محمد علی جناح کو ’انڈیا‘ کے نام پر کیا اعتراض تھا اور انھوں نے اسے ’گمراہ کُن‘ کیوں قرار دیا؟

بی بی سی اردو  |  Sep 07, 2023

Getty Images

ہندوستان، انڈیا یا بھارت۔۔۔ آپ نے یہ تینوں نام تقسیم برصغیر کے بعد پاکستان کے ساتھ وجود میں آنے والی ہمسایہ ریاست انڈیا کے لیے استعمال ہوتے ہوئے دیکھے ہوں گے۔ اگرچہ ہماری ہمسایہ ریاست کا سرکاری نام انڈیا ہی ہے مگر اب اسے تبدیل کر کے صرف ’بھارت‘ کہلانے کا شور ایک بار پھر اٹھ رہا ہے۔

انڈیا میں یہ مطالبہ پہلے بھی ہوتا رہا ہے مگر دلچسپ بات یہ ہے کہ ’انڈیا‘ وہ نام ہے جس پر تقسیمِ برصغیر کے وقت خود بانیِ پاکستان محمد علی جناح نے بھی اعتراض کیا تھا اور اسے ’گمراہ کُن‘ قرار دیا تھا۔

مؤرخین لکھتے ہیں کہ انڈیا نام نے ابتدائی دنوں سے ہی ریاست کے اندر بھی کشمکش کو جنم دیا تھا۔ انگریزوں نے برصغیر میں اپنی سلطنت کے نام کے طور پر یونانی زبان سے اخذ شدہ لفظ ’انڈیا‘ کا انتخاب کیا تھا اور اس نام کی نوآبادیاتی بنیاد نے دستور ساز اسمبلی میں اس کے استعمال پر کچھ اعتراضات اٹھائے تھے۔

’کوئی بھی ریاستبرطانوی لقب کو اپنانا نہیں چاہے گی‘

تاریخ دان جان کی نےاپنی کتاب ’انڈیا: اے ہسٹری‘ میں لکھا ہے کہ ’انڈیا‘ لفظ پر کوئی کشمکش نہیں تھی کیونکہ محمد علی جناح مسلمانوں کے نئے ملک کے لیے اسلامی نام ’پاکستان‘ منتخب کر لیا تھا۔‘

جان کی لکھتے ہیں کہ ’آزادی کے پہلے مرحلے میں ’بھارت‘ بہتر نام معلوم ہوتا تھا، کیونکہ لفظ ’انڈیا‘ نوآبادیاتی تضحیک سے بہت زیادہ متاثر تھا۔‘

اُن کے بقول ’اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جا سکتا تھا کہ سنسکرت ادب کے پورے مجموعے میں کہیں بھی ’انڈیا‘ کا ذکر نہیں کیا گیا۔ نہ ہی یہ اصطلاح بدھ مت یا جین تحریروں میں پائی جاتی ہے۔ اور نہ ہی یہ جنوبی ایشیا میں رائج دوسری زبانوں میں سے کسی میں بھی موجود تھا۔‘

جان کی لکھتے ہیں کہ ’محمد علی جناح اس تاثر میں تھے کہ کوئی بھی ریاست ’انڈیا‘ کے برطانوی لقب کو اپنانا نہیں چاہے گی۔ تاہم انھیں اپنی اس غلط فہمی کا اندازہ اُس وقت ہوا جب آخری برطانوی وائسرائے لارڈ ماؤنٹ بیٹن نے نہرو کے اس مطالبے کو تسلیم کر لیا تھا کہ ان کی ریاست ’انڈیا‘ کہلائے گی۔‘

وہ مزید لکھتے ہیں کہ ’ماؤنٹ بیٹن کے مطابق جناح کو جب پتہ چلا کہ وہ (نہرو اور کانگریس پارٹی) خود کو انڈیا کہلانے جا رہے ہیں تو وہ بہت غصے میں تھے۔ اس لفظ کے استعمال سے برصغیر کی بالادستی کا اشارہ ملتا ہے جسے پاکستان کبھی قبول نہ کرتا۔‘

تاریخ دان جان کی کے مطابق محمد علی جناح کے تحفظات کی ایک بڑی وجہ یہ بھی تھی کہ ’انڈیا‘ بنیادی طور پر دریائے سندھ کے آس پاس کے علاقے کو کہا جاتا تھا جس کا زیادہ تر حصہ پاکستان کے اندر تھا۔

تاریخ دان عائشہ جلالکے مطابق تقسیم کے بعد ماؤنٹ بیٹن ’یونین آف انڈیا‘ اور پاکستان دونوں کے لیے گورنر جنرل کی حیثیت سے کام جاری رکھنے کے لیے تیار تھے۔

وہ لکھتی ہیں کہ ’لیگی رہنما پاکستان کو ایک علیحدہ اور آزاد ریاست کے طور پر برقرار رکھنے کی اپنی صلاحیت کے بارے میں کافی گھبراہٹ کا شکار تھے۔ انھوں نے کانگریس کے ارادوں پر عدم اعتماد ظاہر کیا اور مسلم لیگ انڈیا کے ’یونین‘ کا لقب اختیار کرنے کے خلاف احتجاج کرتی رہی۔‘

’انڈیا گمراہ کن نام‘

’دی انڈین ایکسپریس‘ میں شائع ہونے والی ایک رپورٹ کے مطابق جنوبی ایشیائی قانون کے پروفیسر مارٹن لاؤ نے اپنے مقالے ’اسلام اینڈ دی کانسٹیٹیوشن فاؤنڈیشن آف پاکستان‘ میں جناح کی جانب سے انڈیا کے پہلے گورنر جنرل لارڈ ماؤنٹ بیٹن کو لکھے گئے خط کا حوالہ دیتے ہوئے لکھا کہ جناح نے شکایت کی تھی کہ ’انڈیا‘ نام ’گمراہ کن‘ اور ’الجھن پیدا کرنے والا‘ ہے۔

ستمبر 1947 میں ماؤنٹ بیٹن کی جانب سے محمد علی جناحکو لندن میں ہندوستانی آرٹ کی ایک نمائش کا اعزازی صدر بننے کی دعوت دی گئی۔ لاؤ لکھتے ہیں کہ محمد علی جناح نے ’انڈیا‘ نام استعمال کرنے کی وجہ سے اس دعوت نامے کو مسترد کر دیا اور ماؤنٹ بیٹن کو لکھا کہ ’افسوس کی بات ہے کہ کسی پراسرار وجہ سے ہندوستان نے لفظ’انڈیا‘ اپنا لیا ہے جو یقینی طور پر گمراہ کن ہے اور اس کا مقصد الجھن پیدا کرنا ہے۔‘

مسلم لیگ نے تقسیم ہند سے پہلے بھی ’یونین آف انڈیا‘ کے نام پر اعتراض کیا تھا، حالانکہ ایسا کرنے کی وجوہات کے بارے میں بہت کم وضاحت تھی۔

Getty Imagesنام بدلنے کی قانونی کوششیں

تقسیم کےدو سال بعد ستمبر 1949 میں جب انڈیا کی دستور ساز اسمبلی نے آئین کے مسودے پر بحث شروع کی تو ریاست کے لیے ’ہندوستان‘ کا نام بھی زیر غور آیا لیکن اسے مسترد کر دیا گیا۔

اب انڈیا کےآئین کے آرٹیکل 1 میں انگریزی ورژن میں ’انڈیا‘ اور ’بھارت‘ کا استعمال کیا گیا ہے، اور ہندی ورژن میں ’بھارت‘ کا استعمال کیا گیا ہے۔

بظاہر اب تک واقعتاً ’انڈیا‘ نام کو کسی چیلنج کا سامنا نہیں کرنا پڑااور یہ میڈیا میں بھی مستعمل ہونے لگا۔ البتہ سیاست کے اتار چڑھاؤ کے دوران کئی بار انڈیا کے بجائے ’بھارت‘ نام کو برقرار رکھے جانے کا مطالبہ سامنے آتا تھا۔

سنہ 2020 میں بھی انڈیا میں ملک کا نام بدلنے کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا جاتا رہا کہ انڈیا کا نام صرف بھارت کیا جائے۔ اس حوالے سے سپریم کورٹ میں ایک درخواست بھی دی گئی تھی۔

درخواست گزار نے عدالت سے کہا تھا کہ ’انڈیا‘ نام یونانی زبان کے لفظ ’انڈک‘ سے بنا ہے اور اس نام کو آئین سے ہٹایا جائے۔ درخواست گزار نے عدالت سے یہ بھی گذارش کی تھی کہ عدالت حکومت کو حکم دے کہ آئین کی آرٹیکل 1 میں تبدیلی کر کے انڈیا کا نام صرف بھارت رکھا جائے۔

سپریم کورٹ نے اس درخواست کو خارج کرتے ہوئے اس معاملے میں مداخلت کرنے سے انکار کر دیا ہے۔

عدالت نے کہا ہے کہ آئین میں پہلے سے ہی بھارت نام درج ہے۔ آئین میں لکھا ہے ’انڈیا دیٹ از بھارت‘ (یعنی انڈیا جو بھارت ہے۔)

اور آج کل انڈیا میں ایک مرتبہ پھر یہ بحث شد و مد سے جاری ہے جس کا آغاز اس وقت ہوا جب انڈیا میں جی 20 سربراہی اجلاس کے موقع پر انڈین صدر دروپدی مرمو کی جانب سے عشائیے کے لیے بھیجے گئے دعوت نامے پر لفظ ’پریزیڈنٹ آف انڈیا‘ کی جگہ ’پرزیڈنٹ آف بھارت‘ لکھا گیا۔

فی الحال نام کے معاملے پر یہ ہنگامہ انڈیا میں سیاسی کشیدگی کا باعث بن رہا ہے اور یہ دیکھنا باقی ہے کہ مرتبہ یہ اونٹ کس کروٹ بیٹھے گا۔

مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More