرے قریب آنے کی کوشش کر رہا ہے۔ کچھ وقت کے لیے تو میں نے توجہ نہ دینے اور چلتے رہنے کا فیصلہ کیا مگر ایک لمحہ ایسا آیا کہ جب میں پیچھے مُڑ کر دیکھنے پر مجبور ہو گیا۔

جو منظر میرے سامنے تھا وہ آج بھی دل و دماغ سے نکلنے کا نام نہیں لیتا اور اس کا سوچ کر ہی جسم پر ایک کپکپی سی طاری ہو جاتی ہے۔

میں نے جب پیچھے مُڑ کر دیکھا تو ایک نقاب پوش شخص میری جانب پستول تانے کھڑا تھا اور اس سے قبل کہ میں کچھ سمجھ پاتا اسی لمحے مجھ پر دو گولیاں چلیں۔

یہ صوبہ خیبر پختونخوا کا ایک گنجان آباد شہر تھا جہاں میں نے اپنا بچپن گُزارا تھا۔ اُسی شہر کی گلیوں میں میں کھیل کود کر بڑا ہوا، یہی شہر اُس وقت میری کُل دُنیا تھا۔ میں عمر کے اس حصے میں تھا جہاں آپ اپنے شہر سے باہر کوئی دنیا موجود ہونے کے بارے میں سوچتے بھی نہیں۔

اس قاتلانہ حملے کی وجہ میرے عقائد اور میرا مذہب تھا۔ میرا تعلق پاکستان میں سنہ 1974 میں اقلیت قرار دی جانے والی جماعت احمدیہ سے ہے۔

کسی کے پیچھا کرنے کے تصور نے مجھے چونکا دیا تھا اور اس کی بھی ایک وجہ تھی۔

BBC

اس حملے سے چند روز قبل مجھے ایک سرکاری ادارے میں چھوٹی سی ملازمت ملی جہاں کسی نے میرے مذہبی عقائد کے بارے میں لوگوں کو بتا دیا۔

اس کے بعد ایک کمرے میں چند سینیئر کولیگز نے بُلا کر پہلے تو میرے مذہبی عقیدے کی بابت تصدیق کی اور بعد میں وہ اس بات پر اصرار کرنے لگے کہ اس سے پہلے کہ ’ہم اپنے آپے سے باہر ہو جائیں تم اپنا قبلہ درست کر لو اور کلمہ پڑھ کر اپنے عقائد سے توبہ کر لو۔‘

اسی بحث اور میرے ایسا نہ کرنے کے اصرار پر ایک دوست، جو انھی میں شامل تھا، نے میرا ہاتھ پکڑا اور مجھے کمرے سے یہ کہتے ہوئے باہر لے کر نکلا کہ ’آپ سب ہمارا انتظار کریں میں اسے ایسا کرنے پر راضی کر کے واپس لے کر آتا ہوں۔‘

وہ مجھے لے کر دفتر کے مرکزی دروازے پر پہنچا۔ میرے سامنے بھری آنکھوں کے ساتھ ہاتھ جوڑے اور کہا ’یار خدا کے لیے بھاگ جا، یہ تجھے نہیں چھوڑیں گے۔‘

میں نہیں جانتا کہ میرے ساتھ کی جانے والی اس نیکی کے بدلے میرے اُسے دوست کو کیا سزا ملی۔

اس شہر سے محبت کی ایک بڑی وجہ یہ بھی تھی کہ متوسط گھرانے سے تعلق رکھنے اور والد کی ملازمت کی وجہ سے اس شہر سے زیادہ دیر کے لیے کبھی باہر نہیں رہا تھا اور شاید ابا جان ہمیں خود سے دور اس وجہ سے بھی نہیں کرتے تھے کیونکہ وہ 80 کی دہائی میں احمدیوں کے خلاف ہونے والے جلاؤ گھراؤ اور قتل و غارت کے واقعات کے چشم دید گواہ بھی تھے۔

وہ اکثر ہمیں شام ڈھلنے سے قبل گھر لوٹنے کی تاکید کیا کرتے تھے اور اس واقعے سے پہلے تک مُجھے ابا جان کے جلد گھر لوٹنے کا کہنے کی وجہ بھی معلوم نہیں تھی۔

مگر اُس سرد شام کے حملے نے میری زندگی میں بہت سی چیزیں بدل کر رکھ دیں، گھر سے نکلنا انتہائی محدود ہو گیا، بچپن کے دوست چھوٹ گئے، کرکٹ اور سوئمنگ تک اپنے تمام شوق چھوڑنا پڑے۔

میں نے شاید زندگی میں پہلی مرتبہ اُس شہر کو مجبوراً چھوڑنے کا فیصلہ کیا۔ دل و دماغ میں بہت سی چیزیں تھیں 19 سال کی عُمر میں ہونے کے باوجود گھر سے شام کے بعد اکیلے باہر نہ نکلنے کی تاکید کرنے والے والدین کے کہنے پر میں نے شہر چھوڑنے کا فیصلہ کیا۔

BBCخیبرپختونخوا سے ایک اور بڑے شہر کا سفر

رات کی تاریکی میں وہ شہر چھوڑا جہاں میں پیدا ہوا تھا، سکول گیا تھا اور اپنا بچپن گزار۔ یہاں سے میں پاکستان کے ایک بڑے شہر یہ سوچ لیے ہوا پہنچا کہ شاید وہاں زندگی پُرسکون گزرے گی اور کسی کو شاید یہ نہ پتا چل سکے گا کہ میرے عقائد کیا ہیں یا میرا تعلق کس مذہب سے ہے۔

بس سٹینڈ سے مسافر مکمل ہونے پر گاڑی چلی تو رات کا وقت اور ذہنی تھکاوٹ کے باوجود آنکھوں میں نیند نہیں تھی، ہاں ایک عجیب سا خوف ضرور تھا۔ اُس رات کے نہ ختم ہونے والے سفر کے دوران ذہن میں گھومنے والے چند سوالوں میں کہ کہاں رہوں گا، کون رکھے گا، کیا کروں گا، کیسے کروں گا، تعلیم جاری رہے گی کہ چھوڑ کر کوئی ملازمت کرنا پڑے گی جیسے نا جانے کون کون سے سوال آتے اور جاتے رہے۔

مطلوبہ مقام پر پہنچا تو میری ماں جیسی انتہائی شفیق خالہ اور والد کی طرح کے پیار کرنے والے خالو نے میرے لیے اپنے گھر کے دورازے کھول دیے۔ بڑے بھائی پہلے سے ہی اُن کے ہاں رہ رہے تھے۔

ابا جان نے میرے شہر چھوڑنے کے بعد اپنی سرکاری ملازمت چھوڑنے کا فیصلہ کیا کیونکہ اُنھیں بھی ترقی دینے کے لیے انتطامیہ نے یہ شرط رکھی کہ اپنا مذہب تبدیل کر لیں تو ترقی میں کوئی رکاوٹ نہیں فوراً مل جائے گی۔

اس سب سے تنگ آ کر انھوں نے بھی چند سال کے اندر ہی اُسی شہر منتقل ہونے کا فیصلہ کیا جہاں ہم دونوں بھائی رہ رہے تھے۔

نئے شہر میں جہاں ہم نے مکان کرائے پر حاصل کیا تو وہاں چند ماہ تو پُرسکون گُزرے مگر ایک دن جب ابا جان صبح سویرے سیر کے لیے نکلے تو گھر کا مرکزی دروازہ کھولنے میں مُشکل ہوئی۔ کوشش کرنے پر جب دروازہ کھلا تو دروازے کے باہر کی جانب ہمارے خلاف (جماعت احمدیہ) سات سے آٹھ مختلف سٹیکرز چسپاں تھے جن پر احمدیوں کے ساتھ تعلق، لین دین اور اُن کے واجب قتل ہونے سے متعلق الفاظ اور نعرے تحریر تھے۔

اُس دن کے بعد سے ہم نے محتاط ہو کر رہنے کا فیصلہ کیا مگر چند ہی دن میں اس کے اثرات سامنے آنے لگے۔ مقامی دکانداروں نے بائیکاٹ کیا، حالات یہاں تک پہنچے کے گھر کی صفائی کے لیے جھاڑو جیسی عام سی چیز کے لیے بھی ہمیں اپنی مقامی مارکیٹ کے بجائے شہر کے دیگر ایسے بازاروں تک جانا پڑتا تھا جہاں ہمیں کوئی جانتا پہچانتا نہیں تھا۔

احمدی ہونے کی وجہ سے کرائے پر مکان ملنے میں مُشکلاتGetty Images

سٹیکرز چسپاں ہونے کے واقعے کے بعد مالک مکان پر دباؤ ڈالا گیا اور ہمیں گھر خالی کرنا پڑا، جہاں اس کے بعد منتقل ہوئے وہاں بھی پانچ ماہ بعد ہمارے عقائد کے بارے میں پتہ چل گیا۔ گھر کی خواتین کے مخصوص برقعوں اور مردوں کے مقامی مساجد میں نہ جانے، علاقے میں پہلے سے رہنے والے احمدیوں سے تعلقات کی وجہ سے ہماری نشاندہی آسانی سے ہو جاتی تھی۔

حتیٰ کہ ایک مکان کرائے پر حاصل کرنے کے لیے بیانہ اور سکیورٹی تک دے دیا مگر جب شفٹنگ کے لیے گھر کی چابی مانگی تو مالک مکان نے یہ کہہ کر انکار کر دیا اور پیسے ہاتھ میں تھمانے کی بجائے زمین پر رکھ دیے کہ آپ تو ’کافر‘ ہیں۔

اس بڑے اور محفوظ سمجھے جانے والے شہر میں اب تک ہم کئی مکانات تبدیل کر چُکے ہیں، اخبار والا اخبار نہیں دیتا کہ آپ احمدی ہیں، دودھ والا دودھ نہیں دیتا کہ آپ احمدی ہیں۔

حالات مُشکل سے مُشکل تر ہوتے جا رہے ہیں

چند ماہ قبل ہمارے حاندان کو تب ایک اور مُشکل اور تکلیف دہ وقت سے گُزرنا پڑا جب میرے کزن کی بیٹی کو ورغلا کر اغوا کر لیا گیا۔ طویل تگ و دو اور پولیس کی مدد سے جب ہم اُن کے بارے میں پتا لگانے میں کامیاب ہوئے تو عدالت میں پہنچ کر یہ بیان دلوا دیا گیا کہ ’میں نے اپنے والدین اور اپنے گھر کو اپنی مرضی سے چھوڑا اور میں اب اُن سے کوئی تعلق نہیں رکھنا چاہتی۔‘

اُس بچی کے اس بیان کے ساتھ ہی ایک نکاح نامہ بھی عدالت میں جمع کروا کر پولیس کو مزید کارروائی سے روک دیا گیا۔

اس واقعے کے کُچھ دن بعد جب علاقے میں اثرو رسوخ رکھنے والے افراد سے رابطہ کیا گیا تو انھوں نے مدد کرنے یقین دہائی کروائی مگر ایک دن اُن کی جانب سے بھی یہ کہہ کر جواب دے دیا گیا کہ آپ کے بارے میں ہمیں معلوم ہوا ہے کہ آپ کا تعلق ’جماعت احمدیہ‘ سے ہے۔

میرے اُن کزن کا تعلق مزدور طبقے سے تھا۔ وسائل کی کمی اور عدالتوں کے چکروں نے اُن سے ان کی جمع پونجی تک چھین لی مگر بے بس ہو کر اُس باپ کو اب اپنی بیٹی کی واپسی کی کوئی اُمید نظر نہیں آتی۔

ان حالات کا سامنا صرف مجھے یا میرے گھر والوں کو نہیں بلکہ پاکستان میں بسنے والے سینکڑوں ہزاروں احمدیوں کو ہے جن کے شب و روز اسی خوف کے سائے میں گزرتے ہیں کہ کب کوئی اُن کی جان و مال پر صرف اُن کے عقیدے کی وجہ سے حملہ آور ہو جائے۔

آج میں شادی شدہ ہوں اور دو بچوں کا باپ ہوں۔ میں آج بھی اپنے بزرگ والدین کے ساتھ رہتا ہوں مگر اس کے باوجود شام ڈھلتے ہی اگر گھر پہنچنے میں تاخیر ہو جائے تو ابا جان کا فون یہ جاننے کیے لیے آتا ہے کہ میں اب تک گھر کیوں نہیں پہنچا، سب خیر تو ہے نہ؟

میری جانب سے گھر پہنچنے میں تھوڑی سی بھی تاخیر والدین کے لیے پریشانی کا باعث ہوتی ہے۔ میرے ساتھ جو بھی ہوا، میرے وہ سب زخم آج بھی اُس وقت تازہ ہو جاتے ہیں جب بھی مجھے کسی اور احمدی کے ساتھ پیش آنے والے تکلیف دہ واقعے کے بارے میں پتا چلتا ہے۔

میرے دل سے اس مُلک کے لیے موجود محبت کوئی نہیں نکال سکتا، یہاں اپنے ہیں مگر موجودہ حالات کو دیکھ کر اپنے بچوں کے مستقبل کا سوچ کر نہ چاہتے ہوئے بھی بھری آنکھوں اور ٹوٹے دل کے ساتھ اُس شہر کی طرح اس مُلک کو بھی چھوڑ جانے کا دل کرنے لگا ہے۔

بزرگ والدین بھی یہ کہنے لگے ہیں کہ بچوں کو لے کر یہاں سے چلے جاؤ مگر آج تک اُن سے یہ نہیں کہہ پایا کہ اپنی زندگی سے زیادہ عزیر اُن دو سایہ دار درختوں کو چھوڑ کر کیسے کہیں اور اپنا گھر بناؤں گا؟

Getty Imagesگذشتہ 49 سال کے دوران بہت سے احمدیوں کو صرف ان کی مذہبی عقائد کی بنیاد پر قتل کیا گیاسات ستمبر 1974: دوسری آئینی ترمیم میں کیا تھا؟

جماعت احمدیہ کے اراکین سنہ 1974 سے پہلے مسلمانوں کا ہی ایک فرقہ گردانے جاتے تھے لیکن ذوالفقار علی بھٹو کے دور میں پارلیمان نے انھیں غیر مسلم قرار دے دیا تھا۔

تاہم سلسلہ یہیں نہیں رُکا بلکہ سنہ 1984 میں فوجی صدر جنرل ضیا الحق کے دور میں احمدیہ برادری کے خلاف ایک آرڈیننس جاری کیا گیا۔

اس آرڈیننس کے مطابق تعزیرات پاکستان کی دفعہ 298 بی اور 298 سی کے تحت اب جماعت احمدیہ کا کوئی رکن خود کو مسلمان ظاہر کرے، اپنی عبادت گاہوں کے لیے کوئی اسلامی اصطلاح استعمال کرے، ’اسلام وعلیکم‘ کہے یا ’بسم اللہ‘ پڑھے، اپنی عبادت گاہ کو مسجد کہے یا وہاں اذان دے تو اسے تین برس قید کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔

سنہ 1974 کے بعد آج احمدیوں کو غیر مسلم قرار دیے جانے کے سرکاری فیصلے کو 49 سال مکمل ہو چکے ہیں۔

گذشتہ 49 سال کے دوران بہت سے احمدیوں کو صرف ان کی مذہبی عقائد کی بنیاد پر قتل کیا گیا، ان کی املاک پر حملے کیے گئے جس کے باعث بہت سے احمدی گھرانے نہ صرف اپنا گھر بار بلکہ ملک چھوڑنے پر مجبور ہوئے۔

49 سال بعد بھی یہ نفرت تھمنے کا نام نہیں لے رہی اور احمدی عبادت گاہوں پر تواتر سے حملے کیے جا رہے ہیں۔

اس صورتحال کے پیش نظر سچ پوچھیے تو میں آج بھی گھر سے یہ سوچ کر نکلتا ہوں کہ شاید آج میری زندگی کا آخری دن ہو۔

مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More